خونی تکون

مشتاق احمد خالد

ملتان کے قریب کی ایک بستی میں ایک مختصر سا گھرانہ بڑی خوش وخرم زندگی بسر کررہا تھا کہ اچانک اس سے خوشیاں روٹھ گئیں، شاید کسی نظر بد نے اسے آلیا تھا۔ یہ گھر، بہادر، اس کی بیوی زرینہ اور تین بچوں، چودہ سالہ بدر، نو سالہ محمد علی اور سات سالہ نوید پر مشتمل تھا۔

۱۹۷۳ء کے اوائل کا ذکر ہے۔ ایک شام بدر کو بخار ہوا اور صبح ہوتے ہوتے وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ گاؤں کا ایک شخص دیناؔ مصلّی اپنے آپ کو جن بھوتوں کے علوم کا ماہر ظاہر کرتا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ بدر کو جنوں نے مارڈالا ہے۔

ابھی بدر کے مرقد کی مٹی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ آٹھ ماہ بعد اس کا منجھلا بھائی محمد علی چل بسا۔ وہ بھی رات بیمار ہوا علی الصبح اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ بہادر کا گھر ماتم گدے میں تبدیل ہوگیا۔ زرینہ اپنے نوخیز بچوں کی جدائی پر دہاڑیں مار مار کر ر وئی۔ اس پر دن میں غشی کے کئی دورے پڑنے لگے۔ دیناؔمصلّی نے اسے بھی خونیں جنوں کی کارستانی قرار دیا۔ بستی والے بھی نادیدہ جنوں کے غضب پر دم درود پڑھنے اور خدا سے اس کی رحمت کے طلبگار ہونے لگے۔

اس واقعے کے تقریباً دو ماہ بعد سب سے چھوٹا نوید بھی اپنے بھائیو ںکی طرح چل بسا۔ اب تو پورے گاؤں میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ دیناؔ کا کہنا تھا کہ بہادر کا گھر آسیب زدہ ہے اور اس کے تینوں بچے جنوں نے ختم کیے ہیں۔ پھر ایک دن اس نے بہادر کو مشورہ دیا کہ وہ مکان خالی کردے کیونکہ جنات اس مکان میں کسی جن کی شادی رچانا چاہتے ہیں۔ غمزدہ بہادر نے اس مشورے پر فوراً عملدرآمد کیا۔ لیکن مکان خالی ہوئے ابھی پندرہ دن بھی نہیں بیتے تھے کہ ایک صبح بہادر بھی مردہ پایا گیا۔

گاؤں والے دیناؔ مصلّی کی بات پر یقین کرچکے تھے مگر جب بہادر موت سے ہمکنار ہوا تو وہ صورتِ حال کو مشکوک سمجھنے لگے۔ ان میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک سیانے کا کہنا تھا کہ جب بہادر نے جنوں کے حکم پر مکان خالی کردیا تو پھر انھوں نے اس بے گناہ کی جان کیوں لی؟ دال میں یقینا کچھ کالا ہے۔

زرینہ ہنوز مصر تھی کہ اس کے بیٹے اور سہاگ جنات کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔ گاؤں کے باسی تذبذب اور مخمصے میں تھے ۔ ایک نامعلوم سا خوف ان پر مسلط ہوچکا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہ پاتے تھے۔

رفتہ رفتہ المناک واقعات کی خبر اخبارات تک جاپہنچی۔ قومی اخبارات میں گاؤں کے واقعے کی خبریںتسلسل کے ساتھ شائع ہوئیں جن میں پراسرار اموات کے بارے میں کئی خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔ ان خبروں ہی کا نتیجہ تھا کہ ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم پر نعشیں قبروں سے نکال کر ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ اکتوبر ۷۴ء کے پہلے عشرے میں کیمیکل ایگزامنر نے رپورٹ دی کہ اموات کا باعث زہر خورانی ہے، چنانچہ متعلقہ تھانے نے قتل کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔ پولیس نے سب سے پہلے عوام کے ذہنوں سے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی کہ قتل جنوں نے کیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک پولیس اہل کار کو مبینہ طور پر آسیب زدہ مکان میں تن تنہا مقفل کردیا گیا۔ لوگ یقین کرچکے تھے کہ پولیس والا زندہ برآمد نہیں ہوگا۔ لیکن اگلی صبح جب مکان کا دروازہ کھولا گیا تو حوالدار علی ہنستا مسکراتا باہرنکلا۔ یہ دیکھ کر بستی کے باسیوں کے ذہنوں سے جنوں کا وہم نکل گیا۔ انھیں یقین ہوگیا کہ دل دہلا دینے والی حقیقت جلد منظرِ عام پر آنے والی ہے۔

جنوں والی بات کی تکذیب کے بعد پولیس کے تفتیشی افسر نے ان نکات پر غور شروع کیا:

٭ مکان خالی کردینے کے باوجود بہادر کو موت کے گھاٹ کیوں اتارا گیا؟

٭ اس کی موت کے فوراً بعد اس کی بیوی زرینہ نے گھر کے سارے مویشی کیوں فروخت کرڈالے اور آسیب زدہ مکان کا سودا دیناؔ مصلی کے ایک رشتہ دار سے کیونکر طے پایا۔

٭ سب سے اہم سوال یہ تھا کہ مکان کو آسیب زدہ قرار دینے والا دیناؔ مصلی اس کی فروخت کے حق میں کیوں تھا؟

ان سوالوں کے جواب کے لیے پولیس نے زرینہ کو شاملِ تفتیش کیا تو سارے اسرار طشت از بام ہوگئے۔ اندھا عشق اس تمام المناک صورتِ حال کا ذمے دار تھا۔

اپنی خوبرو اور جوان بیوی کی نسبت بہادر عمر رسیدہ شخص تھا۔ وہ ایک مقامی کارخانے میں چوکیدار تھا جہاں وہ صبح سے شام تک ڈیوٹی پر رہتا۔ گھر کے کام کاج اور مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے اس نے اپنا ایک دور کا رشتے دار اصغر رکھا ہوا تھا جو خائن ثابت ہوا۔

ایک صبح بہادر کے بڑے بیٹے بدر نے اپنی ماں زرینہ اور اصغر کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لیا۔ افشائے راز کے خوف سے زرینہ اور اصغر نے گاؤں کے دینا مصلی سے ساز باز کرکے پہلے بدر، پھر محمد علی اور نوید اور پھر ان کے باپ کو زہر کے ذریعے ہلاک کرڈالا۔

دیناؔ مصلی ایک انتہائی عیار آدمی تھا۔ اس نے عوام اور پولیس کو دھوکا دینے کے لیے جنات کا ڈراما رچایا۔ اس کام کے اس نے چار سو روپے طلب کیے۔ اسے دو سو روپے پیشگی دے دیے گئے۔

زرینہ، دیناؔ مصلی اور اصغر، ان تینوں نے یہ خونیں ڈراما اس کامیابی سے کھیلا کہ ایک سال تک حقائق عوام کی نظروں سے اوجھل رہے۔ لیکن خونِ ناحق ایک نہ ایک دن بول اٹھتا ہے۔ معاملہ پولیس کے ہاتھ میں آیا تو قاتلوں کی یہ تکون جیل پہنچ گئی۔

زرینہ کے سرسے عشق کا بھوت اتر چکا تھا۔ قریہ قریہ اس کی رسوائی ہوئی۔ تین بیٹے اور سر کا تاج اس کی نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ وہ جیل کے اندر شدید کرب میں مبتلا تھی۔ اسے اب معلوم ہوا تھا کہ دنیا میں عزت، نیک نامی اور اولاد کا کوئی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔ یہ سوچ کر وہ روتی اور چیختی چلاتی مگر کسی کے دل میں اس کے لیے نرم گوشے کی ذرا گنجائش نہ تھی۔ وہ زنداں کی دیواروں سے اپنا سر پٹختی اور چاہتی کہ وقت پیچھے لوٹ جائے۔ وہ اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بناکر اپنے بچوں اور شوہرکے ساتھ چین کی زندگی بسر کرے، لیکن وقت کسی کے لیے نہیں رکتا نہ مڑتا ہے، وہ تو لمحہ بہ لمحہ آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

زرینہ دیوانوں کی طرح جیل کی چار دیواری پر آنکھیں گاڑے رکھتی۔ کسی پل اسے قرار تھا نہ سکون۔ چند ماہ کی اسیری کے دوران میں ضمیر کی خلش اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی کیفرِ کردار کو پہنچ گئی۔ دوسرے ملزم ثبوت اور گواہوں کے کمزور ہونے کی بنا پر بری کردیے گئے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146