سیلاب کا انتظار

جمیل اختر

جہاں وہ شخص کھڑا تھا، وہاں چند روز پہلے تک کچھ بھی نہیں تھا سوائے ایک ویران منظر کے۔ اس کے سامنے کی جانب تاحدِ نظر اونچی سی ایک ناہموار پگڈنڈی تھی جو کبھی مٹی کا ایک بڑا پشتہ رہی ہوگی۔ پگڈنڈی کی داہنی طرف کھیتوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا، جن میں کئی اونچے نیچے چھوٹے بڑے ٹیلے ابھرے ہوئے تھے۔

کھیتوں کے عقب میں جہاں درختوں کی چوٹیاں دھندلاتی محسوس ہوتی تھیں، وہاں ایک شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے نقوش بڑے واضح دکھائی دیتے تھے۔ پگڈنڈی کے بائیں جانب دور تک لہروں کے سے انداز میں ریت پھیلی ہوئی تھی۔ برسات کے دنوں میں ریت کی ان لہروں پر پانی کی ایک پتلی سی تہ پھیل جاتی جو دور سے دیکھنے پر یوں لگتی جیسے دریا کے ہونٹوں پر پپڑی سی جم گئی ہو۔

یہ بوڑھے دریا کی گزرگاہ تھی جس کے کنارے ایک بوڑھا شخص کھڑا ارد گرد کے بدلے ہوئے مناظرکو خوف میں ڈوبی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کناروں تک ابھرا ہوا دریا بڑے سکون سے بہ رہا تھا مگر کناروں سے باہر ایک بڑا طوفان آیا ہواتھا۔ پگڈنڈی کے ساتھ ڈھلان میں کئی بلڈوزر مٹی چڑھانے میں مصروف تھے اور مزدوروں کی ٹولیاں ادھر ادھر بھاگتی دکھائی دے رہی تھیں۔ پگڈنڈی نے واضح طور پر مٹی کے ایک بند کی صورت اختیار کرلی تھی۔ ڈوبتے سورج کی سنہری روشنی میں پانی بند سے کچھ ہی نیچے تھا مگر بند پر کھڑے ٹھیکیدار اور انجینئر دونوں ہی پرسکون اور مطمئن تھے۔

’’اتنی مٹی ابھی تک نہیں ڈالی گئی جتنا ہمیں کہا گیا تھا۔‘‘

’’صاحب! آپ دیکھ رہے ہیں، دن رات کام ہورہا ہے، دوگنی لیبر لگی ہوئی ہے۔‘‘ ٹھیکیدار نے جواب دیا۔

’’مگر وقت بہت کم ہے۔ آدھی رات کے بعد بڑا ریلا یہاں سے گزرے گا۔‘‘

’’صاحب، سنا ہے پانی خاصا زیادہ ہے۔‘‘

’’مجھے بھی یہی فکر ہے، انجینئر بہتے ہوئے پرسکون پانی کو دیکھ کر بولا: ’’یہ بند بڑے ریلے کو سہار نہیں سکے گا۔ پانی کی سطح کم از کم دو فٹ تک بلند ہونے کی توقع ہے۔ شاید بند میں شگاف ڈالنا پڑے۔‘‘

’’دو فٹ پانی!‘‘ ٹھیکیدار کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ ’’پھر تو یہ سب کچھ بہ جائے گا، یہ بند بھی، اس کی ساری مٹی بھی۔ پھر تو کوئی پیمائش بھی نہیں کرسکے گا کہ کتنی مٹی ڈالی گئی تھی۔‘‘

انجینئر نے ٹھیکیدار کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور دوسری طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا۔ ذرا توقف کے بعد ٹھیکیدار پھر بولا:

’’صاحب ایم بی میں آپ پوری پیمائش دکھادیں۔ آپ کا کمیشن…‘‘

’’کمیشن کیوں؟‘‘ انجینئر تیزی سے بولا: ’’بغیر مٹی ڈالے پوری پے منٹ لو گے اور مجھے صرف کمیشن، بولو ففٹی منظور ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے صاحب، جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ ٹھیکیدار کی آواز اور لہجہ دھیما تھا۔

’’اگر اجازت ہو تو میں سائٹ سے اپنا کچھ سامان اور لیبر ہٹالوں۔‘‘

’’ہٹاؤ نہیں، جگہ بدل دو۔ یہ سب چیزیں یہاں نظر آتی رہنی چاہئیں۔ بس اب چند گھنٹے کی تو بات ہے۔‘‘ انجینئر نے اسے مشورہ دیا۔

وہ ایک بوڑھا شخص جو کچھ دور کھڑا پانی کوسہمی سہمی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا۔

