کچھ عرصے پہلے تک ماہرینِ صحت کا سارا زور جسمانی ورزشوں پر تھا۔ چہل قدمی، جوگنگ، تیراکی، مختلف کھیل یہ سب مضبوط جسم اور خوشگوار زندگی کے لیے لازمی شرائط قرار دی جاتی تھیں۔ انہی ماہرین نے سالہا سال کی تحقیق کے بعد اب یہ انکشاف کرکے چونکا دیا ہے کہ ڈھیلے ڈھالے عضلات اور لاغر جسم سے زیادہ خطرناک چیز سست اور بیزار دماغ ہے۔
انسانی دماغ پر بڑھاپے کے اثرات کا تیس سال تک جائزہ لینے والے پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ایک ماہرِ نفسیات کے وانر شائی کا کہنا ہے: ’’عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ کا کمزور ہونا کوئی لازمی امر نہیں۔ دماغی کمزوری کی اصل وجوہ ماحول سے لاتعلق زندگی، بے لچک رویہ اور ذہن کو تحریک دینے والے عوامل کی کمی ہے۔‘‘
یکسانیت صحت کی سب سے بڑی دشمن ہے اور یہ انسان کو بیمار بھی کرسکتی ہے۔ ماہرِ نفسیات ایلن رینجرز کے الفاظ میں: ’’ذہن جب نئے حالات کا سامنا کرنا چھوڑ دے تو جسم بھی مردہ ہونے لگتا ہے۔ اس کے خلیات کے مردہ ہونے کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور ان کی جگہ نئے خلیات بننے کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔‘‘ امریکہ میں بوڑھی عورتوں کے ایک نرسنگ ہوم میں جن عمر رسیدہ عورتوں نے کسی پودے کی دیکھ بھال اور اسے روزانہ پانی دینے کی ذمہ داری لے رکھی تھی، ان کی صحت مندی اور طویل عمری کے امکانات ان عورتوں کے مقابلے میں دگنے پائے گئے جو بے مقصد فارغ زندگی گزار رہی تھیں۔ اس قسم کے بے شمار مشاہدات سے ماہرینِ صحت نے نتیجہ نکالا کہ صحت کے لیے سب سے مفید چیز ’مصروفیت‘ ہے۔
جدید طریقِ علاج اور بہتر ماحول نے ہماری عمریں تو لمبی کردی ہیں، لیکن اس طویل عمر کو پژمردگی اور ناگواری کی جگہ ہنسی خوشی بسر کرنے کی تدبیریں معلوم کرنا ہمارا کام ہے۔ مدتوں کی تحقیق کے بعد ماہرین نے ایک طویل خوشگوار اور کامیاب زندگی کے لیے دماغی ورزش کے یہ سترہ اصول پیش کیے ہیں:
(۱) روز مرہ معمولات میں تبدیلیاں لاتے رہیے: دفتر جانے کے لیے ہمیشہ ایک ہی راستہ اختیار نہ کیجیے۔ اچھے مناظر سے بھر پور راستوں کا انتخاب کیجیے چاہے وہ کچھ لمبے ہی ہوں۔ اپنے کمرے میں چیزوں کی ترتیب میں ردوبدل کرتے رہیے۔ ازدواجی اور گھریلو تعلقات میں یکسانیت نہ آنے دیجیے۔ ہر اس عمل پر نظر رکھیے جو آپ سے عادتاً سرزد ہوتا رہتا ہے، اُن سب کو متبادل عادات سے تبدیل کرتے رہیے۔
(۲) اپنے آپ کو نئی نئی آزمائشوں میں ڈالیے: ایسے معاملات میں خطرات مول لینا جہاں پہلے ہمیشہ آپ محتاط رہتے تھے، ذہن کے جالے جھاڑنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ لباس میں اپنی شخصیت سے ہم آہنگ ایسی تبدیلیاں لاتے رہیے جو آپ کے لیے نئی ہوں۔ خواتین بالوں کے انداز و رنگ تبدیل کرنے کے تجربات کرسکتی ہیں۔ ایسی تفریح گاہوں اور علاقوں میں جائیے جو آپ کے لیے نئے ہوں۔
(۳) تخلیقی انداز میں سوچیے: بظاہر مماثل چیزوں میں فرق اور متضاد چیزوں میں مشابہت ڈھونڈیے۔ مختلف اشیا کو ان کے معمول کے استعمال سے ہٹ کر استعمال کیجیے۔ اس طرح نئی ترتیب اور نئے ذائقے دریافت کیجیے۔ مثلاً: پرانے کافی پاٹ کو گلدان بنالیجیے یا چینی کے برتنوں کو انڈور پلانٹس کے گملوں کا روپ دے دیجیے۔
(۴) بچوں کی باتیں غور سے سنیے: بچوں کی معصوم باتیں کائنات کی مختلف چیزوں کے بارے میں آپ کے اندر نئے سرے سے حیرت اور تجسس کے احساسات ابھاریں گی۔ آپ کے اندر چھپے ہوئے بچے سے آپ کا رابطہ قائم رکھیں گی۔ اگر آپ کے بچے چھوٹے نہ ہوں تو مختلف مواقع پر دوستوں اور رشتہ داروں کے بچوں سے رابطہ قائم رکھیے، ممکن ہے بظاہر یہ کام تھکا دینے والا محسوس ہو، لیکن بالآخر یہ تازگی بخش ثابت ہوگا۔
(۵) اپنا حافظہ بہتر بنائیے: ضروری نہیں کہ حافظے کی کمزوری کا تعلق بڑھتی ہوئی عمر سے ہو۔ محققین کے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ خیالات کا انتشار ہے۔ کوئی بھی شخص توجہ، ارادے اور محنت سے اپنا حافظہ بہتر بناسکتا ہے۔ کولوریڈو یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات اینڈرز ایر کزن کی رائے میں کسی کھیل کی طرح اچھے حافظے کے لیے بھی مشق ضروری ہے۔ حافظے کی تربیت کے لیے بہت سی کتابیں بازار میں موجود ہیں، تاہم سادہ ترین ورزش نئے ملنے والوں کے نام اور کوائف یاد رکھنا ہے۔ نئے ملاقاتیوں کے نام ان کی شکلیں ذہن میں لاتے ہوئے کئی مرتبہ دہرائیے۔ کچھ دن بعد پھر ان کی شکلیں اور نام ذہن میں لائیے اور جب ملاقات ہو تو انھیں نام لے کر مخاطب کیجیے۔ دورانِ گفتگو میں بھی بار بار ان کا نام دہرائیے۔ حافظہ بہتر ہونے کے ساتھ آپ کا مخاطب بھی اپنے نام کی تکرار کو اچھا محسوس کرے گا۔
(۶) دماغی کھیل کھیلیے: تعلیمی تاش، الفاظ اور ہندسوں کے کھیل، پہیلیاںاور شطرنج، یہ سب دماغ کی ورزش کے اچھے ذرائع ہیں۔ذہنی آزمائش کے ٹی وی پروگرام اس طرح دیکھیے جیسے آپ خود بھی ان میں شریک ہوں۔ کاغذ، قلم پاس رکھیے اور اپنے طور پر اپنی معلومات کا امتحان لیجیے۔
(۷) لکھنا ایک عادت بنائیے: رشتے داروں اور دوستوں کو باقاعدگی سے خطوط لکھئے۔ روز مرہ ڈائری لکھئے۔ لکھنے سے خیالات متعین، مختصر، جامع اور مشاہدات واضح ہوجاتے ہیں۔ جنوبی کیلیفورنیا کے ڈاکٹر جیمز بیرن کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی سوانح حیات لکھنی چاہیے اور ایک دوسرے کی سوانح حیات سے مستفید ہونا چاہیے۔
