استقامت

پیکر سعادت معز، ہنمکنڈہ

’’حضرت عائشہ صدقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ دین ہے جس پر پابندی، استقامت اور استقلال کے ساتھ قائم رہیں۔‘‘ (بخاری)
تشریح
پابندی، استقلال اور استقامت در حقیقت مضبوط کردار کی نشانیاں ہیں اور دین کو مضبوط کردار ہی پسند ہے۔ جو شخص کسی بات پر قائم نہ رہ سکے، وہ اصل میں نفسیاتی تذبذب اور ڈھلمل یقینی کا شکار ہوتا ہے۔ اس لیے احادیث میں آتا ہے کہ وہ تھوڑا کام بہتر ہے جو باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ ہو۔ بہ نسبت اس کام کے جس کا آغاز تو بڑے زور وشور سے کیا جائے لیکن چند ہی دنوں میں بیٹھ جائے ۔
بخاری ہی کی ایک اور حدیث ہے کہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح نہ ہوجاناکہ وہ رات کو تہجد کے لیے اٹھتا تھا پھر اس نے وہ عمل چھوڑ دیا۔
ایک شخص کی مضبوطی کردار کی خاطر حضورؐ نے یہ نصیحت فرمائی کہ ایک عمل اگر فرض نہیں ہے (کہ فرض کے تارک کا دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے) تو اس کو نہ تو جذبات کی لہر میں آکر شروع کیا جائے اور نہ جلد بازی میں ترک کیا جائے۔ اس سے آدمی کی تلوّن مزاجی ظاہر ہوجاتی ہے۔ نوافل پر کوئی مواخذہ نہیں یہ ترقی درجات کے لیے ہوتے ہیں لیکن وہ ایک شخص کی داخلی تصویر دکھانے میں بڑی مدد دیتے ہیں۔

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں