رمضان اور قرآن مجید

مفتی ولی حسن

انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت قرآن مجید ماہ رمضان میں اتارا گیا۔ یہ وہ آخری پیغام ہے کہ جس کے بعد پھر کوئی پیغام آنے والا نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو ’’ہدی للناس‘‘ کہہ کر واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح پچھلی امتوں پر ہدایت و رہنمائی کے لیے آسمانی کتابیں نازل فرمائی ہیں، یہ کتاب بھی اسی جنس کی ہے۔ ہدایت ہونے میں اس میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ کتاب بھی اپنے اندر ہدایت اور راہنمائی کے سارے اقدار لیے ہوئے ہے، پھر بینات من الہدیٰ والفرقان کہہ کر اس کتاب عظیم کا دوسری کتابوں سے امتیاز بیان فرمایا کہ دوسری آسمانی کتابوں اور اس کتاب میں یہ فرق ہے کہ اس میں ہدایت ربانی کھلے کھلے اور واضح دلائل و براہین کے ساتھ موجود ہے۔ اس لیے اس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی فرض کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شکر گزار انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہے۔ قرآن کریم ہم کو اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر اس پر چلیں اور ہدایت ربانی کو اپنے قلوب میں پوری طرح جذب کرلیں۔ اس کے بعد پوری دنیا کو اس پر چلائیں، اس مقصد عظیم کے لیے ہم پر اس مبارک مہینے میں تین عبادتیں رکھی گئیں:(۱) روزہ (۲) تراویح (۳) اعتکاف۔ اس مضمون میں صرف روزہ اور قرآن کا تعلق بیان کیا جاتا ہے۔

اس اہم ترین عبادت کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں بتلایا کہ یہ قدیم ترین عبادت ہے اور پچھلی امتوںپر بھی فرض رہی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤگے۔‘‘ (البقرہ)

آیت کریمہ میں فرضیت روزہ کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح فرمایا کہ یہ عبادت پچھلی امتوں پر فرض رہی ہے۔ اس لیے امت محمدیہ جس کے سر پر امامتِ عالم کا تاج رکھا گیا ہے وہ کس طرح اس عبادت اور اس کے ثمرات سے محروم رہ سکتی تھی؟ پھر اس کی حکمت بتلائی گئی کہ روزہ کی حکمت یہ ہے کہ تم تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہوکر شہادت علی الناس کا فریضہ ادا کرو۔ اس آیت کے ذیل میں … امام رازی، قفال مروزی سے نقل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس اہم عبادت کا مکلف بنایا تو دیکھو کہ اس عبادت کو کس طرح آسان فرمادیا۔ پہلے تو یہ کہا کہ یہ عبادت تم پر نئی فرض نہیں کی جارہی ہے بلکہ تم سے پہلے ساری امتیں اس عبادت کی مکلف تھیں اور جب کوئی مشکل چیز عام ہوجائے تو وہ آسان ہوجاتی ہے اور پھر روزہ کی فرضیت کی حکمت ظاہر فرمائی کہ وہ روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اگر روزہ تم پر فرض نہیں ہوتا تو یہ مقصد عظیم فوت ہوجاتا، اس کے بعد فرمایا کہ روزے بھی چند دن کے ہیں۔ اگر ساری عمر یا سال کے اکثر حصے میں روزہ فرض ہوتا تو تم مشقت میں پڑجاتے، بعد ازاں فرمایا کہ روزہ کی اہم عبادت کو سال کے بہترین زمانہ میں رکھا یعنی رمضان کے مہینے میں جس میں قرآن کریم جیسی کتاب نازل فرمائی۔ آخر میں فرمایا کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کرنا۔ اگر بیماری یا سفر کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکو تو صحت ہوجانے کے بعد یا سفر ختم ہوجانے کے بعد اس کی قضا ضرور کرلینا، اس طرح بیان کرنے سے بھی مشقت کا ازالہ فرمایا کہ تم کو روزہ کے سلسلے میں سفر یا مرض کی صورت میں افطار کی اجازت دی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل بے حد و حساب ہے۔ پیغمبر ﷺ نے اس عبادت کے بہت سے گوشے واضح فرمائے ہیں کہ ایک حدیث میں آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں:

’’ہر نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو گنا تک دیا جاتا ہے۔ سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘

ساری عبادتیں تو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں پھر وہ کونسی خصوصیت تھی کہ روزہ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی۔ اس سلسلے میں علامہ مرتضیٰ زبیدیؒ نے چند اقوال نقل کیے ہیں جن کی تلخیص درج ذیل ہے:

(۱) کھانے پینے سے بے نیازی حق تعالیٰ کی شان ہے۔ بندہ جب روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے کچھ مشابہت حاصل کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

(۲) نماز، سجدہ، رکوع، ذکر، صدقہ سے غیر اللہ کی بندگی، بت پرستوں یا گمراہ فرقوں نے بھی کی لیکن روزہ سے غیر اللہ کی بندگی نہیںکی گئی کبھی نہ سناگیا یا دیکھا گیا کہ کسی بت پرست یا گمراہ نے اپنے بت یا بزرگ کے نام پر روزہ رکھا ہو۔ اس لیے فرمایا گیا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

(۳) عام عبادات اور طاعت کا قانون یہ ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس میں یہ قانون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی جود و سخا کا اظہار فرماتا ہے اور روزہ دار کو بے حد و حساب اجر دیتا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ روزہ صبر ہے اور صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’صبر کرنے والوں کو بے حد و حساب اجر دیا جائے گا۔‘‘

(۴) ترک طعام و شراب ملائکہ کی صفت ہے۔ اس لیے جو بندہ روزہ رکھتا ہے وہ ان کی صفت سے متصف ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ فرشتوں سے نہیں دلوائے گا بلکہ خود دے گا۔

(۵) یہ نسبت شرف و تکریم کی بنا پر ہے جیسے کہا جاتا ہے بیت اللہ، کعبۃ اللہ ،ناقۃ اللہ وغیرہ۔

(۶) نماز، روزہ، حج و غیرہ ظاہری اشکال رکھتے ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی ظاہری شکل نہیں ہے۔ اس لیے اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔ چنانچہ بیہقی اور ابونعیم کی روایت میں اس کی تصریح بھی ہے۔ روزہ میں دکھلاوا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ روزہ میرے لیے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ میری وجہ سے ہی اپنے کھانے پینے کو چھوڑتا ہے۔

اس حدیث کی شرح کے آخر میں کہتے ہیں:

’’یہ چند اقوال ہیں جو میں نے علماء کے کلام سے جمع کیے ہیں۔ خطیبؔ نے شرح منہاج میں ذکر کیا ہے کہ میں نے اس حدیث کی شرح میں مختلف اقوال شمار کیے تو ان کو پچاس سے زیادہ پایا، سبکی نے کہا کہ میرے نزدیک سب سے اچھا قول سفیان بن عینیہؒ کا ہے کہ قیامت کے روز حقدار بندے سے چمٹ جائیں گے اور اپنا حق مانگیں گے اور اعمال ان کے حقوق کے عوض جائیں گے سوائے روزہ کے کہ وہ نہیں جائے گا۔ علامہ زبیدی کہتے ہیں، میرے نزدیک سب سے بہتر قول یہ ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا نہیں ہے۔ (شرح احیاء)

ایک اور مرسل حدیث میں آپ نے فرمایا: ’’ہر چیز کا ایک دروازہ ہے اور عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔ ‘‘ (شرح احیاء) نزول قرآن اور اللہ تعالیٰ کی صفت جود و سخا کی وجہ سے اس ماہ مبارک کی شان یہ ہے:’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر کے طلبگار آ، اور شر کے طلبگار رک جا۔‘‘ (شرح احیاء)

روزہ کے فوائد کے بارے میں شیخ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں:’’روزہ نفس امارہ کو سکون دیتا ہے، نفس امارہ آنکھ، زبان، کان، شرمگاہ کے ذریعہ جو گناہ کراتا ہے روزہ اس کی تیزی کو کم کرکے گناہ کو کم کردیتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ نفس جب بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاء کا پیٹ بھر جاتا ہے اور جب نفس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو تمام اعضا بھوکے ہوجاتے ہیں۔‘‘

روزے سے قلب میں صفائی پیدا ہوتی ہے کیونکہ قلب کا میل کچیل زبان، آنکھ، کان کے فضلوں سے بڑھ جاتا ہے اور جب یہ اعضاء صاف ہوجائیں گے تو قلب میں بھی صفائی پیدا ہوگی۔ روزہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے فقراء و مساکین پر رحمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہے گا تو بھوکے پیاسے لوگوں کی تکلیف کا احساس اس کو ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ فقراء و مساکین کی موافقت بھی روزہ میں ہے۔ نقل ہے کہ ایک شخص حضرت بشر حافی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سخت سردی کا زمانہ تھا حضرت بشر کو اس شخص نے دیکھا کہ سردی سے کانپ رہے ہیں اور عبا کھونٹی پر لٹکی ہوئی ہے اس شخص نے کہا کہ سخت سردی ہے آپ عبا کیوں نہیں پہن لیتے؟ کھونٹی پر لٹکانے کا یہ وقت نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے بھائی! فقیر بہت ہیں اور میں اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ سب کے لیے کپڑے فراہم کرکے ہمدردی کروں اس لیے میں ان کی موافقت … کرکے اپنے جذبہ ہمدردی کو تسکین دے رہا ہوں۔ (فتح القدیر)

الغرض روزئہ رمضان کے ذریعہ تزکیہ باطن، نفس کی طہارت، اور روح کی بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور ایک بندہ مومن کے لیے سال بھر کی روحانی غذا مہیا ہوجاتی ہے۔ حق تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو چھوڑ دینے کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ اللہ کے ملائکہ کے ساتھ مشابہت نصیب ہوتی ہے اور انسانی ہمدردی، غریبوں کی خیر خواہی، ناداروں سے شفقت ا ور کمزوروں کی دستگیری جیسے اعلیٰ انسانی اخلاق نکھر جاتے ہیں۔ اور یہ ہی تمام مقاصد ہیں نزول قرآن کے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146