(۸) نئے ہنر اور فنون سیکھئے: اکثر لوگ نئی مشینوں اور برقی آلات کے بارے میں ایک بلا جواز خوف کا شکار رہتے ہیں۔آج کے دور میں خاص طور سے کمپیوٹر اور جدید گھریلو برقی آلات ہمیں سیکھنے اور مہارت حاصل کرنے کے اچھے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان سے ذہن متحرک اور زندہ رہتا ہے۔ ایک امریکی خاتون شوق ہونے کے باوجود ایک انجانے خوف کی وجہ سے دو سال تک اپنا پسندیدہ کمپیوٹر خریدنے کو ٹالتی رہیں۔ بالآخر جب کمپیوٹر خریدلیا اور اس پر ہاتھ بھی رواں ہوگیا تو وہی کمپیوٹر اُن کے لیے نہ صرف باعثِ فخر بلکہ ایک اچھا ذریعہ آمدنی بھی ثابت ہوا۔ وہ کتابوں اور رسالوں کے مضامین کمپوز کرکے اچھے خاصے پیسے کما رہی ہیں اور ان کا دماغ بھی تروتازہ رہتا ہے۔
(۹) ٹیلی ویژن بامقصد نظر سے دیکھئے: ایک نئے زاویۂ نگاہ سے دیکھئے تو ٹی وی تفریح کے ساتھ ذہنی ورزش کا ایک اچھا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ پروگرام کو اس کا مقصد ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھئے۔ غور کیجیے کہ اس تحریر اور پیش کش کا انداز موضوع سے کس حد تک انصاف کرتا ہے۔ ہر پروگرام کے بارے میں ایک واضح رائے قائم کیجیے، اپنی رائے کے لیے دلائل ترتیب دیجیے۔
خطوط کے ذریعے ذرائع ابلاغ میں اپنی رائے کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے دماغ کی مزید ورزش ہونے کے ساتھ ممکن ہے ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کو سنوارنے میں بھی مدد ملے۔
(۱۰) کوئی نیا مشغلہ اپنائیے: کوئی بھی ایسی مصروفیت جو آپ کے لیے دلچسپ ہو، امنگ اور تجسس پیدا کرے، ذہن کو اجاگر کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ اسے پوری زندگی کے لیے اپنالیں۔ ایک ہابی میں دلچسپی کم ہوجائے تو کوئی نیا مشغلہ اپنایا جاسکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کئی مختلف مشغلے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ امریکہ کی ایک خاتون کئی سال سے اپنے خاندانی تجربے کی کھوج میں مگن ہیں۔ اپنی کئی سابقہ نسلوں کا سراغ لگا چکی ہیں۔ ڈاکٹروں کی رائے میں یہ مشغلہ انھیں کئی بیماریوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔
(۱۱) شریک ہونا سیکھیں: تنہائی سے بچیں۔ افراد کے مختلف گروہوں میں شامل ہونے سے نئے خیالات اور تصورات حاصل ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے ادارے، سماجی تنظیمیں کھیلوں کے کلب وغیرہ، یہ سب آپ کو طرح طرح کے لوگوں سے ملنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ کتب خانے بھی دوسروں کے ساتھ شریک ہونے کا اچھا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔
(۱۲)رضا کار بنئیے: مختلف معاشرتی خدمات کے لیے اپنا نام پیش کیجیے۔ اپنے آس پاس ایسے لوگ تلاش کیجیے، جنہیں مدد کی ضرورت ہو۔ کسی کا خط لکھ دیجیے، کسی کو اخبار پڑھ کر سنا دیجیے، کسی کے برقی لیمپ کی مرمت کردیجیے۔ محلے کے پڑھائی میں کمزور بچوں کو پڑھائیے۔ کسی بیمار کی تیمار داری کے لیے روزانہ کچھ وقت مقرر کردیجیے۔ کسی دعوتی، اصلاحی یا سماجی خدمت کے گروہ میں شامل ہوکر عوام سے رابطے میں مدد دیجیے۔ یہ بظاہر معمولی کام آپ کے دماغ کی تربیت اور اسے صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