’’کیا بات ہے بابا؟ کیا کررہے ہو یہاں؟‘‘ ٹھیکیدار نے ڈانٹ کر پوچھا۔

’’بیٹا! سنا ہے سیلاب کا بہت خطرہ ہے۔‘‘ بوڑھا بہت پریشان دکھائی دے رہا تھا۔

’’بابا جی! بھاگو یہاں سے۔ تھوڑی دیر میں بہ جاؤ گے۔‘‘

’’بیٹا! مجھے اپنی فکر نہیں۔ میں اپنے مکان کی وجہ سے پریشان ہوں، میری ساری پنشن لگی ہے اس پر۔‘‘

’’بابا! گھر پکا ہے نا؟‘‘ انجینئر نے پوچھا۔

’’نہیں بیٹا! پکا کہاں سے بنواتا؟‘‘

’’پھر گھر مت جانا۔‘‘ انجینئر نے اسے سمجھایا۔ ’’ساری کچی چیزیں سیلاب میں بہ جاتی ہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک بڑا ریلا آنے والا ہے۔ پھر پانی شہر میں داخل ہوجائے گا۔

’’میں کہاں جاؤں؟‘‘ بوڑے کی آواز بھرا گئی۔

’’تم کسی ریلیف کیمپ میں چلے جاؤ۔‘‘

انجینئر اور ٹھیکیدار بند کی سمت مڑ گئے اور بوڑھا آہستہ آہستہ دائیں جانب چلنے لگا جہاں کچھ فاصلے پر اونچے ٹیلوں پر شامیانے اور قناتیں لگی ہوئی تھیں اور ان پر ریلیف کیمپوں کے بورڈ آویزاں تھے۔ سورج غروب ہوچکا تھا۔ پیٹرومکس اور جنریٹر سے روشن کیے گئے قمقموں کی روشنی میں ان کیمپوں میں خاصی رونق اور گہما گہمی دکھائی دے رہی تھی۔ ایک کیمپ میں موٹی توند والے آدمی نے کھانے پینے کی خشک اشیاء کے ایک پیکٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پوچھا:

’’سب انتظام مکمل ہے؟‘‘

’’جی سر!‘‘ کیمپ کے انچارج نے جواب دیا۔ ’’کپڑے دوسرے کیمپ میں ہیں۔ دودھ اور دوسری اشیاء کا ذخیرہ بھی ہے۔ میڈیکل کیمپ کے لیے بھی خاصی دوائیاں اسٹاک کرلی ہیں۔‘‘

’’مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ بڑے تاجروں نے کھانے پینے کی چیزیں اسٹاک کرلی ہیں۔‘‘

’’جی سر! یہ اطلاع توہے۔‘‘

’’بڑے بے حس لوگ ہیں۔ مصیبت کے وقت مدد کے بجائے غریبوں کو لوٹنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔‘‘

’’سر! ہم نے تو متاثرہ افراد کی مدد کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔‘‘

’’سب کے کام ہوجائیں گے۔‘‘ موٹی توند والا مایوسی سے بولا: ’’صرف میرا بیٹا رہ جائے گا۔ کتنے عرصے سے موٹر سائیکل کے لیے کہہ رہا ہے۔ میں اس کی یہ چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کرسکا۔‘‘

’’سر آپ نے ایک بار پہلے بھی ذکر کیا تھا۔‘‘ کیمپ میں کھڑا ہوا آدمی بڑی آہستگی سے بولا: ’’اس ریلے میں موٹر سائیکل بھی آجائے گی۔‘‘ پھر وہ گھڑی دیکھنے لگا ممکن ہے وہ کچھ اور کہتا مگر وہ بوڑھا شخص وہاں پہنچ گیا تھا۔

’’بابا، ابھی انتظار کرو۔ ہم بھی انتظار کررہے ہیں۔‘‘

’’کس کا انتظار؟ بیٹا!‘‘

’’سیلاب کا… سیلاب آئے گا تو تمہیں مدد ملے گی۔‘‘

’’بیٹا کیا سیلاب کا خطرہ ٹل نہیں سکتا۔‘‘

موٹی توند والا آدمی بند کی طرف دیکھنے لگا۔ قمقموں اور پیٹرو مکس کی روشنی میں پانی کی لہریں جھلملا رہی تھیں اور دریا کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ ’’ہاں ایک صورت ہے۔‘‘ وہ بڑی بے پروائی سے بولا: ’’اگر دوسرے کنارے والا بند توڑ دیا جائے تو پانی اِدھر نہیں آئے گا۔‘‘

’’پھر دوسری طرف والا بند توڑ دیں۔‘‘ بوڑھے کے لہجے میں بڑی لجاجت تھی۔

’’کیسی باتیں کرتے ہو بڑے میاں!‘‘ موٹی توند کو ایک دم غصہ آگیا۔ ’’پتہ ہے اُدھر کس کی زمین ہے۔ فصل تیار کھڑی ہے برباد ہوجائے گی۔‘‘

