(۱) بچوں کی ناکامی کے ذمہ دار آپ تو نہیں؟
والدین کا بے جا لاڈ پیار اورتوجہ بچوں کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین جب ضرورت کے تحت بچوں کو ڈانٹیں بھی تو بچوں پر ان کی کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ ایسا خاص طور پر اس وقت مشاہدے میں آتا ہے جب والدین بچوں کو پڑھائی کے اوقات میں بیٹھ کر پڑھنے کے لیے کہیں اور بچوں پر ان کی کسی بات کا اثر ہی نہ ہو۔
والدین اپنے بچوں کی تعلیم میں عدم دلچسپی کے باعث پریشان نظر آتے ہیں انھیں اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے بچے دوسری تمام سرگرمیوں میں تو بہت آگے ہیں مگر تعلیم کے معاملے میں دوسرے بچوں سے پیچھے ہیں۔بعض اوقات یہ چھوٹی چھوٹی باتیں والدین کے لیے مستقل پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جیسے ان کے بچے مستقبل میں ان کے خواب پورے کرنے سے قاصر رہیں گے۔
بچوں کی تعلیم میں دلچسپی نہ لینے کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ بعض بچے کھیل کود میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں کہ پڑھائی کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ کچھ بچے کسی مضمون میں اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ باقی مضامین کو بھی ویسا ہی بور تصور کرتے ہیں ایسے میں بچے پر خفا ہونے کے بجائے ضروری ہے کہ آپ ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش کریں جو بچے کی تعلیم میں عدم دلچسپی کا سبب بن رہے ہیں یا کہیں آپ خود ہی اس کا سبب تو نہیں بن گئے ہیں؟ کیونکہ بعض والدین اپنے بچوں پر اپنی خواہشات مسلط کرتے ہیں۔ اگر ایک بچہ سائنس کے مضامین پڑھنے کے بجائے آرٹس کے مضامین پڑھنا چاہتا ہے تو بہت سے والدین بچے کی خواہشات اور شوق و دلچسپی کو مدنظر رکھے بنا زبردستی اسے سائنس مضامین پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے میں بچہ والدین کی خواہش پر سائنس کے مضامین پڑھنا تو شروع کردیتا ہے، مگر اس کی پڑھائی میں دلچسپی کم ہوجاتی ہے کیونکہ ان مضامین میں اس کے شوق اور دلچسپی کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں پر اپنی خواہشات تھوپنے کے بجائے انہیں ان کی مرضی کے مضامین پڑھنے دیں۔ اکثر والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے جب کہ بچہ کسی اور طرف جانا چاہتا ہے مگر اسے اپنے والدین کی ضد کی خاطر اپنی خواہش کی قربانی دینی پڑتی ہے، جس سے وہ بچہ پڑھائی میں دوسرے بچوں سے نہ صرف پیچھے رہ جاتا ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی بہت الجھ جاتا ہے۔ والدین کا ایسا رویہ بچوں کی تعلیمی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اپنے بچوں پر کبھی بھی ایسی سختی نہ کریں بلکہ انہیں ان کے شوق اور دلچسپی کے مطابق پڑھنے دیں۔
بچوں کی تعلیمی ناکامی کی دوسری اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخل کروانے کے بعد اس بات سے بالکل بے خبر ہوجاتے ہیں کہ بچے کو تعلیمی حوالے سے کسی مسئلے کا سامنا تو نہیں۔ اچھے اسکول اس بات کی ضمانت نہیں ہوتے کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے والا ہر بچہ لائق ہی ہوگا۔ جو والدین خود بھی بچوں کے اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں ان کے بچے ہمیشہ تعلیمی اعتبار سے اچھے رہتے ہیں کیونکہ اس طرح والدین اپنے بچے کی نصابی کارکردگی سے واقف رہتے ہیں جبکہ جو والدین بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں، ان کے بچے پڑھائی میں زیادہ چست نہیں ہوتے۔ بعض والدین خواہ مخواہ اپنے بچے کا مقابلہ دوسرے ہم عمر بچوں سے کرنا شروع کردیتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا بچہ اچھے نمبر لے آئے تو اپنے بچے کو بات بات پر اس کی مثال دیتے رہتے ہیں۔ ایسا رویہ سراسر غلط ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر بچہ ذہنی طور پر ایک سا ہو۔ ’’مقابلہ‘‘ کرنا برا نہیں مگر اپنے بچے کو دوسرے بچوں کے سامنے ہر وقت نیچا دکھانا یا اسے ڈانٹ ڈپٹ کر نا بالکل غلط ہے کیونکہ اس سے بچے کے احساسات مجروح ہوتے ہیں۔نیز والدین کے ایسے رویے سے بعض بچے اس قدر دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کہ وہ پڑھنا لکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچے سے خفا ہونے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ کہیں آپ بھی تو قصوروار نہیں۔
(۲) آپ اپنے بچے کی عزت کرتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں اکثر والدین کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ بچے کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ وہ صرف بچوں کو کھیل کود پڑھائی اور دوستوں سے ملنے کے مواقع دے کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا فرض ادا کردیا یا پھر بچے پر سختی کرتے ہوئے یہ اطمینان کرلیتے ہیں کہ انھوں نے بچے کو اچھے برے کی تمیز سکھادی ہے۔ اس تمام عمل میں وہ اپنے بچے کی عزت کرنے کے عمل کو قطعاً اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح بڑے احترام کے متقاضی ہوتے ہیں اسی طرح بچوں کا بھی حق ہوتا ہے کہ ان کی عزت کی جائے؟
انسان کو دل ودماغ کے ساتھ عزت نفس جیسے نازک احساس سے بھی نوازا گیا ہے۔ عزت نفس کا احساس انسان عمر کے ابتدائی ادوار میں ہی سیکھ لیتا ہے۔ بچوں کے ساتھ والدین کو اس طرح برتاؤ کرنا چاہیے کہ انھیں اپنی اہمیت کا احساس رہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کی تربیت میں اس بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بچوں کی کوئی غلطی کرنے پر یا کہنا نہ ماننے پر سب کے سامنے بری طرح ڈانٹا یا پیٹا جاتا ہے۔ بعض والدین تو بچوں کو بازار میں یا مہمانوں کے سامنے مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے ایسا کرکے انہیں یہ تو تسلی ہوجاتی ہے کہ ان کا بچہ اب یہ حرکت دوبارہ نہیں کرے گا لیکن انہیں اپنے اس طرزِ عمل کی خرابی کا جس سے بچے کی عزت نفس کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے، احساس نہیں ہوتا۔ اگر بچے نے کوئی غلطی کی ہے تو اسے سب کے سامنے سزا ہرگز نہ دی جانی چاہیے۔
والدین کی نظر سے دیکھا جائے تو بچہ اپنی غلطی کی سزا بھگت رہا ہے۔ لیکن بچے کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ سب کے سامنے کھڑا بہت شرمندگی محسوس کررہا ہوتا ہے بلکہ ذلیل ہورہا ہوتا ہے۔ اس کی طرف اٹھنے والی ہر نظر اسے یوں محسوس ہوتی ہے گویا اس سے کہہ رہی ہو تم دنیا کے نالائق ترین بچے ہو۔ ہر شخص کے چہرے پر اسے اپنے لیے نفرت نظر آرہی ہوتی ہے۔ جب بچے کو کسی برے لقب سے پکارا جاتا ہے یا اس کی غلطیاں بیان کی جاتی ہیں تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک کمتر اور بدنام انسان ہے۔ بچہ اپنی شرمندگی کی وجہ سے یا تو خاموش طبع اور تنہائی پسند ہوجاتا ہے کہ کسی کو اس کی بے عزتی کا موقع ہی نہ ملے یا پھر وہ نافرمان ہوجاتا ہے اور کچھ بھی کہا جائے وہ کوئی اثر نہیں لیتا۔ جن بچوں کو گھر میں عزت دی جاتی ہے ان میں خود اعتمادی پروان چڑھتی ہے وہ ہر کام کو اپنی ذمہ داری پر کرنا سیکھتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ دوسروں کی عزت کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر بچہ گھر میں شرارتیں نہیں کرتا لیکن باہر جاکر شرارتیں کرتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ گھر میں اس پر بلاوجہ پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں بچہ گھٹن کا شکار ہوجاتا ہے۔
والدین ہر جگہ بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کروادیتے ہیں اور اس کی شخصیت کھوکھلی رہ جاتی ہے۔ اگر والدین بچے میں عزت نفس کے احساس کو پروان چڑھائیں اور دوسروں کے سامنے اسے ایک اہم انسان کے طور پر پیش کیا جائے تو وہ اپنی امیج کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنے دے گا۔
دوسرو ںکے سامنے بچوں کی برائیوں کے بجائے اگر ان کی اچھی باتیں اور کامیابیاں بیان کی جائیں تو بچہ خود کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ عزت دینے سے بچے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے دل میں بڑوں کے لیے محبت و احترام کا جذبہ مزید بڑھتا ہے۔
(۳) بچوں کے لڑائی جھگڑے کو معمولی نہ سمجھیں
اکثر والدین اپنے بچوں کے باہمی جھگڑوں سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور خود انہیں لڑتے دیکھیں تو معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر بروقت ان باتوں پر توجہ نہ دی جائے تو بعد میں بچوں کے آپس کے تعلقات بری طرح مثاتر ہوسکتے ہیں۔ بہت سے والدین بچوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کو مارتے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں یا پھر ایک بچے کا ساتھ دے کر اسے دوسرے پر برتر ثابت کرتے ہیں ۔ یہ رویہ انتہائی خطرناک اور غلط ہے۔ ایسی صورت میں جب بچے لڑجائیں تو دونوں بچوں کے درمیان ان غلط فہمیوں کو بروقت دور کرکے سمجھانے بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو غلطی پر ہو اسے سمجھانا چاہیے کہ وہ دوسرے سے اپنی غلطی کی معافی مانگے۔
ہر گھر میں بچے ہیں اور ان کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو تو یہ ناممکن سی بات ہے۔ بچوں کے درمیان والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یا پھر کھلونوں کے معاملے میں تلخ کلامی تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں والدین کو کڑی نگرانی اور مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بچپن کے یہی جذبات عمر کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ اور بچے اگر آپسی نفرت کے ساتھ بڑے ہوں تو ان کی یہ نفرت عمر کے کسی بھی حصہ میں ختم نہیں ہوسکے گی۔ وہ پختہ ہوجائے گی۔
ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کے درمیان رقابت چلتی رہے تو یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرجاتی ہے۔ بچوں کے ان چھوٹے چھوٹے مسائل کو نظر انداز کرنے سے مستقبل میں نہایت برے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں والدین اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور بہن بھائیوں کے آپسی لڑائی جھگڑے کو ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔
بعض اوقات بچوں کے آپسی جھگڑے فطری اور معمولی ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات ان کی معقول اور مضبوط وجوہ ہوتی ہیں اور اگر انہیں رفع نہ کیا جائے تو دل میں نفرت کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے۔ اکثر افراد کا ماننا ہے کہ بچوں کے آپسی تعلقات میں خرابی کی وجہ بے جا مقابلہ بازی بھی ہے جب بہن بھائی کسی چیز کے حصول کے لیے مقابلہ بازی پر اتر آتے ہیں تو ایسے حالات میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے لیے نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ۱۹ سالہ ریحان اپنے بڑے بھائی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ اس کا بھائی بیرون ملک مقیم ہے۔ وہ جب بھی گھر فون کرتا ہے تو ریحان اس سے بات کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریحان خود کو اپنے بھائی سے کمتر محسوس کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کا بھائی اس کے مقابلے میں زیادہ ہوشیار ہے۔ بچپن سے ہی ان کے والدین ریحان کو کم توجہ اور کم محبت دیتے تھے جبکہ اس کے بھائی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے وہ اپنے بھائی سے محبت نہیں کرتا بلکہ اس کے ہر کام سے حسد کرتا ہے۔ اکثر گھروں میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان فرق سمجھا جاتا ہے۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جنس میں فرق کی بنیاد پر ایک کو کمتر دوسرے کو برتر سمجھا جاتا ہے۔ جس سے بھائیوں کے تعلقات میں دراڑیں پڑجاتی ہیں اور یہ رقابتیں سمجھدار ہونے کے بعد مزید شدت اختیار کرجاتی ہیں۔
والدین کا فرض ہے کہ بچوں کے درمیان تلخیوں کو نہایت صبر وتحمل اور سمجھداری سے دور کریں۔ صرف ایک بچے کو سمجھانا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ حالات میں بہتری کے لیے دونوں بچوں کو نہایت پیا رسے سمجھانا چاہیے۔ اگر ایک بچہ کسی چیز میں کمزور ہے دوسرے کو اسے نالائق کہنے کے بجائے اس کا حوصلہ بڑھانا چاہیے۔