(۱۳) تعلیم جاری رکھئے: سبھی جانتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، ہر عمر موزوں ہے۔ دماغ کو چاق و چوبند رکھنے کا یہ سب سے اچھا نسخہ ہے۔ اپنی دلچسپی کے مطابق کورسز میں داخلہ لیجیے۔ اگر کلاس روم میں بیٹھنا پسند نہ ہو تو اپنے ملنے جلنے والوں سے نئے علوم پڑھیں، کیسٹس کے ذریعے زبانیں سیکھیں، غرض کسی بھی بہانے اپنی تعلیم کا سلسلہ ہر عمر میں جاری رکھیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو نئے نئے موضوعات پر کتابیں پڑھنا اپنی عادت بنائیے۔
(۱۴) جسمانی ورزش باقاعدگی سے کیجیے: جو لوگ بڑھاپے میں بھی جسمانی ورزش جاری رکھتے ہیں ان کے دماغ ایک ۱۵ سالہ نوجوان کی طرح معلومات کا ذخیرہ کرنے اور ان سے بروقت نتائج حاصل کرنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
(۱۵) کوئی اچھی مثال اپنے سامنے رکھئے: ایسے کئی لوگ آپ کو ارد گرد نظر آئیں گے جو ضعیف ہونے کے باوجود زندگی میں بھر پور دلچسپی لیتے ہیں، بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں اور تقاریب میں جانِ محفل سمجھے جاتے ہیں۔ یہی آپ کے لیے مثالی لوگ ہیں۔ ان کے قریب جائیے، انھیں سمجھنے کی کوشش کیجیے، ان سے بڑھاپے میں بھی زندہ دل اور پر تجسس رہنے کا راز معلوم کیجیے۔ کیا عجب کہ آپ بھی کسی کے لیے مثالی نمونہ بن جائیں۔
(۱۶) مستقبل کے منصوبے بنائیے: مہینوں بلکہ برسوں بعد آنے والے مواقع کی منصوبہ بندی کیجیے۔ آئندہ موسم میں باغیچے میں پھول لگائے جائیں گے، کیاریاں کس انداز میں بنیں گی، پانی دینے کے نظام میں کیا اصلاح کی جائے گی؟ کس بچے کی سالگرہ کب ہوگی؟اس کی تیاری کیسے کرنی ہے؟ کن خاندانی تقریبات میں کون کس انداز سے شریک ہوگا۔ چھٹیاں کیسے گزاری جائیں گی؟ اس قسم کے تمام سوالات سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کیجیے اور پھر بے چینی سے اس وقت کے منتظر رہیے جب حرف بہ حرف ان منصوبوں پر عمل کیا جائے گا۔
(۱۷)تکالیف کو ہنسی میں اڑانا سیکھئے: تکالیف ہمارے چاروں طرف موجود ہیں، جبکہ خوشی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ دو مقولے یاد رکھیے: ’’کبھی کبھی اپنے آپ پر ہنسنا زندگی کو بہتر انداز میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘‘ اور ’’ہنسنا رونے سے بہتر ہے۔‘‘ جو اپنی تکالیف کو ہنسی میں نہیں اڑاسکتا، اسے پھر مجبوراً ان کے لیے رونا پڑتا ہے۔
دماغی ورزش بالکل جسمانی ورزش کی طرح ہے۔ جتنی ورزش کریں گے یہ اتنی ہی آسان ہوتی جائے گی۔ ان ورزشوں کے لیے لگن اور ثابت قدمی لازمی شرائط ہیں۔ لیکن اگر خوش قسمتی سے آپ اب تک زندگی سے دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہیں تو بسم اللہ کیجیے۔ یہ راستہ آپ کے لیے بہت آسان ہے۔