محبت
محبت کے لفظ میں مقناطیسی کشش ہے اور یہ لفظ جادو کے اثرات رکھتا ہے لیکن چار حرفوں سے بنا ہوا یہ لفظ کوئی اسمِ اعظم یا ماورائی تصور نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے، طبیعت کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے، باہمی ضرورت کا احساس کرنے، جذبوں کا احترام کرنے اور ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ اچھے اور برے وقتوں میں شوہر اور بیوی جس معاملہ فہمی اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہی بنیاد ہے مستحکم تعلقات کی اور اسی کا نام سچی محبت ہے۔ اگر یہ طرزِ عمل مسلسل جاری ہے تو اس میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ لازوال بن جاتی ہے۔ ورنہ اگر انسانی جذبوں کا احترام نہ کیا جائے تو دیگر تعلقات کی طرح دلوں کا یہ تعلق بھی کمزور پڑجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں گے کہ ایک ایک اینٹ جوڑ کر محبت کی فلک بوس عمارت بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن عمارت کی دیکھ ریکھ نہ ہو تو اس میں شگاف بھی پڑسکتے ہیں۔
یہ تو سچ ہے کہ شوہر اور بیوی زمانے کے سرد وگرم موسموں سے گزرتے ہیں اور وقتی طور پر الجھنیں اور تلخیاں بھی ضرور پیدا ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات محبت کی گرمجوشی کم ہو جاتی ہے۔ تاہم اس عارضی سرد مہری سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ باہمی ہمدردی، معاملہ فہمی اور حسنِ سلوک کی صفت موجود ہو تو تھوڑی سی بے رخی، ناراضگی یا بے تعلقی کے بعد یہ محبت لوٹ آتی ہے۔ محبت میں روٹھنے اور منانے کا عمل کوئی رخنہ نہیں پیدا کرتا۔ بلکہ اکثر یہ باعثِ برکت ثابت ہوتا ہے۔ محبت کی بنیاد اخلاق اور ایثار پر رکھی گئی ہو تو یہ ضرور پائیدار ہوگی۔
قبولیت
محبت کا دوسرا نام قبولیت بھی ہے یعنی جب دو خطا اور نسیان کے پتلے انسان: شوہر اور بیوی کی شکل میں محبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ فرشتے نہیں ہیں، نہ ہی وہ معصوم ہیں کہ ان کے اندر کوئی عیب اور خامی نہ ہو۔ بے عیب ذات تو صرف اللہ پاک کی ہے۔ انسانوں میں خوبیاں اور خامیاں دونوں بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کو اس کی تمام تر خوبیوں اور خرابیوں سمیت قبول کرنا پڑتا ہے۔ خوبیوں کو مزید اجاگر کرنے اور خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا دوسری بات ہے اور نہایت اچھی بات ہے۔ لیکن زندگی کے کسی دور میں بھی نہ تو شوہر انسان کامل بن سکتا ہے نہ بیوی خیرِ مجسم کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس لیے مزاج اور عادت کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظر انداز کرنے یا برداشت کرنے یا قبول کرلینے کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ اگر ایک انسان کی ذات سے مجموعی طور پر پیار ہے تو کبھی کبھی اس کی خامیاں بھی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ گویا یہ فریبِ نظر ہے لیکن ایسے فریب کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
شادی اکسیرِ اعظم نہیں
شادی، خواہ آپ نے اپنی پسند سے کی ہے یا والدین کی رضا مندی سے کوئی ایسا اکسیرِ اعظم نہیں جو ہر زخم کو بھردے، ہر غم کو بھلادے اور ہر مسئلے کا حل پیش کردے۔ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ اس کا شریکِ حیات اس کی زندگی کی ہر تلخی کو شیرینی میں بدل دے گا اور اس کی ذات کا کرب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا تو یہ خوش فہمی کی ایک شکل ہوسکتی ہے، سچائی نہیں۔ شوہر اور بیوی ایک جان دو قالب ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ الگ انسان ہیں۔ ان کی داخلی شخصیت میں ایک ایسی انفرادیت ہے جو دوسرے میں نہیں۔ دو منفرد شخصیتیں ایک منفرد شخصیت میں ضم نہیں ہوسکتیں۔ وہ محبت اور قربت کے باوجود دو وجود ہیں۔ دونوں شخصیتوں کا حسن اسی میں ہے کہ وہ گلاب اور چنبلی کی طرح اپنے اپنے رنگ اور انداز میں پروان چڑھیں اور پھولوں کی بیل کی طرح ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر گلزارِ حیات کی رونق بڑھائیں۔
