حجاب کے نام!

شرکاء

خواتین ریزرویشن بل

مرکزی سرکار نے بہت ہی چالاکی کے ساتھ آخر کار خواتین ریزرویشن بل پارلیمنٹ میں پیش کر ہی دیا۔ حالانکہ اس کے خلاف اتنا دباؤ تھا کہ بجائے لوک سبھا میں لانے کے اسے راجیہ سبھا کے ذریعہ ایوان میں لایا گیا اور وہ بھی جب کہ سماج وادی پارٹی و جنتا دل یو کے ممبران ویل میں کھڑے ہوکر راجیہ سبھا کی کارروائی کو روکنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس دوران مخالفت کررہے ممبران اور وزیر قانون شری بھاردواج کے بیچ دھینگا مشتی بھی ہوئی، جسے کانگریس کی خواتین ممبران پارلیمنٹ نے بیچ میں آکر روکا لیکن یہ بل ایوان میں پیش کردیاگیا اور پھر اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔ اس طرح کل ملا کر مرکزی سرکار ریزرویشن کے تعلق سے دو ایشوز پر کامیاب ہوگئی جس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پسماندہ طبقات کے لیے ۲۷فیصد ریزرویشن اور ریزرویشن برائے خواتین کا بل شامل ہے۔ اب ریزرویشن کا صرف ایک ہی معاملہ بچا ہوا ہے اور وہ ہے دلت مسلم ریزرویشن کا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ۲۷ فیصد ریزرویشن پر جس طرح کریمی لیئر کی شرط نافذ کی گئی ہے اس سے پسماندہ طبقات کے ہاتھ میں یہ تحفہ آکر بھی چھن گیا ہے۔ اسی طرح خواتین ریزرویشن بل کے موجود مسودے پر دھیان دیا جائے تو اس کا رزلٹ بالکل صاف ہے۔ وہ یہ کہ ہندوؤں کا جنرل طبقہ روپ بدل کر پارلیمنٹ اور اسمبلی کی ۳۳ فیصد سیٹوں پر قابض ہوچلے گا اور اس کا برا اثر ہندوؤں کے پسماندہ طبقات پر ہی پڑے گا۔ مسلمانوں کو تو ان دونوں ریزرویشنوں سے کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔ مسلمانوں کو اگر تھوڑا بھی فائدہ پہنچتا تو وہ دولت مسلم ریزرویشن سے جو اس کمیونٹی کے لیے اقتدار میں حصہ داری کا ایک چھوٹا سا دروازہ کھولتا ہے لیکن مورچہ کے دباؤ کے باوجود اس پر صرف وعدہ وعید ہی چل رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں ایک طرف بایاں محاذ اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہا ہے، وہیں دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل، لوک جن شکتی و ڈی ایم کے جیسی کانگریس کی معاون پارٹیاں بھی بی جے پی کی مخالفت کا بہانہ بنا رہی ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ جس طرح زور زبردستی اور چور دروازے سے خواتین ریزرویشن بل کو راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا وہ سرکار کی قوت ارادی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ قوت سرکار اور اس کے معاونین و بایاں محاذ اور سماج وادی پارٹیاں بھی دلت مسلم ریزرویشن کے لیے صرف کرسکتی ہیں لیکن کیوں کریں؟ اس سے ان کا کیا فائدہ؟ پھر وہ خواتین کو اقتدار میں حصہ داری دینے میں ہچک محسوس نہیں کرتے لیکن مسلمانوں کی اقتدار میں حصہ داری کی جب بھی بات ہوتی ہے تو گویا ان سب کے کان ایک ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شاید سب کے سب اس میں اپنا نقصان سمجھتے ہیں؟

