یاد ہے مجھ کو تِرا خواب میں آنا اب تک
دل کو تڑپاتا ہے منظر وہ سہانا اب تک
تجھ سے ہٹ کر بھی کوئی بات کبھی سوچی ہو
مجھ پہ گزرا ہی نہیں ایسا زمانہ اب تک
ریت کے ڈھیر پہ بنیاد مکاں کیا رکھی
ڈھونڈتے رہتے ہیں عالم میں ٹھکانا اب تک
آتش ہجر میں تو جسم ہوا راکھ مگر
دل بنا ہے مرے قاتل کا نشانہ اب تک
جب یقین ہے کہ وہ لوٹے گا نہ اس رستے پر
بھولتا کیوں نہیں دل شمعؔ جلانا اب تک