روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ فطری طور پر ہی نہایت متین اور تنہائی پسند طبیعت کی مالک تھیں ، بچپن میں انھوں نے نہ کبھی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ گھر سے باہر قدم نکالا۔
رسول اکرمﷺ اور حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کو ان سے غایت درجہ کی محبت تھی، ننھی سیدہ بچپن میں ہی اپنے فخرموجودات پدر گرامی ﷺ کے عادات و اطوار، رفتار وگفتار کو غور سے دیکھتی رہتی تھیں۔ سید الانام ﷺ جب کبھی باہر سے تشریف لاتے تو بلند آواز میں’’السلام علیکم‘‘ کہتے اور پھر چند لمحے توقف کرکے گھر کے اندر داخل ہوتے۔ ننھی سیدہ اپنے برگزیدہ اور پیارے باپ کی آواز سن کر گھر کے دروازے تک دوڑی جاتیں اور حضورﷺ کی انگشت مبارک پکڑ کر ساتھ لاتیں۔ سرور عالم ﷺ اپنی نشست گاہ میں پہنچ کر سیدہ کو اپنی آغوشِ مبارک میں لے لیتے اور نہایت شفقت و محبت کے ساتھ ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے۔ رسول اکرم ﷺ ننھی فاطمہؓ کو ایسی ایسی باتیں سکھاتے جن سے خدا شناسی اور اللہ کے بندوں سے محبت کا سبق ملتا۔ مبداء فیض نے انھیں کمال درجے کی ذہانت عطا کی تھی جو بات ایک دفعہ سن لیتیں ہمیشہ یاد رکھتیں۔ جب حضورﷺ گھر سے باہرتشریف لے جاتے تو حضرت خدیجہ الکبریٰ ننھی سیدہؓ سے دریافت کرتیں کہ آج اپنے بابا سے کون کون سی باتیں سیکھی ہیں وہ فوراً سب کچھ بتا دیتیں۔ سیدہ فاطمہؓ کو دنیا کی نمود ونمائش سے بچپن ہی میں سخت نفرت تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت خدیجہ الکبریؓ کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ انھوں نے اپنی بچیوں کے لیے اس تقریب میں شرکتکی غرض سے اچھے اچھے کپڑے اور زیور بنوائے، جب گھر سے چلنے کا وقت آیا تو سیدہ فاطمہؓ نے یہ کپڑے اور زیور پہننے سے صاف انکار کردیا اور معمولی کپڑوں میں ہی محفل شادی میں شریک ہوئیں۔ گویا بچپن سے ہی ان کے عادات و اطوار سے خدا دوستی اور استغناء کا اظہار ہوتا تھا۔
سیدہؓ اپنے عظیم باپ اور آپؐ کے نام لیواؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھتیں تو بہت آزردہ ہوتیں لیکن کمسنی کے باوجود ان حالات سے کبھی خوفزدہ نہ ہوئیں بلکہ ہر مشکل موقع پر حضورﷺ کی غمگساری اور خدمت کی۔ کسی وقت بتقاضائے فطری حضورﷺ کی مصیبتوں پر اشکبار ہوجاتیں تو حضورﷺ انھیں تسلی دیتے اور فرماتے:
’’میری بچی گھبراؤ نہیں، خدا تمہارے باپ کو تنہا نہ چھوڑے گا۔‘‘
تبلیغِ حق کے دوران میں کفار حضورﷺ کے ساتھ کوئی شرارت کرتے اور سیدہؓ کو خبر پہنچتی تو وہ بے چین ہوجاتیں، حضورﷺ گھر تشریف لاتے تو دوسری بہنوں کے ساتھ وہ بھی حضورﷺ کو تسلی دیتیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے رو دھوکر حضور کو تبلیغِ حق سے منع کیا ہو۔
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کعبہ معلی کے نزدیک مصروف نماز تھے ، عقبہ بن ابی معیط نے خون اور گوبر سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجھڑی لاکر حضورﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ دی جب کہ آپ سربسجود تھے۔ کفار کو یہ منظر دیکھ کر اس قدر مسرت ہوئی کہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے کے اوپر گرے پڑتے تھے۔ حضورؐ کو اس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ سیدہ فاطمہ کو یہ خبر ہوئی تو بے چین ہوگئیں، دوڑتی ہوئی کعبہ پہنچیں حضورؐ کی گردن مبارک سے اوجھڑی ہٹائی۔ کفار ارد گرد کھڑے ہوکر ہنستے اور تالیاں پیٹتے تھے۔ سرورِ کونین ﷺ کی لختِ جگر نے ایک نگاہ خشم آلود ان پر ڈالی اور فرمایا: شریرو! احکم الحاکمین تمھیں ان شرارتوں کی سزا دے گا۔
رحمتِ عالم ﷺ جب تبلیغ کے لیے طائف پہنچے (جو مکہ معظمہ سے جنوب مشرق میں تقریباً پچاس میل کے فاصلے پر ایک شاداب مقام ہے) تو وہاں کے لوگوں نے شہر کے اوباشوں، لچوں اور لفنگوں کو ہشکار دیا کہ وہ حق کے مقدس داعیٔ اعظم کو خوب ستائیں۔ یہاں تک کہ وہ تنگ آکر راہِ فرار اختیار کرے۔
آپ کو لفنگے اور اوباش اس قدر پتھر مارتے کہ آپ کا جسم اطہر لہولہان ہوجاتا۔ یہاں تک کہ آپ کے ٹخنوں اور پنڈلیوں اور گھٹنوں سے خون کے دھارے بہہ نکلتے تھے۔ جب سرورِ عالم ﷺ طائف سے مکہ واپس تشریف لائے تو خستگی اور زخموں کی وجہ سے نڈھال تھے۔ سیدہ فاطمہؓ پدر گرامی کا حال دیکھ کر سخت مضطرب ہوئیں اور مستقل آپ کی خدمت گزاری میں مصروف رہیں۔
سیدہؓ اور جذبۂ عبادت و خوفِ الٰہی
ایک بار سیدہ فاطمہؓ کو بخارا آگیا۔ رات انھوں نے سخت بے چینی میں کاٹی۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا۔ پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ فاطمہؓ وضو کررہی ہیں۔ میں نے مسجد میں جاکر نماز پڑھی۔ واپس آیا تو دیکھا کہ فاطمہؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں۔ میں نے کہا فاطمہؓ تمھیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا؟ رات بھر تمھیں بخار رہا۔ صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کرلیا، اب چکی پیس رہی ہو۔ خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہوجاؤ۔ فاطمہ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے کرتے مر بھی جاؤں تو کچھ پرواہ نہیں ہے۔ میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی، اللہ کی اطاعت کے لیے اور چکی پیسی آپ کی اطاعت اور بچوں کی خدمت کے لیے۔ سیدنا حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ہماری مادر گرامی کی زندگی میں باہر کے تمام کام ہمارے والد بزرگوار انجام دیتے تھے اور گھر کے تمام کام کاج، کھانا پکانا، چکی پیسنا، جھاڑو دینا وغیرہ سب ہماری مادر گرامی خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کے احکام کی تعمیل اس کی رضا جوئی اور سنت نبوی کی پیروی ان کے رگ و ریشہ میں سما گئی تھی۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اللہ کی ہوکر رہ گئی تھیں۔
زہد و قناعت
حضرت فاطمہ زہراؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا ’’میرے دونوں بیٹے حسن و حسین کہاں ہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا’’ابا جان! آج صبح ہمارے گھر میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی، علیؓ نے مجھ سے کہا کہ میں ان دونوں بچوں کو ساتھ لے کر فلاں یہودی کے پاس (مزدوری کے لیے) جارہا ہوں، ایسا نہ ہو کہ بچے کھانے کے لیے روئیں۔
رسول اللہ ﷺ اس طرف تشریف لے گئے دیکھا کہ دونوں بچے ایک حوض کے پاس کھیل رہے ہیں۔ اور ان کے قریب چند کھجوریں رکھی ہوئی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اے علی! اس سے پہلے کہ دھوپ تیز ہوجائے، ان بچوں کو گھر واپس لے جاؤ۔‘‘
حضرت علیؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ! صبح سے گھر میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں۔انھوں نے درخت سے گری ہوئی کھجوریں فاطمہ کے لیے بھی چن کر ایک کپڑے میں ڈال لیں اور چل پڑے۔ بچوں میں سے ایک کو رسول اللہ ﷺ نے اٹھایا اور ایک کو حضرت علیؓ نے۔ اس طرح سب گھر پہنچے۔
ایک دن سرورِ دو عالمﷺ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ سیدۃ النساءؓ اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ وہ آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام اللہ کی تلاوت جاری ہے۔ حضور ﷺ یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: ’’فاطمہ! دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کرو اور آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نیک اجر دے گا۔‘‘
ایثار و سخاوت
ایک دفعہ قبیلۂ بنو سلیم کے ایک بہت بوڑھے آدمی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔ حضورﷺ نے انھیں دین کے ضروری احکام و مسائل بتائے۔ پھر ان سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ مال بھی ہے؟
انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! قسم ہے اللہ کی، بنو سلیم کے تین ہزار آدمیوں میں سب سے زیادہ غریب اور محتاج میں ہی ہوں۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس کی خوراک کا بندوبست کرے؟ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان صاحب کو ساتھ لیا اور ان کی خوراک کا انتظام کرنے لگے۔ چند گھروں سے دریافت کیا لیکن وہاں سے کچھ نہ ملا۔ آخر سیدہؓ کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سیدہؓ نے پوچھا کون ہے؟ حضرت سلمانؓ نے سارا واقعہ بیان کیا اور التجا کی، اے سچے رسولﷺ کی بیٹی! اس مسکین کی خوراک کا بندوبست کیجیے۔
سیدئہ عالمؓ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا: اے سلمان! خدا کی قسم آج سب کو فاقہ ہے۔ دونوں بچے بھوکے سوئے ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی۔ جاؤ میری چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاؤ اور اس سے کہو کہ فاطمہؓ بنتِ محمدؐ کی یہ چادر رکھ لواور اس کے عوض اس مسکین کو کچھ جنس دے دو۔
حضرت سلمانؓ اعرابی کو ساتھ لے کر شمعون کے پاس پہنچے اور اس سے تمام کیفیت بیان کی۔ سیدۂ عالمؓ کے پاکیزہ کردار کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار پکار اٹھا۔ اے سلمان ! خدا کی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے۔ تم گواہ رہنا کہ میں فاطمہ کے باپ پر ایمان لایا۔
پھر حضورﷺ فاطمہ زہراؓ کے گھر تشریف لے گئے، ان کے سر پر دستِ شفقت پھیرا، آسمان کی طرف دیکھا اور دعا کی بارِ الٰہا فاطمہؓ تیری کنیز ہے۔ اس سے راضی رہنا۔
(مرسلہ: سائرہ بانو، مبارکپور)