اس بات کو یوں سمجھیں کہ دونوں الگ الگ خواب دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی تعبیر ایک سی نکال سکتے ہیں۔ دونوں کسی مسئلے پر مختلف انداز سے سوچتے اور بحث کرتے ہوئے آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ آپ یہ چاہیں کہ دونوں کے ذہن میں جو ہلچل ہے، خیالوں کے جو قافلے گزر رہے ہیں وہ بھی ایک جیسے ہی ہوں تو یہ ممکن نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنا خیال ظاہر کیا جائے اور دوسرے کو ہم خیال بنایا جائے یا اس کے خیال کو قبول کرلیا جائے۔ اگر ایک تجویز پیش کرے اور دوسرا تائید کرے تو یہ اظہارِ محبت کی بہترین صورت ہے۔
اتار چڑھاؤ فطری بات ہے
زندگی کا رنگ و آہنگ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ خارجی حالات سے داخلی زندگی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ شادی کے ابتدائی زمانے میں جو رنگینی اور گرمجوشی تھی وہی سدا قائم رہے تو یہ مشکل بات ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ محبت کے طور طریقے کچھ نہ کچھ ضرور بدل جاتے ہیں اور پہلے کے مقابلے میں فرق آجاتا ہے۔ لیکن فرق کے معنی محبت میں کمی نہیں بلکہ انداز کی تبدیلی ہے۔ شوہر اور بیوی کی زندگی ماہ و سال کی گردش کے ساتھ کتنے ہی مرحلوں سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ عنفوانِ شباب کا زمانہ، شادی کے بعد کا دور، والدین بن جانے کا مرحلہ اورآخر میں دادا دادی اور نانا نانی کی شکل میں بزرگانہ حیثیت اختیار کرجانے کی منزل۔ یہ سب باہمی محبت کے اعلان و اظہار کے مختلف طور طریقے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ زندگی کا فطری عمل ہے۔ شوہر اور بیوی میں اگر زندگی کے نشیب و فراز کا صحیح ادراک ہو تو وہ ہر دور میں خوش و خرم رہتے ہیں۔ محبت، جوانی میں بھی بوڑھی ہوسکتی ہے اور بڑھاپے میں بھی جوان رہ سکتی ہے۔ اس کا انحصار انسان کی سوچ اور طرزِ عمل پر ہے۔
الزام نہیں، ایثار
ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال رکھنا اور اپنی پریشانی کا سبب دوسرے کو قرار نہ دینا بڑی اہم بات ہے۔ زندگی میں مشکل حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مالی مشکلات، حادثات، بیماریاں اور ہزار قسم کی پریشانیاں انسان کو لاحق رہتی ہیں۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں مل جل کر مسائل کا سامنا کریں تو جلد اور بہتر نتائج نکل سکتے ہیں لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب زندگی انسانوں کو کسی آزمائش میں ڈالتی ہے تو وہ پریشان ہوکر ایک دوسرے کو موردِ الزام قرار دیتے ہیں۔ یہ دراصل سچائی کے مقابلے سے فرار کی ایک صورت ہوتی ہے۔ الزام تراشی کے بجائے ایثار کا جذبہ بیدار کریں، عفو اور درگزر کی صفات کو اجاگر کریں۔ یاد رکھیے کہ خوشیاں بازار میں دکانوں پر نہیں ملتیں بلکہ باہمی محبت، اخلاق اور ایثار کے ِذریعہ گھر کے اندر ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اور یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ گھر مکان کے اندر ہوتا ہے باہر سے جو در و دیوار نظر آتے ہیں وہ مکان کی علامات ہیں، ان دیواروں کے اندر جو ہے وہ آپ کا گھر ہے اور سچی خوشی اور مسرت یہیں حاصل ہوسکتی ہے۔ جولوگ زندگی کی خوشیاں گھر کے باہر تلاش کرتے ہیں وہ عقلمند نہیں ہوتے۔