بچوں کے سلسلے میں ہمارے معاشرے کا رویہ بڑا عجیب ہے۔ ہم سب بچوں کو ایک سا مقام نہیں دیتے اور نہ ہی سب کو خوشی اور محبت سے قبول کرتے ہیں۔ ہم صرف ان چند بچوں کے گن گاتے ہیں جو پیدائشی طور پر ایسی خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں جو ہم کو زیادہ عزیز ہیں۔ ان خوبیوں میں خوبصورتی، ذہانت اور امارت سب سے نمایاں ہیں۔ مگر یہ رویہ غلط اور گمراہ کن انداز فکر سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ نامناسب رویہ ان گنت بچوں کی زندگی تاریک کردیتا ہے۔ وہ خود اعتمادی سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان میں زندگی کے مسائل اور چیلنج قبول کرنے کا حوصلہ نہیں رہتا۔ وہ اپنی ذات کے خول میں سمٹ جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو بے وقعت سمجھنے لگتے ہیں اور بالآخر بے وقعت ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اس خطرناک رویے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ بچوں میں خود اعتمادی اور عزت نفس پیدا کرکے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینی چاہیے۔
یاد رکھیے کہ سب بچے قابلِ قدر ہیں۔ ان کی عزت نفس اور ذاتی وقار کا احترام کیا جانا چا ہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سماجی قوتوں کے ناموافق دباؤ کے باوجود والدین کے طور پر ہم اپنے بچوں میں خودداری، عزت نفس، خود اعتمادی اور ناقابلِ شکست روح کیسے پھونک سکتے ہیں؟ ایک امریکی ماہر جیمز ڈویسن نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ انھوں نے ایسے طریقہ کار وضع کیے ہیں جن کی مدد سے بچوں میں اعتماد اور خودداری پیدا کی جاسکتی ہے۔ ان طریقوں کے ذریعے ان لڑکوں اور لڑکیوں کی مدد بھی کی جاسکتی ہے جو اپنے ساتھیوں کی ستم ظریفی کے شکار ہیں۔ جیمز ڈویسن صاحب کے وضع کردہ طریق کار حسب ذیل ہیں:
اپنی اقدار کا جائزہ لیجیے
کیا آپ دل ہی دل میں اس بات پر مایوس ہیں کہ آپ کے بچے میں کوئی غیر معمولی خصوصیت نہیں پائی جاتی اور وہ صرف عام قسم کا بچہ ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس کو محض اس لیے مسترد کیا ہے کہ اس میں کوئی حسن و خوبی نہیں۔ وہ بھدا اور بے ڈول نظر آتا ہے؟ کیا آپ اپنے بچے کو کند ذہن سمجھتے ہیں؟
بچے کی شخصیت کا تعین کرنے میں یہ بات اہم رول ادا کرتی ہے کہ اس کے خیال میں والدین اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے لفظوں اور ان کہے رویوں پر بہت توجہ دیتا ہے اور ان کو اہم سمجھتا ہے۔ جب اس کو یہ احساس ہو کہ والدین اس سے سچی محبت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں تو پھر اس میں خودداری کا جذبہ نشوو نما پاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اہم خیال کرنے لگتا ہے۔ اس کو اپنی ذات کی وقعت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ غیر مطلوب نہیں بلکہ اہم فرد ہے۔ دوسروں کو اس کی ضرور ت ہے اور دوسرے اس سے پیار کرتے ہیں اور احترام بھی کرتے ہیں۔
اکثر بچوں کو معلوم ہوتا ہے کہ والدین ان سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ والدین ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ بچے کو یہ احساس تو ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں اور اس کے لیے جان بھی دسے سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اس کے دل میں یہ خیال بھی جنم لے سکتا ہے کہ آپ نے اس کو خلوص دل سے قبول نہیں کیا ہے یا آپ اس کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ بچہ یہ خیال آپ کے لفظوں کے بجائے آپ کے برتاؤ سے اخذ کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مہمانوں سے باتیں کررہا ہو تو آپ نروس ہوجاتے ہیں۔ اس کو بات مکمل نہیں کرنے دیتے اور اس کی بات کی وضاحت کرنے لگتے ہیں یا پھر اس کی بات کو احمقانہ سمجھ کر ہنسنے لگتے ہیں۔ بچہ ان باتوں کو نوٹ کرتا ہے اور ان سے شعوری یا لاشعوری طور پر نتائج اخذ کرتا ہے۔
والدین کو اس قسم کے طرز عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ بات بچے کی صحت مند نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ بچوں کی موجودگی میں والدین کو سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہیے۔ بچوں میں آپ کو جو خامیاں نظر آتی ہے، ان کی موجودگی میں ان خامیوں کا تذکرہ دوسرے لوگوں سے نہ کیجیے۔ اس سے بچوں کی عزت نفس گہرے طور پر متاثر ہوتی ہے۔
بچوں کے لیے وقت نکالیے۔ ان کو اچھی کتابوں سے متعارف کروائیے۔ اچھی نظمیں اور اچھے نغمے ان کو یاد کروائیے۔ ان کو کھیلنے کا موقع دیجئے۔ کھیلوں میںان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ وہ کرکٹ کھیلنا چاہیں یا پتنگ اڑانا چاہیں تو جب تک ان کی پڑھائی کا حرج نہ ہو یا ان کے لیے کوئی خطرے کی بات نہ ہو تو انہیںمت روکیے۔ یہ باتیں خودداری کی تعمیر میں مدد دیتی ہیں۔ ان کا خیال رکھئے۔
تلافی کرنے میں بچے کی مدد کیجیے
والدین کا کام یہ نہیں کہ وہ ہر وقت بچے کے پیچھے پڑے رہیں۔ ہر وقت اس کو ٹوکتے رہیں، ہر معاملے میں ہدایتیں دیتے رہیں اور ہر موقع پر جھڑکتے رہیں۔ یہ بالکل فضول قسم کی عادت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر والدین اس عادت میں مبتلا ہیں اور اپنے طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچے کی رہنمائی کررہے ہیں۔ پھر وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں اور فخر سے دوسروں کو بتاتے ہیں کہ ہم ایک منٹ بھی بچوں کو تنہا نہیں چھوڑتے اور ان کی ہر بات پر نظر رکھتے ہیں۔
یہ طرزِ عمل قطعی طور پر نقصان دہ ہے۔ اس سے بچے میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے اور وہ ہر معاملے میں اتھارٹی سے اجازت طلب کرنے اور اس کی خوشنو دی حاصل کرنے کے روگ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ آپ میں یہ عادت ہے تو بچے کے اچھے مستقبل اور اس کی شخصیت کی متوازن اور صحت مند نشوونما کی خاطر آج ہی اس عادت سے چھٹکارا حاصل کیجیے۔ والدین بچے کی کڑی نگرانی پر مامور سپاہی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے والدین کا طرزِ عمل بااعتماد ساتھی جیسا ہونا چاہیے۔ جب بچے رنجیدہ اور شکستہ خاطر ہوں تو ان کا حوصلہ بڑھائیے، ان کی دلجوئی کیجیے، جب وہ خطرے کی زد میں ہوں تو مداخلت کیجیے اور ان کو تحفظ دیجیے اور ان کو ایسی صلاحیتیں حاصل کرنے میں مدد دیجیے جن کے ذریعے وہ راہ کی رکاوٹیں دور کرسکیں۔ ان کو ایسے آلات عطا کیجیے جن کو بروئے کار لاکر وہ آگے بڑھ سکیں۔
تلافی ایک ایسا ہی آلہ کار ہے۔ کوئی فرد اپنی قوتوں کو بڑھا کر اپنی خامیوں کی تلافی کرسکتا ہے۔ ہر شخص میں، ہر بچے میں اس قسم کی قوتیں ہوتی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ بچوں کو اپنے مضبوط نکات، اپنی قوتیں تلاش کرنے میں مدد دیں۔
ماہر نفسیات جیمز ڈویسن کی سفارش یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کے مضبوط نکات کا جائزہ لیں اور ان میں کسی ایسی مہارت کو منتخب کرلیں جس میں کامیابی کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ اس مہارت کا تعین کرتے ہوئے یہ امر بھی پیش نظر رکھیں کہ خاندان اسکول اور اس مہارت کو فروغ دینے کے وسائل رکھتا ہو۔ مہارت منتخب کرنے کے بعد بچے کو اس راہ پر ڈال دیجیے۔ اس کی حوصلہ افزائی کیجیے، اس کو انعام دیجیے اور دوسری ترغیبات دیجیے، مگر دھیان رکھئے کہ وہ اس راہ پر چلتا رہے۔ قدم بہ قدم آگے برھتا رہے۔ اگر آپ اس نتیجے پر پہنچیں کہ بچے کے لیے یہ راہ مناسب نہیں ہے اوریہ کہ آپ کا انتخاب غلط تھا، تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بچے کی صلاحیتوں کے مطابق کوئی اور راہ، زیادہ احتیاط کے ساتھ ڈھونڈلیجیے۔
بچے کو مقابلہ کرنے میں مدد دیجیے
ہر وقت بچے کے سر پر سوار رہنے والے والدین کے برخلاف بعض ایسے والدین بھی ہیں جو خوبصورت، قوت اور ذہانت کے حصول کے لیے بچے پر دباؤ ڈالنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسری انتہا کو چلے جاتے ہیں۔ عمدہ راہ درمیانی راہ ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ خود بچے کے مفاد کی خاطر ہم نہ اس کے سرپر سوار رہیں اور نہ ہی اس کو بالکل تنہا چھوڑ دیں۔ بلکہ وقتاً فوقتاً اس کی رہنمائی کرتے رہیں، اس کی حوصلہ افزائی کریں اور ضرورت پڑنے پر سختی سے کام بھی لیں۔
خوبصورتی، قوت اور ذہانت کے حصول کے لیے بچے پر دباؤ ڈالنے کی مخالفت کرنے والے والدین بھی اس حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں کہ دنیا ان خوبیوں کی پوجا کرتی ہے۔ یہ خوبیاں زندگی کا کھیل اچھے طریقے سے کھیلنے اور اپنا مقام بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ کیا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ممکنہ حد تک دلکش بنانے میں مدد دیں؟ کیا اپنے اوسط درجے کے بچے کو اسکول میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں ہمیں مدد دینی چاہیے؟
میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے بچے کو اس دنیا میں مقابلہ کرنے کے لیے جہاں تک ہوسکے، مدد دوں۔ اگر اس کے دانت ٹیڑھے ہیں تو میں درست کرواتا ہوں۔ وہ پڑھائی میں کمزور ہے تو اپنے وسائل کے حوالے سے میں اس کے لیے بہترین ٹیوشن کا انتظام کرتا ہوں۔ وہ کھیلنا چاہتا ہے تو میں اس کے لیے بہترین سہولتیں مہیا کرتا ہوں۔ بچے کی آگے بڑھنے کی جدوجہد میں ہم اس کے ساتھی ہوتے ہیں۔
ڈسپلن اور سزا
بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں ایک مرکزی سوال یہ ہے کہ آیا تعلیم و تربیت کے معاملے میں جسمانی سزا سے کام لینا چاہیے یا نہیں؟ دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے ماہرین صدیوں سے اسی سوال پر بحث کرتے آئے ہیں اور ابھی تک کوئی ایسا حل تلاش نہیں کرپائے ہیں جس پر سب کا اتفاق ہو۔ اس صورت حال میں ظاہر ہے کہ آپ یہ توقع نہیں کرسکتے کہ یہاں آپ کو کوئی حتمی جواب مل سکے گا۔ ہم یہاں اپنی رائے ہی درج کرسکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سزا کے معاملے میں فیصلہ کن بات والدین کی نیت ہے۔ اگر وہ بچے کی طرف سے جان بوجھ کر کی جانے والی کسی غلط حرکت یا نافرمانی پر اس کو سزا دیتے ہیں تو یہ اس کی تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر والدین اپنی محرومیوں اور کوتاہیوں کے لیے بچے کو نشانہ ستم بناتے ہیں تو پھر یہ قابلِ مذمت طرزِ عمل ہے۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کی موجودگی میں بچے کے ساتھ توہین آمیز سلوک غیرشائستہ حرکت ہے۔ وہ بچے کی شخصیت کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ اس سے ہر حال میں اجتناب ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ والدین بچے کے لیے انصاف، ڈسپلن اور نظم و ضبط کی علامت ہوتے ہیں۔ اس لیے بچے کو احساس ہوتا ہے کہ اگر والدین اس سے واقعی محبت کرتے ہیں تو وہ کسی غلط حرکت پر اس کو سزا ضرور دیں گے۔ بچے کے اس احساس کو ذہانت سے استعمال کیا جائے تو واقعی سزا دیے بغیر اس کی اصلاح ممکن ہوجاتی ہے۔
کلاس روم پر نظر رکھئے
والدین کو بچے کی پڑھائی کے عمل سے اچھی طرح باخبر رہنا چاہیے۔ اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسکول میں دوسرے سال کے خاتمے تک بچہ پڑھنے کے قابل ہوجائے۔ یاد رکھئے کہ پڑھنے کے مسائل اسکول کے زمانے میں بچے کی خودداری کو دوسرے تمام عوامل سے زیادہ ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ اگربچہ ٹھیک طرح پڑھ نہیں سکتا تو وہ اپنے ساتھیوں کی نظر میں نکو بن جاتا ہے۔ وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور بچہ بھی خود کو کند ذہن اور دوسروں سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔
پڑھنے کے معاملے میں بچہ پیچھے رہ گیا ہے تو اس کی مدد کیجیے۔ اس کو پڑھائیے۔ ٹیوشن کا انتظام کیجیے۔ اور ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کیجیے۔ کبھی کبھی اسکول کی تبدیلی یا اسکول کے اندر اساتذہ کی تبدیلی بھی بچے کے بہترین مفاد میں ہوتی ہے۔
ضرورت سے زیادہ تحفظ نہ دیجیے
بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بچے کو اپنے فیصلے خود کرنے کی ذمہ داری سونپنی چاہیے۔ مثال کے طور پر سات سال کا بچہ عموماً اپنا لباس خود منتخب کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ وہ اپنی کتابیں اور کھیل کا سامان سلیقے سے رکھ سکتا ہے۔ اس کو دوسروں سے میل جول کے آداب آجاتے ہیں اور وہ کھانے کے آداب بھی سیکھ لیتا ہے۔ کوئی بچہ ان اور ان جیسے دوسرے امور میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تربیت میں کوئی کسر رہ گئی ہے۔ اس پر توجہ دینی چاہیے۔
سبھی والدین اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور ان کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن بعض والدین اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، اس سے کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً بچے میں خود اعتمادی کی کمی رہ جاتی ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا اور ہر معاملے میں دوسروں کی رہنمائی کا طلبگار ہوتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچہ نارمل ٹائم ٹیبل سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ دس سال کی عمر میں اس کا کردار سات سال کے بچے جیسا ہوتا ہے۔ چند ہی سال بعد وہ بلوغت کے عہد میں داخل ہونے والا ہوتا ہے، لیکن بلوغت کے تقاضے پورے کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ بچے کی حفاظت ضرور کیجیے، مگر اس بارے میں غیر ضروری احتیاط سے کام مت لیجیے۔ اس کوآگے بڑھنے دیجیے تاکہ وہ خود فیصلے کرسکے اور ان کی ذمہ داری بھی اٹھا سکے۔
نفسیات، تعلیم اور بچوں کے امور کے ماہرین نے بچے کی عزت نفس کے ارتقا میں والدین کے کردار کی اہمیت کا اقرار کیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں بہت سے مطالعے اور تجربے بھی کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک مطالعہ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں نفسیات کے سابق پروفیسر سٹینلے کوپر اسمتھ نے کیا تھا۔ انھوں نے متوسط طبقے کے ۱۷۴۸ بچوں اور ان کے والدین کا جائزہ لیا تھا۔
اس مطالعے کے بعد پروفیسر کوپر اسمتھ نے سب سے زیادہ عزت نفس رکھنے والے بچوں کی تین اہم خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ عزت نفس ان بچوں میں ہوتی ہے جن کو
(۱) گھر میں بہت زیادہ محبت اور پسندیدگی ملتی ہے۔ (۲) جن کے والدین واضح رہنما اصول بناتے ہیں اور (۳) جن کے گھروں میں جمہوری اور آزاد ماحول ہوتا ہے۔
آپ بھی اس تحقیق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس باب میں ہم نے بچوں کی تربیت سے متعلق جو چند بنیادیں باتیں درج کی ہیں وہ طویل تجربے اور مطالعے سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کو ممتاز ماہرین کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ یہ آپ کو بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت میں مدد دیں گی۔
——