معاشروں اور قوموں کے عروج و زوال میں جہاںمردوں کا رول ہوتا ہے وہیں خواتین بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ کوئی بھی ہمہ گیر ، دیرپا اور بڑی سماجی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک عورت اس میں شریک نہ ہو۔ ماہرینِ سماجیات اور دانشوروں کا خیال ہے کہ عورت کسی سماج کا آئینہ ہوتی ہے۔ سماج میں عورت کی حیثیت اور اس کی زندگی کو دیکھ کر اس سماج کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب میں خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وہ کامیاب رہا لیکن کیونکہ وہ ردعمل کا نتیجہ اور غیر فطری تھا اس لیے بہت دن نہ چل سکا اور فیل ہوگیا۔ صنعتی انقلاب نے بھی عورت کا بھر پور استعمال کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام بھی عورت کا بھر پور استعمال کررہا ہے۔ مگر ان تمام معاشروں میں عورت کی حالت دیکھ کر لوگ حیران و پریشان ہیں اور پیشین گوئی کی جارہی ہے کہ یہ نظام بہت جلد ناکام ہوجائیں گے۔ وجہ نظریاتی کمزوری کے ساتھ ساتھ عورت کو غیر فطری زندگی کے شکنجوں میں کس دینا ہے۔
مغربی معاشرہ کی عورت کو ہی دیکھ لیجیے۔ اسے پوری دنیا کے لیے ماڈل بناکر پیش کیا جارہا ہے اور پوری دنیا میں جو سماجی و معاشرتی تبدیلی لانے کی کوشش ہورہی ہے وہ مغربی ماڈل ہی کے مطابق ہے۔ مگر اس سماج کا خود کیا حال ہے، یہ قابلِ مطالعہ ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مغربی دنیا میں عورت تعلیم یافتہ ہے۔ برابری کے ظاہری تمام اسباب موجود ہیں اور مردوں اور عورتوں کو یکساں آزادی حاصل ہے۔ مگر اس کے باوجود وہاں کا خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے۔ غیر شادی شدہ جوڑوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ، طلاق کی آسمان چھوتی شرح اور بن باپ کے بچوں کی بڑھتی تعداد وہ مسائل ہیں جن پر مغرب کے دانشوران سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور سماج کو پھر سے پیچھے کی طرف لوٹنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
خواتین میں اعلیٰ تعلیم کی اونچی شرح، مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں مواقع اور آزادی بجائے خود مطلوب اور قابلِ قدر چیزیں ہیں اور رہیں گی، اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کی ستائش کی ہے۔ اس نے اعتدال اور عدل و انصاف اور مرد و عورت کی فطری صلاحیتوں کا مکمل لحاظ رکھا ہے۔ جس میں مغرب ناکام رہا۔ اس نے یہ تمام اچھی چیزیں عورت کو اس لیے فراہم نہیں کیں کہ وہ ان خوبیوں سے آراستہ ہوکر سماج و معاشرے کے ارتقا اور بہترین نسلوں کی تیاری زیادہ اچھی طرح انجام دے بلکہ اس لیے یہ تمام چیزیں فراہم کیں کہ وہ بھی مردوں کی طرف پروڈکشن بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پھر انڈسٹریل پروڈکشن میں اس کے رول کو اتنا عظیم اور خوش نما بنادیا گیا کہ وہ اسی میں گم ہوکر رہ گئی۔ حالانکہ عورت کے سپرد اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی صنفی ذمہ داریاں بھی کی ہیں جو صرف عورت ہی کے لیے خاص ہیں اور وہ کبھی بھی ان ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لیے وہ ذمہ داریاں تو اس کے سر رہیں اس پر اضافی بوجھ انڈسٹریل پروڈکشن میں ’غیر معمولی اہم‘ ذمہ داری کا ڈال دیا گیا ہے اور ظاہر ہے یہ اس کی استطاعت سے زیادہ اور مخصوص سماجی تناظر میں کم پرکشش تھا اس لیے وہ غیر اہم ٹھہرا۔ اس کی فطری ذمہ داریوں کو پرکشش زندگی کی راہ میں روڑا تصور کیا جانے لگا۔ جب ایسا ہوا تو کہاں کا گھر اور خاندان اور کہاں بچے پیدا کرنے اور پالنے کی ’بے کار‘ (Rewardless) ذمہ داری۔ یہی وجہ ہے کہ دوہری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی مغربی عورت اب ایک آسان فطری زندگی کی طرف لوٹنا چاہتی ہے اور یہ کہاں ممکن ہے ہماری باشعور خواتین کو سمجھنا چاہیے۔
اس مغربی نظریے کا طلسم اب اس کی اپنی جغرافیائی حدود میں تو ٹوٹ رہا ہے مگر پسماندہ اور فکری طور پر غلام اقوام ابھی تک اس ’پرکشش‘ نظریے کے پیچھے بھاگ رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ان کا انجام بھی مختلف نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہماری باشعور خواتین اس طلسم و سحر میں گرفتار ہونے سے اپنی ملت کو بچائیں اور اس کی صورت یہی ہے کہ وہ حالات کا گہرا شعور پیدا کرکے اس کے تجزیے کی پوزیشن میں ہوں اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو بہ غور دیکھیں۔
اسلام اعتدال اور توازن کا دین ہے۔ اس میں نہ نقص ہے اور نہ افراط و تفریط۔ اسی کے ساتھ اس میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کا ولی اور معاون قرار دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اسلام نہ تو عورت کے گھر سے نکلنے کو حرام قرار دیتا ہے اور نہ پروڈکشن کی بھٹی میں تپنے کے لیے اسے دھکیل دیتا ہے۔ اس نے عورت کی فطری صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کا لحاظ بھی کیا ہے اور اس کی شخصیت و صلاحیتوں کے ارتقاء کے بھر پور مواقع بھی دیے ہیں اور اس بات پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے کہ وہ اپنی فطری ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو خوبصورت اور جائز خارجی سرگرمیوں میں لگا کر سماج و معاشرے کی فلاح و بہبود میں کوئی کردار ادا کرے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت ایک افراط و تفریط کا شکار ہے۔ یہاں ایک طرف تو اس کی صلاحیتوں کے ارتقاء کے مواقع مفقود اور نایاب ہیں اور اس کے لیے ایک بہت معمولی سا رول ہے جسے وہ پوری ناواقفیت اور بے شعوری کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ دوسری طرف وہ کیفیت ہے جو مغرب میں ناکام ہوکر ہمارے یہاں اختیار کی جارہی ہے۔ ایسی صورت میں باشعور مسلم خواتین کو آگے آکر پوری دنیا کی خواتین کی قیادت اور ان میں بیداری شعور کی جدوجہد کرنی چاہیے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے کی عورت کو برباد اور بے کار کردے گی اور کل اللہ تعالیٰ ہم سے اس بارے میں سوال کرے گا تو ہم شاید کوئی جواب نہ دے سکیں۔
——




