اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں کہ انسان عجلت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے۔ جو اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ طبیعت کی اس خاصیت کو اسی لیے بتایا گیا تاکہ ایک مومن اس عادت سے بچ جائے۔
بیٹی کی پڑھائی مکمل ہوئی اہلیہ کا مطالبہ شروع ہوا کہ جلد از جلد اس کی شادی کردی جائے ویسے کوشش بھی جاری تھی۔ اب ایک طرح سے فکر لگ گئی۔ اللہ پر بھروسہ کرکے ہم نے اپنے بچوں کو پڑھایا تھا، اسی بھروسے پر کہ علم کے ذریعے ہی آدمی مہذب اور تعظیم کے قابل بنتا ہے۔ حالانکہ ہمیں معلوم تھا کہ مسلم سوسائٹی میں لڑکی کو زیادہ تعلیم دلانا شادی کے ’مارکیٹ‘ میں اس کی قیمت کو کم کرنا ہے کیونکہ آج ہمارے سماج میں پڑھے لکھے اور دیندار لڑکے یا تو ملتے نہیں اور اگر ملتے ہیں تو اپنی بھرپور قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انگور کی بیل کی طرح ہوتے ہیں، جسے آگے بڑھنے کے لیے ایک ستون کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ سہارے چاہتے ہیں وہ لڑکی سے شادی کرنے کے لیے بڑی ہی بے شرمی سے پیسے پوچھتے ہیں۔ جہیز پوچھتے ہیں اور سیدھے سادے نکاح کے انکاری ہیں۔
میں خوش تھا کہ میرا ماحول الگ ہے کیونکہ میں جس دینی تنظیم سے وابستہ تھا اس کے لوگ جہیزی لین دین کے بھی مخالف تھے اور اللہ کے رسول کی اس حدیث کو بھی جانتے تھے جس میں شادی کی بنیاد کیا ہو اس کی وضاحت ہے۔ اس لحاظ سے مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی کی شادی آسانی سے اور سادے طریقے سے ہوجائے گی۔لیکن جب میں ’میرج مارکیٹ‘ میں اتراتو دیکھا کہ یہاں کا تو حساب ہی الگ ہے۔ اب تک ہمیں معلوم تھا کہ 1+1=2 ہوتے ہیں۔ لیکن ’شادی مارکیٹ‘ میں آکر دیکھا کہ یہاں1+1=11ہوتے ہیں۔ بڑا تعجب ہوا۔
تنظیم سے وابستہ لوگوں اور ذمہ داروں کے سامنے بیٹی کی شادی کا معاملہ رکھا اور خود سے بھی رشتہ ڈھونڈنا شروع کیا۔ ہماری بیٹی اللہ کے فضل سے اچھی خاصی پڑھی لکھی تو تھی ہی لیکن ساتھ ہی دینی علم میں بھی اسے اچھی خاصی دسترس حاصل تھی۔ قرآن اور حدیث کو اچھی طرح سمجھتی تھی اور سمجھاتی تھی۔ اچھی لیڈر شپ کی خصوصیات بھی تھیں۔ یہ بات تنظیم کی دیگر خواتین کو بھی اچھی طرح معلوم تھی۔ ہم نے سوچا چلو اچھا ہے۔ یہ ہماری تنظیم کے جس گھر میں بھی جائے گی۔ تنظیم کا بھلا ہی کرے گی۔ لیکن ہمیں ایک بات یہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور یہی بات ہمارے لیے باعث تشویش تھی کہ ابھی تک ہماری بیٹی کے لیے جان پہچان والوں سے کوئی رشتہ نہیں آیا تھا۔ حالانکہ تنظیمی سرکل میں وہ اچھی طرح جانی جاتی تھی۔ میں اور اہلیہ لمبی چہل قدمی کے لیے نکل جاتے اور دل کی یہ گھٹن ایک دوسرے کے سامنے رکھتے۔
جیسے جیسے دن گزرتے گئے ہم پر ایک چیز خوفناک حقیقت کی طرح واضح ہوتی چلی گئی کہ ہم جو سمجھتے تھے کہ دیندار لوگ ہماری دیندار بیٹی کو دینی خصوصیات کی وجہ سے پسند کرلیں گے اور یہ کہ 2=1+1 ہوتے ہیں ٹھیک نہیں تھا۔ جب کوئی رشتہ نہ آیا تو ہم نے ہی دو تین جگہ بات چلائی۔ لیکن بات بنی نہیں۔ اشاروں کنایوں میں اور دوسروں کے ذریعے سے بھی یہ بات معلوم ہوئی کہ لڑکے والے کہتے تھے کہ ٹھیک ہے لڑکی دیندار ہے۔ آپ لوگ بھی تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں کوئی جہیز نہیں چاہیے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بہو خوبصورت بھی ہو۔ مطلب رنگ گورا ہو، قد اونچا ہو، میں نے آج تک اس نظر سے اپنی بیٹی کو دیکھا نہ تھا۔ اب میں نے اس زاویہ سے اپنی بیٹی پر نظر ڈالی تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ میری بیٹی دینی لحاظ سے قدآور ہوسکتی ہے، لیکن جسمانی لحاظ سے قد آور نہیں ہے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے تو خوبصورت ہوسکتی ہے مگر رنگ کے لحاظ سے اتنی خوبصورت نہیں جتنی خوبصورت کی ’مارکیٹ ‘ میں ڈیمانڈ ہے۔ مجھے حضورﷺ کی ایک حدیث یاد آئی کہ شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب کرتے وقت دولت کو، نسب کو اور خوبصورتی کو نہ دیکھو، بلکہ دینداری کو دیکھو اور میرے پیارے حضورﷺ نے یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینے کے لیے کہا کہ ایک دیندار لونڈی بے دین خوبصورت لڑکی سے بہتر ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا تو مجھے ان دینداروں کا رویہ عجیب لگا۔
میں نے ایک دوست کے ساتھ discussکیا تو اس نے کہا کہ ارے بھائی مارکیٹ میں جاکر ٹماٹر خریدنا ہو تو اچھے ہی لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر شادی کے معاملے میں خوبصورت لڑکی کی تلاش کرتے ہیں تو کیا غلط ہے۔ پھر شادی کے معاملے میں کیا کریں بتائیے۔ تو میں نے بتایا کہ انسانوں کا مقابلہ ٹماٹروں کے ساتھ نہ کرو اللہ تم پر رحم کرے۔ شادی کاروبار نہیں۔
سب سے پہلے اللہ پر یہ بھروسہ رکھو کہ ہم لاکھ تلاش کرلیں شادی ہوگی وہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہو۔
اس لیے جب بھی رشتہ آئے یا رشتہ کی طرف بڑھو تو مثبت انداز سے آگے بڑھو۔ اگر اللہ کی مرضی ہے تو ہوگا نہیں تو نہیں۔ اور اگر نہیں ہوا تو اس میں بھی خیر ہوگا۔
نکاح میں کوئی چیز نہ مانگو، کیونکہ مانگنے والے کا ہاتھ ہمیشہ نیچے ہی رہتا ہے۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ مانگنے والا بھکاری ہے۔ چاہے اناج مانگے روپئے مانگے یا حسن و خوبصورتی۔ جب لوگوں کی جانب سے میری بیٹی کی حیثیت بتادی گئی تو میں نے اور میری اہلیہ نے اللہ سے رجوع کیا۔ تہجد کی نماز میں بڑے ہی درد سے دعا مانگی کہ اے پروردگار! اس مسئلے کو حل کرنے میں میری مدد فرما۔ میری بیٹی کا رشتہ کسی اچھی جگہ طے کرادے۔ اور ہم نے دیکھا کہ دو تین جگہ سے رشتے آئے اور ایک جگہ پر معاملہ بالکل سیدھی سادی شادی پر طے بھی ہوگیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا سن لی تھی۔ اور بالکل بغیر جہیز کے یہ شادی اللہ کے فضل سے اچھی طرح چل رہی ہے۔ لیکن دنیا والوں کو بھی ابھی یہ چیز ہضم نہیں ہورہی ہے کہ آج کے زمانے میں بغیرجہیز کے شادی کس طرح ممکن ہے۔ اس لیے وہ باتوں باتوں میں دریافت کرتے رہتے ہیں کہ بیٹی داماد کیسے ہیں؟ کیا بیٹی خوش ہے؟ وغیرہ۔ میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے وہ ٹھیک ہیں۔
میرے دل میں یہ آواز آتی ہے کہ دعائیں اثر ضرور کرتی ہیں۔
زندگی کے اس اہم تجربے نے مجھ پر ایک اہم راز تو فاش کردیا اور وہ یہ ہے کہ لوگ خواہ کیسے ہی دین دار ہوں یہ ہر حال عام آدمی ہیںاور ان کے لیے عام آدمی کی سطح سے اوپر اٹھنا بڑا دشوار ہے خواہ اس کے لیے دینداری کا کتنا ہی طاقت ور جیک لگایا جائے۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں