ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں ایک میاں بیوی رہتے تھے، جو بہت بے وقوف تھے۔ ان دونوں کا آپس میں کسی بھی بات پر اتفاق نہ ہوتا۔ اگر شوہر کہتا کہ دن ہے تو بیوی کہتی کہ رات ہے۔ اگر بیوی کہتی کہ یہ چیز کالی ہے تو شوہر کہتا کہ یہ تو سفید معلوم ہوتی ہے۔ یعنی بات کوئی بھی ہو، وہ بس لڑتے ہی رہتے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، اس لیے اکیلے رہتے تھے۔ ایک دن کچھ گاؤں والوں نے شوہر سے کہا کہ گاؤں میں میلہ لگنے والا ہے، کچھ کھانے پینے کا سامان اس کے لیے جمع کرلو۔ وہ فوراً بازار گیا اور ۵۰ کلو چاول اور ۵۰ کلو مکھن خرید لایا۔ اپنی کمر پر سامان لاد کر وہ گھر پہنچ گیا۔ ’’یہ تم اتنا سارا مکھن اور چاول کیوں لے آئے؟‘‘ بیوی نے ناراض ہوکر پوچھا: ’’اتنے سارے راشن کا ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم دونوں اتنا کچھ کھا سکتے ہیں؟ یا کسی شادی کے لیے اتنا کچھ لائے ہو؟ یا پھر قحط پڑنے والا ہے جو سب جمع کررہے ہو؟‘‘
’’کس کی شادی ہوسکتی ہے بھلا؟‘‘ شوہر نے غصے سے جواب دیا۔ ’’تم ہمیشہ الٹی سیدھی باتیں ہی کرتی ہو۔‘‘
’’تو پھر کیوں لائے ہو اتنے سارے چاول اور مکھن؟‘‘ بیوی نے پوچھا: ’’میں یہ مکھن اور چاول میلہ کے لیے لایا ہوں، میلہ آنے والا ہے۔‘‘ شوہر نے کہا:’’یہ سامان اٹھا کر حفاظت سے رکھ دو، جب تک کہ وہ نہیں آجاتا۔ یہ مکھن اور چاول اس وقت استعمال ہوں گے۔‘‘ بیوی یہ سن کر کچھ سمجھ گئی اور خاموش ہوگئی دراصل اسے میلہ کی کچھ بھی سمجھ نہ آئی تھی۔ اس نے چاول اور مکھن اٹھا کر اسٹور روم میں رکھ دئیے۔ مگر اس کے بعد وہ روزانہ اپنے شوہر سے پوچھتی کہ میلہ کب آئے گا اور یہ سامان ہمارے گھر سے کب جائے گا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے بیوی کا غصہ بڑھنے لگا۔ ’’میلہ تو اب تک آیا نہیں، آخر ہم کب تک اس کی کھانے پینے کی چیزیں سنبھال کر رکھتے رہیں گے؟‘‘شوہر بیوی کی یہی باتیں روز روز سن کر چڑچکا تھا۔ اس نے زور سے بیوی کو ڈانٹا اور کہا: ’’تمہیں کیاپریشانی ہے؟ جب آنا ہوگا، آجائے گا۔ تم چپ ہوجاؤ، اور مجھ سے فضول سوال مت کرو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ غصے میں گھر سے باہر چلا گیا۔شوہر کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر بیوی کا مزاج خراب ہوگیا اور وہ گھر کے دروازے پر جاکر بیٹھ گئی اور غصے میں بڑبڑانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اسے دور سڑک سے اپنے گھر کی طرف ایک نوجوان آتا دکھائی دیا۔ وہ سیدھا اسی طرف آرہا تھا۔ بیوی کے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس نے زور سے اسے آواز دی۔ ’’سنو! اے نوجوان! کیا تمہارا نام میلہ ہے؟‘‘ نوجوان یہ سن کر حیران ہوا کہ یہ کیسا سوال ہے۔ مگر پھر اسے لگا کہ شاید بوڑھی عورت پاگل ہے، اس نے جواب دیا: جی ہاں! میرا نام میلہ ہے۔‘‘ بوڑھی عورت نے یہ سنا تو کہا: ’’اوہ! شکر ہے تم آگئے۔ آخر کب تک میں تمہارا راشن اپنے گھر میں رکھوں؟ تم کب لے جاؤگے ان چیزوں کو؟‘‘ نوجوان بہت چالاک تھا۔ اس نے کہا: ’’جی میں وہی چیزیں لینے آپ کے پاس آیا ہوں۔ برائے مہربانی آپ وہ مجھے دے دیں تاکہ میں جاؤں۔‘‘
