والدین کا حق

اسداللہ فہیم الدین

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہمارے حسنِ اخلاق کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آئیے میں آپ کو بتاؤں اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو بے شمار وان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن کا شمار کرنا طاقتِ بشری سے باہر ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:

وَان تعدوا نعمۃ اللّٰہ لاتحصوہا۔

(ابراہیم:۳۴)

’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار بھی کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔‘‘

اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں میں بہت بڑی نعمت ماں باپ کا سایۂ شفقت ہے۔ وہ ہمارے مربی و معلم ہیں ہماری زندگی کی تعمیر و ترقی سب انہی کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اور رسول ؐ کے بعد اگر اس دنیا میں کسی کا مقام و مرتبہ ہے تو والدین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہٗ اُمُّہُ کَرْہاً وَوَضَعَتْہٗ کَرْہاً وَفِصَالُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَہْراً۔

اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کو جننے کے مرحلے میں ماں ہمیشہ ہمیش کے لیے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ماں باپ کو اتنا بلند مقام دیا ہے کہ اپنے کلامِ مقدس میں جگہ جگہ اپنی عبادت و رسول کی اطاعت کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا۔ فرمایا:

وَقَضیٰ رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوا اِلَّا اِیَّاہٗ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اِحْدَہُمَا اَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَہُمَا اُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً۔ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً۔

’’تمہارے رب نے تمہیں حکم دے رکھا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو ہونہہ‘ تک بھی نہ کہو اور نہ ہی جھڑکو بلکہ ان کے ساتھ شفقت و نرمی کا سلوک کرو اور خندہ پیشانی سے ان کے احکام کو بجالاؤ اور رحمت کے بازو ان کے سامنے جھکادو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے اللہ! جس طرح انھوں نے مجھے بچپن میں پالا پوسا ہے اسی طرح ان پر رحم فرما۔‘‘

لیکن افسوس آج معاملہ اس کے برعکس ہورہا ہے۔ جن والدین نے بچوں کو اتنی محنت و مشقت سے پالا پوسا آج وہی ان کے احسانات کا بدلہ گالی گلوج اور مارپیٹ سے دے رہے ہیں۔ عقل و خرد حاصل کرنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوجانے کے بعد اپنے والدین کو ذلت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ گھر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ جو ماں جان لیوا بوجھ کو بغیر کسی خوف کے اٹھائے ہوئے پھرتی رہی اور جننے کے بعد اپنے خون جگر کو بشکل دودھ پلاکر پروان چڑھاتی اپنی جوانی کی چوکھٹ پر پہنچ کر اسی ماں کے آرام و آسائش کی تمناؤں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ بڑھاپے کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ضعیف والدین ایک گلاس پانی کے لیے ترس جاتے ہیں اور اولاد کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جاکر انھیں ایک گھونٹ پانی پلادیں۔

اس سے بھی شرم و الم کی بات تو یہ ہے کہ آج اخبارات میں ایسی سرخیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں اولاد نے دولت و ثروت اور کسی کے پیار کی خاطر ان ہی ہاتھوں سے بوڑھے ماں باپ کے قتل کرکے ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔ اس طرح والدین ہماری جنت یا ہماری دوزخ بن سکتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

ہما جنتک و نارک۔

’’وہی تمہاری جنت اور وہی تمہاری جہنم ہیں۔ ‘‘

آپ نے ایک موقع پر فرمایا ’’اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ !کس کی ناک خاک آلود ہو؟ آپ نے فرمایا: اس شخص کی جو اپنے والدین کو حالتِ ضعف (بڑھاپے کی حالت) میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنت نہ حاصل کرسکے۔‘‘

اس کے علاوہ متعدد حدیثیں اور قرآنی آیات ہیں جن سے والدین کے حقوق کے بارے میں جانکاری حاصل ہوتی ہے اور ان کو ناراض کرنے اور ستانے کے نقصانات اور وعیدیں اور ان کو خوش کرنے کے فوائد وخوش خبریاں ملتی ہیں اور ان کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146