’’بیٹا اس طرف گامے کی فصل برباد ہوجائے گی۔‘‘

’’گاما کون ہے۔‘‘

’’غریب کسان ہے۔ میرے گھر کے پاس رہتا ہے۔ اس وقت بند پر مٹی ڈال رہا ہے۔‘‘

’’مٹی ڈال رہا ہے۔‘‘ موٹی توند والا بڑی زور سے ہنسا ’’ادھر دوسری طرف والے کے آدمی بند پر بندوقیں اور کلہاڑی لیے بیٹھے ہیں۔ شگاف تو ادھر ہی ڈالا جائے گا۔‘‘

’’بٹیا کیا…‘‘

’’بڑے میاں بحث میں اپنا اور ہمارا وقت ضائع مت کرو۔‘‘ دوسرا آدمی ڈانٹ کر بولا: ’’تم اگلے کیمپ میں چلے جاؤ، بڑی مشہور سماجی شخصیت کا ہے، اس وقت تمہیں وہی امداد دے سکتا ہے۔ ہم تو بڑے ریلے کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘

بوڑھا آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ کچھ فاصلے پر سڑک سے ملحق ایک بڑاٹیلہ تھا جس پر کئی شامیانے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ اندر صاف ستھری دریاں بچھی تھیں۔کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء کا ڈھیر دکھائی دے رہا تھا۔ کیمپ کے سرے پرایک بڑی میز اورچند کرسیاں بڑی ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں اور اجلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کارکنوں کو ہدایتیں دینے میں مصروف تھا۔

’’بڑی سرکار کے نام والا بینر اونچی جگہ پر لگاؤ۔ یہ دورسے نظر آنا چاہیے۔ یہ ان کا حکم ہے۔‘‘

’’پریس ریلیز بڑی باقاعدگی سے جانی چاہئیں اور تعداد… سمجھ گئے۔ خاص خیال رکھنا۔ یہ نہ ہو کہ ہم پیچھے رہ جائیں۔‘‘

’’وہ لوگ اور ان کے تمام کاغذات تیار رکھو۔ جنھیںسیلاب کے بعد امداد دلانی ہے۔ خیال رہے اپنا کوئی آدمی رہ نہ جائے۔‘‘

’’اوہ بڑے میاں! تم یہاں کیا کرنے آئے ہو۔‘‘

’’بیٹا میرا کچا مکان …‘‘

’’اوہ ٹھیک ہے تم فوراً اپنے گھر پہنچو۔ ابھی کچھ دیر میں بڑا ریلا آنے والا ہے۔ ہمارے ورکر وہیں جاکر تمہیں لے آئیں گے، فوٹو گرافر بھی ساتھ ہوگا۔ کتنے آدمی ہیں؟‘‘

’’بیٹا اور کوئی بھی تو نہیں… میں اکیلا ہوں۔‘‘

’’پھر ہمارا وقت کیوں ضائع کررہے ہو؟ جاؤ کہیں اور جاؤ۔‘‘ اجلے لباس والا شخص بڑی ناگواری سے بولا۔

’’میں کہاں جاؤں؟‘‘ بوڑھے نے بڑی بے بسی پوچھا۔

’’دریا پر چلے جاؤ۔ وہی تمہارا ٹھکانہ ہے۔‘‘ اس نے غصے سے جواب دیا۔ بوڑھی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ وہ انہیں آستین سے پونچھتا ہوا آہستہ آہستہ دریا کی طرف چلنے لگا۔ بند کے اوپر بہت سے لوگ جمع تھے۔ اور انجینئر بڑی بے چینی سے اپنا سر کھجا رہا تھا: ’’ساری غلطی گیج ریڈر کی ہے۔ اس نے ہمیں غلط ریڈنگ رپورٹ کی۔‘‘

’’کیا کوئی بہت بڑا…‘‘ موٹی توند والا متفکر لہجے میں بولتے ہوئے چپ ہوگیا۔ اسے کہنے کے لیے موزوں لفظ نہیں مل رہے تھے۔

’’ہاں صاحب، بہت بڑا گھپلا ہوگیا ہے۔ پانی کا بڑا ریلا گزرچکا ہے۔ اب پانی اترنا شروع ہوگیا ہے۔‘‘

مشرق میں شفق کی سرخی بکھرنا شروع ہوگئی تھی۔ بوڑھے کا چہرہ تمتمانے اور آنکھیں چمکنے لگیں۔

’’بیٹا کیا اب سیلاب نہیں آئے گا۔‘‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔ بوڑھے کے سوال کا کسی نے جواب نہیں دیا۔ بوڑھے کو بہا لے جانے والا سیلاب نہیں آیا تھا۔ مگر ایک دوسرا سیلاب کئی ایک کے منصوبوں اور خواہشوں کو خاموشی کے ساتھ بہا لے گیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146