بندۂ مومن کی خوبیاں

صائمہ پروین

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص میں تین باتیں ہوں، وہ ایمان کی حلاوت سے بہرہ ور ہوگا: (۱) اللہ اور اس کا رسولؐ سب سے زیادہ محبوب ہوں (۲) اگر کسی سے محبت ہو تو وہ اللہ کے لیے ہو (۳) کفر کی طرف مراجعت کو آگ میں ڈالے جانے کے عذاب سے زیادہ ناپسند کرے۔‘‘
مومن کی زندگی سراپا جہاد ہوتی ہے۔ حضرت خالدؓ بن ولید کی زندگی قبولِ اسلام کے بعد جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف رہی۔ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس پر زخموں کے نشانات نہ ہوں۔ عالمِ نزع میں ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’کاش! بستر مرگ پر جان دینے کے بجائے مجھے میدانِ جہاد میں شہادت کی سعادت نصیب ہوتی۔‘‘
بندئہ مومن کا کام جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔ چشم فلک نے آج تک مومن سے بڑا انقلابی نہیں دیکھا۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور پورے جاہ و حشمت کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ مسجدِنبوی میں امام مالکؒ سے گفتگو کے دوران اس کی آواز قدرے بلند ہوگئی۔ امام مالکؒ نے اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا: ’’مسجدِ نبویؐ میں اپنی آواز بلند نہ کر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ادب سکھاتے ہوئے فرمایا ہے : اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔‘‘ منصور پر سکتہ طاری ہوگیا۔
سچے اہلِ ایمان غیر اللہ کا سہارا نہیں ڈھونڈتے۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا اگر تمہارا چابک بھی گر پڑے تو کسی سے نہ مانگو بلکہ سواری سے خود اترو اور خود اٹھاؤ۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ حضرت بابا فریدؒ بستر مرگ سے اٹھے۔ نقاہت کی وجہ سے لاٹھی کا سہارا لے کر چلنے لگے۔ معاً خیال آیا کہ میں نے اللہ کے بجائے لاٹھی کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرلیا۔ اسی لمحے لاٹھی ایک طرف پھینکی اور بغیر سہارے کے چلنا شروع کردیا۔
مومن خدا کے سوا کسی کو اپنا رازق نہیں سمجھتا۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک مسجد میں نماز باجماعت ادا کی۔ نماز کے بعد امام مسجد نے آپ کو پہچان لیا اور پوچھا: بایزید! آپ کوئی کام تو کرتے نہیں، پھر کھاتے کہاں سے ہیں؟ حضرت بایزیدؒ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے رازق کو نہیں پہچانتا، اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔‘‘ یہ کہا اور اٹھ کر دوبارہ نماز پڑھی۔
بندہ مومن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خدا کی مخلوق کے لیے پیکر رحمت و شفقت ہوتا ہے۔ وہ بھلائیوں کا دروازہ کھولنے والا اور شر کا دروازہ بند کرنے والا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیمؒ بن ادھم نے اپنے کچھ رفقا کے ساتھ رات کسی مسجد میں قیام کیا۔ سفر کی تکان کی وجہ سے تمام لوگ جلدی سوگئے۔ رات کے پچھلے پہر سردی کی شدت میں اضافہ ہوا اور حضرت ابراہیمؒ بن ادھم کی آنکھ کھل گئی۔ آپ کو اندیشہ ہوا کہ دوسرے ساتھ بھی مضطرب ہوکر بیدار ہوجائیں گے۔ مسجد کا دروازہ بوسیدگی کی وجہ سے ہوا کو برابر راستہ دے رہا تھا۔ آپ دروازے میں سوراخ کی جگہ باقی رات خود کھڑے رہے اور ساتھیوں کو سردی سے بچائے رکھا۔
مومن کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اسے حضور رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی اپنی محبوب ترین ہستیوں حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ امام مالکؒ کو ایک بار درس حدیث کے دوران کئی دفعہ بچھو نے کاٹا۔ تکلیف کی شدت سے آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا لیکن آپ نے درس حدیث جاری رکھا۔ بعد ازاں سامعین نے پوچھا آج دورانِ درس آپ کی کیفیت خلاف معمول تھی۔ آپ نے بچھو کے کاٹنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’نبی پاک ﷺ کی محبت اور عظمت نے مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ برابر حدیث پاک پڑھتا رہوں اور اس اذیت پر صبر کروں۔‘‘
(کتاب الشفاء، قاضی عیاض اندلسی)
نماز باجماعت کے اہتمام کے لیے مومن ہر وقت مستعد رہتا ہے۔ حضور پاک ﷺ کا ارشاد ہے: ’’تکبیر اولی دنیا اور اس میں موجود ہر شے سے بہتر ہے۔‘‘ سلف صالحین کا طریقہ تھا کہ ان میں سے کسی کی تکبیرِ اولیٰ فوت ہوجاتی تو تین دن تک اس سے تعزیت کرتے اور اگر کسی کی جماعت رہ جاتی تو سات روز تک افسوس کرتے۔ حضرت حاتم اصم کہتے ہیں: ’’ایک بار میری جماعت فوت ہوگئی تو صرف حضرت ابواسحاق بخاریؒ نے میری تعزیت کی اور اگر میرا بیٹا فوت ہوتا تو دس ہزار سے زائد لوگ میری تعزیت کرتے۔ افسوس! لوگوں کے نزدیک دنیا کی مصیبت سے زیادہ دین کی مصیبت آسان ہوگئی۔‘‘
حاصل کلام یہ کہ ایمان انسان کی پوری شخصیت بدل کر رکھ دیتا ہے۔ مومن تسلیم و رضا کی لازوال داستانیں رقم کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو رخصتوں کا عادی نہیں بناتا۔ وہ ایک صاحبِ عزیمت ہستی ہوجاتا ہے۔ وہ اہلِ ایمان کے پاس جاکر اپنے ایمان کا ’’خراج‘‘ طلب نہیں کرتا۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے پر وہ خود کو دنیا کاخوش قسمت ترین فرد سمجھتا ہے۔ اس کی زندگی قرآن حکیم کی اس آیت کی عملی تفسیر ہوتی ہے:
ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العالمین۔
’’بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘
اور اب خطاب براہِ راست مسلمانوں سے ہے، سورۃ توبہ کی آیات ہمارے لیے سرمایہ عبرت ہیں، جن کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اے نبیؐ! کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ ومال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔‘‘
ان آیات میں آٹھ چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے پانچ کا تعلق خاندانی عصبیت سے ہے اور تین کا ذریعہ معاش اور مال و دولت سے۔ اسلام چونکہ ایک نظام زندگی ہے، اس لیے زندگی کے حقیقی تقاضوں کی نفی کہیں نہیں کی گئی۔ اسلام تو خود خاندان، معاشرت، معیشت اور سیاست کے بارے میں تفصیلی احکام دیتا ہے۔ تام یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ سارے تعلقات اور مفادات اللہ کی حاکمیت اور رسول کی محبت و اطاعت کے تابع ہیں اور جب بھی ان میں سے کوئی رشتہ یا مفاد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے متصادم ہوتو ایک مومن کشتیاں جلا کر رضائے الٰہی ہی کا طالب ہوا کرتا ہے۔ پھر اس دعوت کی عین فطرت کے مطابق ہر قسم کا تصادم ناگزیر بھی ہے۔ ابتلاء و آزمائش کے ایسے مراحل میں اللہ تعالیٰ اور رسول پاک ﷺ کے احکام سے معمولی بے اعتنائی بھی قانونِ الٰہی سے بغاوت (فسق) ہے۔ دنیا کے ہر قانون میں بغاوت مستوجب سزا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون سے بغاوت کی جو سزا ہوسکتی ہے اس کے لیے تنبیہ کے طور پر یہ لرزا دینے والے الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
’’انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کردے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146