بیوی نے یہ سنا دوڑ کر اسٹور روم میں گئی اور چاول اور مکھن کھینچ کر دروازے تک لے آئی۔ لڑکے نے انہیں اپنی کمر پر لادا اور تیزی سے سڑک پر آگے روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد شوہر آیا تو بیوی نے اسے اندر داخل ہوتے ہی میلہ کے آنے اور چاول، مکھن لے جانے کے بارے میں بتایا۔ ’’بالآخر میلہ آہی گیا۔‘‘ اس نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ شوہر نے پریشان ہوتے ہوئے کہا: ’’مگر وہ میلہ نہیں تھا جس کا مجھے انتظار تھا۔ وہ ضرور کوئی ٹھگ تھا۔ یہ تم نے کیا کیا… جلدی بتاؤ وہ کس طرف گیا ہے؟ میں اس کے پیچھے جاؤں اور دونوں چیزیں واپس لے کر آؤں۔‘‘ بیوی نے اسے بتایا کہ وہ سڑک پر کس طرف گیا تھا۔ شوہر فوراً اپنے گھوڑے پر بیٹھا اور اس طرف چل پڑا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اسے ایک نوجوان نظر آیا، جس نے بہت سارا وزن اپنی کمر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس وزن کی وجہ سے اس سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔ اور وہ لڑکھڑا رہا تھا مگر یہ بے وقوف آدمی اسے پہچان نہ سکا اور اس کے قریب پہنچ کر کہنے لگا۔ ’’سنو! کیا تم نے یہاں کسی ٹھگ کو جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ میری بیوی سے ۵۰ کلو چاول اور ۵۰ کلو مکھن ٹھگ کر بھاگ گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر نوجوان فوراً سمجھ گیا کہ یہ بوڑھا آدمی ضرور اس بے وقوف عورت کا شوہر ہے جسے میں نے دھوکا دیا ہے۔ اسے یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ اس عورت کی طرح اس کا شوہر بھی بے وقوف ہے۔ اس لیے اس نے ہشیاری سے جواب دیا: ’’ہاں بالکل! میں نے اسے دیکھا ہے، وہ مجھ سے آگے نکل گیا ہے۔ کیونکہ وہ بہت تیز چل رہا تھا۔‘‘ اوہ! پھر تومجھے فوراً گھوڑے پر اس کے پیچھے جانا چاہیے۔ کس طرف گیا ہے وہ؟ شوہر نے پوچھا۔
’’نہیں! اگر اس کو پکڑ نا ہے تو آپ کو پیدل جانا چاہیے تاکہ وہ اگر سیدھا جانے کے بجائے دائیں بائیں مڑگیا ہو تو آپ اس کا پیچھا آسانی سے کرسکیں۔ گھوڑے پر مشکل ہوگی۔ ‘‘ اس بات کی کوئی وجہ تو شوہر کی سمجھ میں نہ آئی مگر پھر بھی اس نے سوچے سمجھے بغیر اجنبی کی بات پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس نے اپنے گھوڑے کی لگام اس نوجوان کے ہاتھ میں دی اور کہا کہ تم ذرا میرا گھوڑا دیکھو میں اسے تلاش کرکے ابھی آتا ہوں۔ اور خود پیدل اس طرف چل پڑا جس طرف نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔ جیسے ہی وہ دور گیا اور نظروں سے اوجھل ہوا، نوجوان نے فوراً چاول اور مکھن گھوڑے کی پیٹھ پر لادے اور خود بھی اس پر سوار ہوکر دوسری سمت چل پڑا۔ منٹوں میں وہ وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔
شوہر کافی دیر تک پیدل چلتا رہا اور یہاں وہاں اس ٹھگ کو ڈھونڈتا رہا۔ بالآخر اسے ایسا لگا کہ وہ نوجوان اس سے دور نکل گیا ہے چنانچہ وہ واپس مڑا اور اس جگہ پہنچا جہاں وہ اپنا گھوڑا ایک اجنبی کے سپرد کرگیا تھا مگر وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ تھوڑی دیر میں بوڑھے آدمی کو سمجھ آگئی کہ وہ اپنے گھوڑے سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا ہے۔ اب وہ غمزدہ ہوکر گھر واپس لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو سارا قصہ سنایا۔فوراً ہی دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا : ’’تم … بے وقوف عورت! تمہاری وجہ سے میں اپنے ۵۰ کلو چاول اور ۵۰ کلومکھن سے محروم ہوگیا۔‘‘ شوہر نے کہا:’’ تمہاری نالائقی کی وجہ سے ہمارا گھوڑا ہاتھ سے گیا۔‘‘بیوی نے فوراً پلٹ کر جواب دیا: اور لڑائی چلتی رہی جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ شاید آج بھی وہ بوڑھا آدمی اور اس کی بیوی لڑ رہے ہوں اور وہ نوجوان ان دونوں کی بے وقوفی پر ہنس رہا ہو۔ یہی ہے بے وقوفی کا انجام۔