پچپن سالہ ہاجرہ ایک استاد کی بیوی، مگر ان پڑھ گھریلو خاتون تھی۔ اس کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بڑا بیٹا ایک بینک میں افسر اور شادی شدہ تھا۔ دوسرا بیٹا بھی استاد تھا۔ باقی بچے ابھی زیرِ تعلیم تھے۔ بڑے بیٹے کی شادی کے ایک سال بعد ہنستی مسکراتی ہاجرہ افسردہ، اداس اور دل گرفتہ رہنے لگی۔ بھوک بہت گھٹ گئی۔ نیند بھی بری طرح متاثر ہوئی اور جلد ہی وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی۔ اسے شدید احساس جرم تھا، ہر وقت اپنے آپ کو کوستی رہتی۔ بیٹھے بیٹھے یک لخت آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔
آج کل ڈیپریشن کا مرض عام ہے۔ اس میں آدمی شدید افسردگی کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ افسردگی ہفتوں بلکہ مہینوں چلتی رہتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے۔ کوئی چیز اور کوئی شخص اچھا نہیں لگتا حتیٰ کہ ماں کو اپنے بچے بھی اچھے نہیں لگتے۔ مریض سمجھنے لگتا ہے کہ اس نے ماضی میں بہت سے گناہ کیے ہیں، جن کی سزا اسے مل رہی ہے۔ ایک بار ایک مریض نے اپنے اس ذہنی کرب کا مجھ سے اس طرح اظہار کیا: ’’پروفیسر صاحب! آپ نہیں جانتے کہ ہم کس عذاب سے گزرتے ہیں۔ مرنے والا ایک بار مرتا ہے جبکہ ہم ایک دن میں کئی بار مرتے ہیں۔‘‘
امریکہ میں ڈیپریشن کے بیس فیصد مریض خود کشی کی کوشش کرتے ہیں اور نصف کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جب کہ مسلم ممالک میں خود کشی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ اسلام اسے حرام ٹھہراتا ہے۔
جب ڈیپریشن شدید ہوکر فرد کی نارمل زندگی میں رکاوٹ بن جائے تو یہ ایک بیماری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا عموماً کسی چیز کے نقصان یا نقصان کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے، مثلاً مالی نقصان ہوجائے یا ملازمت ختم ہونے کا خوف ہو۔ یہ مرض عورتوں میں مردوں کی نسبت دوگنا پایا جاتا ہے۔ ڈیپریشن میں دو طرح کی علامات پائی جاتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
نفسیاتی علامات
ڈیپریشن کے مریض کی چند نفسیاتی علامات بڑی واضح اور نمایاں ہوتی ہیں، وہ اداس رہنے لگتاہے۔ بات بات پر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں، کسی کام میں بھی اس کا جی نہیں لگتا۔ اسے اپنے محبوب مشغلوں سے بھی نفر ت ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بے سہارا اور ناتواں سمجھنے لگتا ہے۔ کوئی احساس جرم اس پر غالب آجاتا ہے۔ اسے اپنے ہی دوستوں اور عزیزوں سے ڈر لگنے لگتا ہے اور اس میں کسی بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا گنہگار اور مریض خیال کرنے لگتا ہے۔
جسمانی علامات
اگر درج ذیل علامات میں سے کسی فرد میں تین یا اس سے زیادہ پائی جائیں تو وہ ڈیپریشن کا شکار ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔ علاج جلد کرایا جائے ورنہ مشکل پیش آئے گی۔ ڈپریشن کی جسمانی علامات درج ذیل ہیں:
۱- بھوک کاخاتمہ
۲- نیند میں خلل
۳- عمومی سستی
۴- قبض
۵- سر، کمر اور گردن میں درد کی شکایت
ڈیپریشن کی دو بڑی اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی قسم میں مرض کی کوئی ظاہری وجہ ہوتی ہے، مثلاً کوئی عزیز فوت ہوگیا یا کاروبار میں گھاٹا پڑگیا۔ دوسری قسم میں مرض کی کوئی ظاہری وجہ نہیں ہوتی۔ کبھی شعوری اور کبھی لاشعوری ہوتی ہے۔
وجوہ
۱- اکلوتے بیٹے، جوان بھائی، خاوند یا کسی بے حد پیارے دوست کی وفات انسان کو اداس، افسردہ اور غمگین کردیتی ہے۔
۲- گھریلو جھگڑے بھی ڈیپریشن کا باعث بنتے ہیں۔ خصوصاً میاں بیوی یا بچوں اور والدین کے جھگڑے گھر کو افسروہ بنادیتے ہیں۔ اس ماحول میں آدمی ڈیپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔
۳- میاں بیوی میں علیحدگی یا طلاق خاندان کے کسی بھی شخص کو افسردہ کرسکتی ہے۔
۴- بعض اوقات کام میں زیادتی یا ذمے داری میں اضافہ ڈیپریشن کا باعث بنتا ہے۔ کام کی زیادتی یا نئی ذمے داری کی وجہ سے ہر وقت تناؤ (Tension) اور ذہنی دباؤ(Stress) رہتا ہے۔
۵- ملازمت کا خاتمہ، عہدے میں کمی یا شہرت اور ناموری میں کمی یا خاتمہ بھی ڈیپریشن پیدا کرتا ہے۔
۶- گھر یا ملازمت کے بدلنے کی وجہ سے بعض افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہونے سے ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
۷- بڑھاپا ڈیپریشن کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ بوڑھے لوگ عام لوگوں سے چار گنا زیادہ ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ناتوانی، تنہائی اور موت کا خوف انہیں پژمردہ رکھتے ہیں۔
۸- بعض اوقات کسی وجہ سے آدمی اکیلا رہتا ہے اور احساس تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے جو اسے ڈیپریشن میں مبتلا کردیتا ہے۔
۹- کبھی زندگی کی یکسانیت سے بھی ڈیپریشن پیدا ہوتا ہے، مثلاً مرد کا صبح اٹھنا، نماز پڑھنا، ناشتا کرنا اور کام پر چلے جانا، شام کو کام سے واپس آنا، گھر کے چند روز مرہ کے کام کرنا اور پھر عشاء کے بعد سوجانا، خواتین خاص طور پر اس یکسانیت کا شکار ہوتی ہیں۔ کیونکہ انھیں زندگی بھر وہی کام ہر روز ایک ہی ترتیب سے کرنے ہوتے ہیں۔ مثلاً ناشتا، گھر کی صفائی، دوپہر کا کھانا اور پھر رات کا کھانا وغیرہ۔ اس معمول سے یکسانیت، اکتاہٹ اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے جس سے وہ ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
۱۰- بعض افراد کو اپنا کام پسند نہیں ہوتا، مگر مالی مجبوری کے تحت وہ اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ ایک ناپسندیدہ کام عرصہ دراز تک کرنے سے بھی اکتاہٹ اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے جو افسردگی کا باعث بنتی ہے۔
۱۱-بے روز گاری بھی اداسی اور یاسیت کا باعث بنتی ہے۔
۱۲- ریٹائرمنٹ کا خوف اور آسائشیں چھن جانے کا غم، اداسی، مایوسی اور افسردگی پیدا کرتے ہیں۔
۱۳- مالی یا کاروباری نقصان بھی ڈیپریشن کا باعث بنتا ہے۔
۱۴- اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی ڈیپریشن کے مریض ہیں تو دوسرے لوگوں کی نسبت ان کے بچوں کے ڈیپریشن کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ڈیپریشن بچوں کو وراثت میں مل سکتا ہے۔
۱۵- تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان عورتوں میں ڈیپریشن دوگنا زیادہ ہے جو غصے کا اظہار کم کرتی ہیں۔ غصے اور دکھ کو دبانا بھی ڈیپریشن کا سبب ٹھہرتا ہے۔
۱۶- بعض بچے بچپن میں عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ماں باپ کی طرف سے محبت نہیں ملتی۔ اسی طرح جن بچوں کو بچپن ہی سے ذمے داریاں سنبھالنی پڑتی ہیں، وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
۱۷- بعض اوقات نا امیدی ڈیپریشن کا باعث بن جاتی ہے، مثلاً ایک بچہ باپ کی توقع سے کم نمبر لاتا ہے تو باپ کو ڈیپریشن آلیتا ہے۔
۱۸- ڈیپریشن کی ایک اہم وجہ احساس گناہ یا احساس جرم ہے۔ اس کی وجہ سے انسان ہر غلط چیز کا اپنے آپ کو ذمے دار ٹھہراتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ پر تنقید اور ملامت کرتا رہتا ہے۔ ڈیپریشن کا تقریباً ہر مریض احساس جرم کا شکار ہوتا ہے۔
۱۹- خود ترسی (Self Pity) بھی ڈیپریشن کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے۔ ایک شخص اپنے آپ کو مظلوم تصور کرلیتا ہے۔ سوچتا ہے، اس کا حق نہیں مل رہا۔ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ ایسا نہیں جیسا کہ اس کا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ پر ترس کھانے لگتا ہے۔
۲۰- دوسروں پر ترس کھانابھی ڈیپریشن کی اہم وجوہ میں شامل ہے۔ ڈیپریشن کا مریض اوروں کو مصیبت میں دیکھتا ہے تو ان پر ضرورت سے زیادہ ترس کھاتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کی مصیبتوں پر اپنے آپ کو غمزدہ کرلیتے ہیں۔
۲۱- نامعقول موازنہ بھی ڈیپریشن کا باعث بن جاتا ہے۔ بعض افراد اپنے سے بہتر افراد سے اپنا مقابلہ اور موازنہ کرتے ہیں اور ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
۲۲- زندگی کی ناکامیاں انسان کو مایوس اور ناامید کردیتی ہیں جس سے وہ ڈیپریشن میں گھر جاتا ہے۔
۲۳- جسم میں بعض کیمیائی تبدیلیاں بھی ڈیپریشن کا موجب ہوتی ہیں۔
۲۴- بعض مخصوص بیماریاں بھی ڈیپریشن پیدا کرتی ہیں۔ مثلاً پارکنسن میں دوسری علامات کے علاوہ ڈیپریشن بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
۲۵-بعض خواتین کو اس وقت ڈیپریشن آلیتا ہے جب ان کی ماہواری بند ہوجاتی ہے۔ ایسا عموماً چالیس اور ساٹھ سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۶- بچے کی پیدائش کے بعد عموماً مائیں ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
۲۷- طویل، شدید، اور خطرناک بیماری انسان کو پژمردہ کردیتی ہے۔
۲۸- تھائی رائڈ (Thyriod) غدود کی غیر متوازن کارکردگی بھی ڈیپریشن پیدا کردیتی ہے۔
۲۹- خوراک میں عدم توازن مثلاً نمکیات اور گلوکوز کی کمی بھی ڈیپریشن کا سبب بنتی ہے۔
۳۰- شراب نوشی بھی ڈیپریشن پیدا کرتی ہے۔
۳۱- بعض ادویات مثلاً تشویش دور کرنے والی، خواب آور، سکون آور اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والی، خصوصاً مانع حمل ادویہ ڈیپریشن پیدا کرتی ہیں۔
۳۲- موسم بھی ڈیپریشن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ موسم خزاں اور بہار میں ڈیپریشن زیادہ ہوجاتا ہے۔
۳۳- معروف اسکائٹرسٹ ڈاکٹر برنز کے مطابق ڈیپریشن کی سب سے بڑی وجہ غلط سوچیں ہیں، عموماً مندرجہ ذیل غلط سوچیں ڈیپریشن کاباعث بنتی ہیں:
الف: ایک طالب علم جو ہر کلاس میں اول آتا ہے اگر ایک بار دوم آگیا، تو وہ سوچنا شروع کردیتا ہے کہ وہ ناکام طالب علم ہے۔ یہی سوچ اس کو ڈیپریشن میں مبتلا کردیتی ہے۔
ب: بعض اوقات کوئی فرد کسی ایک معاملے میں ناکام ہوجاتا ہے۔تو سوچنے لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہی ناکام ہو گا اور اسے کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ کچھ عرصے بعدیہ ڈیپریشن کا شکار ہوجائے گا۔
ج: کچھ لوگ ہر چیز کا منفی پہلو تلاش کرلیتے ہیں جو ڈیپریشن کی وجہ سے بنتا ہے۔
د: ڈیپریشن کے مریض کو مستقبل میں مصیبتیں اور بدقسمتی ہی نظر آتی ہے۔
ہ: ڈیپریشن میں مبتلا فرد اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو بہت بڑھاکر اور اپنی خوبیوں کو بہت گھٹا کر دیکھتا ہے۔
و:بعض اوقات انسان اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتا ہے، پھر سوچتا ہے کہ ہو نہ ہو اس سے ضرور کوئی گناہ ، جرم یا بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔
ز: ’’مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا… ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اس قسم کی سوچ احساس جرم اور پھر ڈیپریشن پیدا کردیتی ہے۔
ح: اگر ایک شخص کا اسٹاک مارکیٹ میں شیئر نیچے جارہا ہے تو یہ سوچنے کے بجائے کہ اس سے غلطی ہوگئی وہ یہ سوچے گا کہ وہ ایک ناکام فرد ہے۔ یہ سوچ اسے ڈیپریشن میں مبتلا کردے گی۔
ط: بعض افراد اپنے بلکہ دوسرے افراد کے نقصانات کا ذمے دار بھی اپنے آپ کو گردانتے ہیں اور احساس جرم کے تحت ڈیپریشن کا شکارہوجاتے ہیں۔
علاج
اس کے علاج کے سلسلے میں ایک خوشگوار بات یہ ہے کہ بعض ڈیپریشن بغیر کسی علاج کے خود بخود آہستہ آہستہ ختم ہوجاتے ہیں، تاہم اگر نفسیاتی علاج کرایا جائے تو مریض جلد شفایاب ہوجائے گا۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ علاج جتنی جلدی کرایا جائے ڈیپریشن اتنی ہی جلدی ختم ہوگا۔ تاخیر کی صورت میں علاج طویل، مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔ علاج کے مندرجہ ذیل طریقے معروف ہیں:
دواؤں سے علاج
ہمارے ہاں سب سے عام علاج یہی ہے۔ شدید ڈیپریشن میں دوائیں خاصی موثر ثابت ہوتی ہیں، مگر وہ اسباب ختم نہیں کرتیں بلکہ ختم کرنے کا مصنوعی تاثر دیتی ہیں جس کی وجہ سے عموماً دوا چھوڑتے ہی ڈیپریشن دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ دوسرے، ان کے اپنے مضر اثرات بھی ہیں، تاہم اگر ہلکی پھلکی دواؤں کے ساتھ نفسیاتی علاج شامل کرلیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔
نفسیاتی علاج
روایتی نفسیاتی علاج خاصا دقت طلب ہے۔ اس کے ساتھ ہپناٹزم کو بھی شامل کرلیا جائے تو نسبتاً بہت کم وقت کی ضرورت پڑے گی، تاہم صرف ہپناٹزم سے علاج ناممکن ہے۔
نماز تہجد کے ذریعے علاج
علامہ اقبال میڈیکل کالج (لاہور،پاکستان) کے شعبہ نفسیاتی و دماغی امراض کے سربراہ ڈاکٹر محمد شریف چودھری نے صلاۃ تہجد سے ڈیپریشن کا کامیاب علاج کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس طریقے سے تہجد کی نماز کے علاوہ بعض قرآنی آیات خصوصاً اس آیت الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (خوب سن لو کہ اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پاتے ہیں) کا ورد کیا گیا تو نہایت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