ڈاکٹر ایم اعجاز علی، نئی دہلی

خواتین کا دائرہ کار

مئی کا حجاب اسلامی سامنے ہے۔ ٹائٹل بہت ہی زیادہ اچھا ہے۔ آپ کے گزشتہ تمام ٹائٹلس میں کم از کم مجھے تو یہ سب سے بہتر معلوم ہوا۔ ساتھ ہی مضامین بھی اچھے لگے۔ گوشۂ صحت دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اگر آپ اسی طرح مستقبل میں خصوصی گوشے دیں تو بہتر ہوگا۔ جیسے گوشۂ سیرت، گوشہؐ تعلیم، خواتین کے مسائل وغیرہ۔ مریم جمال صاحبہ کا مضمون پسند آیا۔ خواتین کے دائرئہ کار کے سلسلے میں ہماری خواتین اس انداز میں نہیں سوچتیں۔ بلکہ وہ گھر کے کاموں کو ہی سب کچھ سمجھتی ہیں۔ حالانکہ دعوت و تبلیغ کرنا دونوں کی ذمہ داری ہے جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے سماج نے ایک حصہ کو بھلا دیا اور دوسرے حصہ کو ہی مکمل دین سمجھ لیا۔ میرے خیال میں آج ہماری خواتین کے اندر جہالت، بے دینی، بدعات اور خرافات کا سبب یہ بھی ہے کہ ہماری پڑھی لکھی خواتین بھی اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے ناواقف ہیں۔ اگر ہماری خواتین اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اسے ادا کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے گھروں میں انقلاب آسکتا ہے اور وہاں سے ایک ایسی نسل اٹھ سکتی ہے جو دین پر عمل کرنے والی ہو۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔

فرزانہ امین، ناندورہ (مہاراشٹر)

تعلیمی نظام کی اصلاح

نیا رسالہ ملا پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ جاپانی طالبہ کا قبولِ اسلام، خواتین کا دائرۂ کار اور سمیہ لطیف کا ’’طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان‘‘ کے علاوہ سعادت اللہ صاحب کا مضمون پسند آئے۔ سید سعادت حسینی صاحب کے مضمون میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا تو ہمارے اسکولوں اور نظامِ تعلیم میں کہیں اثر نظر نہیں آتا۔ تو کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ ہمارے معاشرے کے وہ لوگ جو معیاری قسم کے اسکول چلاتے ہیں وہ ان باتوں پر توجہ دیں اور اپنے اسکول کے نصاب تعلیم کو اس طرح ترتیب دیں جس طرح کی بات ان غیر ملکی دانشوروں نے کہی ہے۔ حکومتی نظام کے تحت چلنے والے اداروں میں کوئی تبدیلی لانا تو ایک مشکل طویل مدتی عمل ہے مگر پرائیویٹ چلنے والے اسکول تو ان جدید خطوط پر کام کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائیویٹ اسکول جن کا معیار اورکارکردگی دونوں ہی بہتر ہیں وہ اس جہت میں آگے بڑھیں۔ اسی طرح اہلِ ثروت مسلمان بھی تعلیم کے میدان کو ترجیح بناکر ملک اور ملت کو بہتر تعلیم و تربیت فراہم کرنے میں اپنا رول ادا کریں۔ عبدالوہاب غوری، کوٹہ (راجستھان)

خواتین میں بیداری کا ذریعہ

میں ایک عرصے سے حجاب پڑھ رہی ہوں۔ آپ کی کوشش قابلِ قدر ہے۔ ایک اچھا ماہنامہ بالخصوص خواتین کے لیے نکالنا اور کامیابی سے چلانا اس کے خریدار بنانا دلیر افراد کا کام ہے۔ہمارے اسکول کی بیشترلڑکیاں حجاب کی خریدار ہیں۔ حجاب سے خواتین میں بیداری اور خود اعتمادی پیدا ہورہی ہے۔ نئے نئے موضوعات پر مضامین شامل کرکے حجاب کے وقار میں اضافہ ہورہا ہے۔

سیدہ طہورہ صد بیابانی،اقراء اردو گرلز ہائی اسکول، اورنگ آباد

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں