کہانیاں اور کہانی کار

محمد حنیف

سورج غروب ہوچکا تھا۔ میں کمرے میں چارپائی پر لحاف اوڑھے ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اچانک کنڈی کَھڑکی۔ ’’کون؟‘‘ میں نے کتاب سے نظریں اٹھاکر پوچھا۔ ایک بار پھر کنڈی کَھڑکی۔ میں اٹھا۔ چارپائی کے پاس پڑے جوتے پہنے۔ دروازہ کھول کر دیکھا۔ باہر ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی کھڑا تھا۔

’’یہیں کہیں مشہور افسانہ نگار یوسف لطیف رہتے ہیں۔ ان کا مکان کون سا ہے؟‘‘

میں نے ایک مرتبہ سر سے پاؤں تک اسے دیکھا، پھر کہا:’’حکم کریں۔ میں ہی یوسف لطیف ہوں۔ میرا یہی مکان ہے۔ فرمائیے!‘‘

’’یوسف لطیف صاحب! اخبارات میں آج آپ کی تصویر چھپی ہے، وہ بالکل مختلف ہے، یعنی میرا مطلب ہے…‘‘

’’ہاں، میں آپ کا مطلب سمجھ گیا ہوں۔‘‘ میں نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا ’’تصویر میں میرا نقلی روپ ہوتا ہے، اصلی روپ میرا یہ ہے جیسا میں آپ کو اب نظر آرہا ہوں۔‘‘

میری بات سن کر پہلے اس نے میری طرف غور سے دیکھا۔ پھر ایک بھر پور نظر میرے مکان کے بیرونی حصے پر ڈالی جس کی دیواروں پر سے اکھڑی ہوئی لپائی دنیا کا نقشہ پیش کررہی تھی۔

’’لطیف صاحب! میں اخباری نمائندہ ہوں۔ میں دفتر کی طرف سے آپ کا انٹرویو لینے آیا ہوں۔‘‘ وہ ایسے بولا جیسے اس کی آواز ٹھنڈے یخ پانی میں بھیگی ہوئی ہو۔

’’آؤ، اندر آجاؤ۔‘‘ میں نے کہا۔

وہ بوجھل قدموں سے اندر آیا۔ میں نے اسے گھر کی واحد کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود پھر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ سردی سے بچنے کے لیے میں نے پھر لحاف اوڑھ لیا۔ وہ کرسی کے پاس ڈرتا ہوا گیا جیسے وہ کرسی نہ ہو کچی اینٹوں کا بنا ہوا چبوترہ ہو۔

جب وہ کرسی پر بیٹھ گیا تو میں نے تکیے کے نیچے سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی اور اسے سگریٹ پیش کرنے کے لیے اس کی طرف بڑھادی۔ اس نے ’’نہیں، شکریہ‘‘ کہہ کر سگریٹ لینے سے انکار کردیا اور بات جاری رکھتے ہوئے بولا:’’لطیف صاحب! آپ کے پاس یہی ایک کمرہ ہے؟‘‘

میرے جواب سے پہلے اس نے ارد گرد نظر دوڑائی، شاید وہ کوئی دوسرا کمرہ ڈھونڈ رہا تھا… اس سے خوبصورت۔

’’جی ہاں، ایک ہی کمرہ ہے۔ اسے چاہے باروچی خانہ کہہ لیں، چاہے بیڈ روم سمجھ لیں یا ڈرائنگ روم۔‘‘

’’آپ ایسے خستہ حال کمرے میں بیٹھ کر اتنی اچھی کہانیاں کیسے لکھ لیتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی جیب سے پین اور کاغذ نکالتے ہوئے کہا۔

اس کا یہ سوال سن کر میں چند لمحوں کے لیے سوچوں میں ڈوب گیا، لیکن جلد ہی سوچوں کے اس گہرے غار سے نکل کر کہا:

’’جناب! میں جب بھی کہانی لکھنے بیٹھتا ہوں تو کمرے کا چھوٹا پن میری سوچوں میں کھلبلی پیدا کردیتا ہے۔ جس سے میلے کچیلے اور کڑواہٹ سے بھرے ہوئے واقعات ابھرتے ہیں اور میں انہیں فن کی لڑی میں پروکر کہانیوں کا روپ دے دیتا ہوں۔ یہ کہانیاں خوبصورت ہوتی ہیں یا بدصورت، یہ میں نہیں جانتا۔ ہاں، اتنا ضرور کہوں گا کہ شاید ان کہانیوں کو پڑھ کر قلعی کیے ہوئے چہروں پر میل ضرور آجاتا ہوگا۔‘‘

میرا یہ جواب سن کر اخبار نویس نے اپنا کھولا ہوا پین پتا نہیں کیوں بند کرلیا۔ میں پوچھنے ہی والا تھا، مگر پھر میں نے سوچا:’’مجھے کیا … میں کیوں پوچھوں!‘‘

’’لطیف صاحب! آپ کے بیوی بچے کہاں ہیں؟‘‘ اس نے پین اپنے کوٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’میری بیوی تو صحن میں چھپر کے نیچے بیٹھی آٹا گوندھ رہی ہے اور بچے پڑوسیوں کے گھر اسکول کا کام کرنے گئے ہوئے ہیں۔ آپ کو میری بیوی سے کوئی سوال پوچھنا ہے کیا؟ جیسے ہم ایسے لوگوں کی بیویاں، بیویاں نہیں، کچھ اور ہوتی ہیں۔۔۔ کیا خیال ہے بلاؤں اسے؟‘‘

’’نہیں نہیں، کوئی بات نہیں۔ میںنے ویسے ہی پوچھا تھا۔ آٹا گوندھنے دیجیے انھیں۔‘‘

’’معاف کرنا۔ آپ نے اپنا تعارف نہیں کرایا،یعنی ابھی تک آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔‘‘

’’میرا نام نگار صدیقی ہے۔‘‘ اس نے اپنا نام کچھ اس انداز سے بتایا جیسے وہ بتانا نہ چاہتا ہو اور بغیر بتائے کوئی چارہ بھی نہ ہو۔

’’اچھا۔ آپ ہیں نگار صدیقی جو اکثر بڑے بڑے لوگوں کے انٹرویو لیتے رہتے ہیں… اور وہ انٹرویو بڑی شان سے اخباروں میں چھپتے ہیں۔ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔‘‘ مجھ سے مل کر اسے خوشی ہوئی یا نہیں اس کا اندازہ نہ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگایا جاسکتا تھا اور نہ اس کی گہری چمکتی آنکھوں سے۔ اس نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھ پر ایک اور سوال داغ دیا:

’’لطیف جی! آپ کی شادی آپ کی پسند کی ہے یا والدین کے کہنے پر ہوئی؟‘‘

’’نگار صاحب! خستہ حال مکانوں میں رہنے والوں کی شادی اپنی پسند کی کیسے ہوسکتی ہے۔‘‘

’’آپ کے اور آپ کی بیوی کے درمیان کبھی جھگڑا ہوا ہے؟‘‘

’’ہم زندگی کی گاڑی کے دو خاموش مسافر ہیں۔ ہمارا جھگڑا کس بات پر!‘‘

’’پھر تو آپ دونوں میاں بیوی بڑے پیار سے رہتے ہوں گے۔ میرا مطلب ہے کہ آپ فنکار ہیں۔ ظاہر ہے فنکار تو ہوتا ہی پیار کا پتلا ہے۔ آپ کی بیوی تو آپ پر جان قربان کرتی ہوگی۔‘‘

’’میری بیوی کو مجھ پر جان قربان کرنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا۔ یہ درست ہے کہ فنکار پیار کا پتلا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے کبھی اس پر پیار کے پھول نچھاور کرنے کا وقت نہیں ملا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں جاگ رہا ہوتا ہوں تو وہ محو خواب ہوتی ہے اور جب اس کا جاگنے کا وقت ہوتا ہے تو میں گہری نیند میں ڈوبا ہوتا ہوں۔ جب گھر کے کام کاج کے بعد میری بیوی پیار کے دو میٹھے بولوں کی خواہش مند ہوتی ہے تو میں کہانیاں بیچنے کے لیے چل پڑتا ہوں۔‘‘

’’لطیف صاحب! معاف کرنا۔ سنا ہے فن بیچنا اولاد بیچنے کے مترادف ہوتا ہے۔‘‘

’’یہ بات اپنی جگہ پر ٹھیک ہے، فنکار کی ہر تخلیق اس کی اولاد ہوتی ہے، لیکن فنکار اپنی اس اولاد کا کیا کرے جو ننگی بھوکی نہیں رہ سکتی۔ ظاہر ہے، صدیقی صاحب! ایک اولاد کو زندہ رکھنے کے لیے دوسری اولاد کو بیچنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

جب اولاد کے بارے میں بات ہونے لگی تو میرے دونو ںبچے پڑوسیوں کے گھر سے اسکول کا کام کرکے آگئے۔ ان کے گلوں میں لٹکتے میلے کچیلے بستوں اور سیاہی سے بھرے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر صدیقی نے اپنی کوٹ کی جیب سے رومال نکالا اور اپنے چہرے پر پھیرنے لگا۔ شاید اسے میری میلی کچیلی اولاد کو دیکھ کر اپنے چہرے کی صفائی کا خیال آگیا تھا۔

انھوں نے اپنے بستے چارپائی کے نیچے پھینکے اور میرے پاس چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ گئے۔ ان میں بڑے نے میرے کان کے پاس آکر سرگوشی کی:’’ابا یہ کون ہیں؟‘‘

’’بیٹے! یہ اخبار نویس ہیں۔‘‘ میں نے آہستگی سے جواب دیا۔

’’اخبار نویس کیا ہوتا ہے، ابا جی؟‘‘

’’اخبار میں انٹرویو چھاپنے والا۔‘‘

جب میرے بیٹے کے کچھ بھی پلے نہ پڑا تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ رہا۔

’’لطیف صاحب! ان بچوں کے نام کیا ہیں؟‘‘

’’یہ میری کہانیاں ہیں، بغیر عنوان کی کہانیاں۔ آپ ان کہانیوں کو کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔‘‘

’’کیوں بھئی اپنے ابو کی بغیر عنوان کی کہانیو! یہ بتاؤ تمہیں ابو زیادہ پیارے ہیں یا امی!‘‘ اس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

’’صدیقی صاحب! یہ کوئی جواب نہیں دیں گے، اس لیے کہ یہ گونگے اور بہرے ہیں، اس لیے کہ یہ جواب دینا جانتے ہی نہیں۔ جوا ب تو وہ دیں جو خوبصورت سے خوبصورت کھلونوں سے کھیلتے ہیں، جن کے پاس ریشمی بستے ہیں، جنھیں ان کے ابو بازار سے میٹھی میٹھی ٹافیاں لاکر دیتے ہیں اورجن کی مائیں انھیں گود میں بٹھا کر پیار کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم میاں بیوی اور نہ یہ بچے اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔‘‘

’’آپ انھیں بھی اپنے جیسا کہانی کار بنائیں گے؟‘‘

’’ہوسکتا ہے کہ یہ بھی میرے جیسے کہانی کار بن جائیں اگر ان کے ہاتھ ہمیشہ سیاہی سے بھرے رہے تو۔‘‘

’’یہ بتائیں کسی مسئلے پر آپ دونوں میاں بیوی کے مابین اختلاف ہوا ہے کبھی؟‘‘

’’آپ یہ پوچھیں کبھی اتفاق بھی ہوا ہے؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ ہم دونوں کے مسائل کبھی ایک سے نہیں رہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میری بیوی دریا کے اس کنارے پر بیٹھی ہے اور میں اس کنارے پر۔‘‘

’’آپ کی بیوی کی تعلیم کیا ہے؟‘‘

’’پہلے کبھی ہوگی، مگر اب کچھ بھی نہیں۔ اب تو وہ ہر کام کاج میں ماہر ہوگئی ہے۔ مثلاً کچے صحن میں جھاڑو دینے میں، کمرے کی کچی دیواروں کو لیپنے میں، برتن بھانڈے مانجھنے او رمیلے چکٹ کپڑے دھونے میں۔‘‘

’’جب آپ دونوں کے مسائل میں، بعد المشرقین ہے تو آپ کی بیوی آپ کے تخلیقی کاموں میں حائل تو نہیں ہوتی؟‘‘

’’حائل کیا ہوگی وہ! آپ کو بتایا تھا ناکہ ہم زندگی کی گاڑی کے دو خاموش مسافر ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے ہم دونوں دریا کے مختلف کناروں کے باسی ہیں۔‘‘

’’اب تک آپ کی کہانیوں کے کتنے مجموعے بازار میں آچکے ہیں؟‘‘

’’صدیقی صاحب! ابھی تک تو میں خود ایک کتاب ہوں… بوسیدہ سی دیمک خوردہ جسے پڑھنا تو ایک طرف، کبھی کسی نے چھو ا تک نہیں۔‘‘

’’لطیف صاحب! آپ کا پڑھنے لکھنے کے علاوہ اور کیا شغل ہے؟‘‘

’’شغل تو صدیقی صاحب ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کے چہرے قلعی کیے ہوئے ہوں۔ میں تو صرف کہانیاں لکھتا ہوں۔ یہ کہانیاں اچھی ہوتی ہیں یا بری، مجھے نہیں معلوم۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر یہ کہانیاں پڑھ کر قلعی شدہ چہروں پر شکنیں پڑجائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میری کہانیاں بہت کامیاب ہیں۔‘‘

میری یہ بات سن کر صدیقی صاحب نے ایک لمبی جماہی لی اور انٹرویو ختم کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’لطیف صاحب سگریٹ لیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکال کر میری طرف بڑھائی۔

’’نہیں شکریہ، میرے پاس میرا اپنا برانڈ ہے۔‘‘

نگار صدیقی صاحب! باتوں باتوں میں چائے کا پوچھنا تو میں بھول ہی گیا۔

’’نہیں، نہیں، اس تکلف کی کیا ضرورت ہے۔ چائے تو میں دفتر سے پی کر آرہا ہوں۔ ہاں یاد آیا، آپ کی تمام فیملی کا ایک گروپ فوٹو ہوجائے، کیا خیال ہے؟‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر جانے سے پہلے کہنے لگے۔

’’چھوڑو جی، کیا ضرورت ہے گروپ فوٹو کی۔‘‘

میں نے کہا ’’ہاں، اگر آپ پسند فرمائیں تو ایک گروپ فوٹو سیاہی سے بھرے ہاتھوں والے میرے بچوں کی کھینچ لو جو میری کہانیاں ہیں۔ یاپھر میری بیوی کی تصویر اتارلو جو دریا کے اس کنارے پر بیٹھی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے جی۔ اگر آپ گروپ فوٹو پسند نہیں کرتے تو آپ کی مرضی۔‘‘ اچھا، لطیف صاحب! اب میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ

وہ جلدی سے کرسی سے اٹھا اور دروازے کی طرف لپکا۔ ’’لیکن صدیقی صاحب! اپنا خالی کاغذ تو لیتے جائیے۔‘‘ میں نے خالی کاغذ کرسی پر سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ لیکن وہ تو اتنی تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا جیسے اس نے کوئی لمبی قید کاٹی ہو۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146