اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر مذاہب میں خواتین کا میراث میں کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا، عربوں کا خیال تھا کہ جو لوگ قبیلے کی مدافعت کرسکتے ہوں اور لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی میراث پانے کے حقدار ہیں، یہودیوں میں سارا ترکہ پہلوٹھے کا حق مانا جاتا تھا۔ ہندو دھرم میں بھی عورت کا میراث میں کوئی حصہ نہیں۔ انیسویں صدی تک یورپ میں بھی عورتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اسلام نے جہاں مرد رشتہ داروں کو حصہ دار بنایا، وہیں ان کی ہم درجہ خواتین کو بھی میراث کا مستحق قرار دیا۔ والد کی طرح والدہ کو، بیٹے کی طرح بیٹی کو، بھائی کی طرح بہن کو، شوہر کی طرح بیوی وغیرہ کو۔ آج پوری دنیا میں خواتین کو جو ترکہ کا مستحق مانا جاتا ہے، وہ دراصل شریعتِ اسلامی کا عطیہ ہے۔
حق میراث اور خواتین
اسلام کے قانونِ میراث میں جن رشتہ داروں کو مقدم رکھا گیا ہے، جو کسی حال میں ترکے سے محروم نہیں ہوسکتے، وہ چھ ہیں: جن میں تین مرد ہیں: باپ، بیٹا اور شوہر ۔ تین عورتیں ہیں: ماں، بیٹی اور بیوی۔ اس کے علاوہ خصوصی اہمیت ان حقداروں کو حاصل ہے، جن کو ’ذوی الفروض‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ اعزا جن کے حصے مقرر کردیے گئے ہیں۔ ان میں مردوں سے زیادہ تعداد خاتون رشتہ داروں کی ہے۔ اس لیے کہ مرد چھ حالتوں میں ذوی الفروض میں شمار کیا جاتا ہے، اور عورت ۱۷ حالتوں میں اس حیثیت سے میراث کی مستحق ہوتی ہے، چنانچہ یہاں حصوں کا تناسب اور ان کی مستحق خواتین کاذکر کیا جاتا ہے:
(الف) دو تہائی
(۱) دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں
(۲) دو یا دو سے زیادہ پوتیاں
(۳) دو یا دو سے زیادہ سگی بہن
(۴) دو یا دو سے زیادہ باپ شریک بہن
(ب) نصف
(۱) ایک بیٹی (۲) ایک پوتی
(۳) ایک سگی بہن
(۴) ایک باپ شریک بہن
(ج) ایک تہائی
(۱) ماں (۲) ماں شریک بہن
(د) چھٹا حصہ
(۱)ماں (۲) دادی
(۳) پوتی (۴) باپ شریک بہن
(۵) ماں شریک بہن
(ہ) چوتھائی
(۱) بیوی
(و) آٹھواں حصہ
(۱) بیوی
اس میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ متعینہ حصوں میں سب سے زیادہ دو تہائی اور اس کے بعد نصف ہے، دو تہائی حصہ کا مردوں میں سے کوئی مستحق نہیں ہوتا اور نصف کا مستحق بھی مردوں میں صرف شوہر ہوسکتا ہے، جب کہ میت کی اولاد نہ رہی ہو۔
مقدار کے اعتبار سے خواتین کے حصہ پانے کی چار حالتیں ہوتی ہیں:
(۱) جب عورت کا حصہ اپنے ہم درجہ رشتہ دار کے مقابلے آدھا ہوتا ہے۔
(۲) جب مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوتا ہے۔
(۳) جب عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے۔
(۴) جب عورت وارث ہوتی ہے اور مرد وارث نہیں ہوتا ہے۔
یہاں ان تمام صورتوں کا احاطہ مقصود نہیں، لیکن اجمالی طور پر ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔
عورت کا حصہ مرد کے مقابلے نصف
اپنے ہم درجہ مرد رشتہ دار کے مقابلے عورت کے نصف حصہ پانے کی صورتیں یہ ہیں:
(۱) بیٹے کے ساتھ بیٹی: مثلاً کسی نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو چھوڑا اور اس کا ترکہ تین لاکھ روپے ہو تو ایک لاکھ بیٹی کا حق ہوگا اور دو لاکھ بیٹے کا۔
(۲) باپ کے ساتھ ماں: بشرطیکہ اولاد اور شوہر یا بیوی نہ ہو، اس صورت میں ماں کو ایک تہائی ملے گا اور عصبہ ہونے کی بنا پر باپ کو دو تہائی مل جائے گا۔
(۳) حقیقی بہن یا باپ شریک بہن: حقیقی بھائی یا باپ شریک بھائی کے ساتھ وارث ہو، یعنی میت نے والدین یا اولاد، شوہر یا بیوی کو نہ چھوڑا ہو، صرف اس کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہن یا باپ شریک بھائی یا باپ شریک بہن اس کے وارث ہوں، اس وقت بہن کے مقابلے بھائی کا حصہ دوگنا ہوگا، مثلاً حقیقی بھائی اور ایک حقیقی بہن ہو تو بھائی کو دو تہائی ملے گا اور بہن کو ایک تہائی۔
(۴) شوہر کا حصہ بمقابلہ بیوی کے دوہرا ہوگا۔ یعنی اگر بیوی کا انتقال ہوا اور اس نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، تو شوہر کو اس کے ترکہ کا نصف مل جائے گا اور اولاد بھی چھوڑی ہو تو چوتھائی ملے گا، اس کے برخلاف شوہر کے ترکے میں سے بیوی کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھائی اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملے گا۔
مردوں کے برابر حصہ
جن حالات میں عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر ہوتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
(۱) میت نے ماں، باپ اور بیٹے کو چھوڑا ہو تو ماں اور باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا، اسی طرح اگر اس نے ماں، باپ اور دو بیٹیوں کو چھوڑا، تب بھی ماں اور باپ دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا اور دو تہائی بیٹیوںکو ملے گا، نیز اگر کسی عورت نے شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہو تو اس صورت میں بھی ماں اور باپ چھٹے حصے کے مستحق ہوں گے۔
(۲) ماں شریک بھائی بہن کا حصہ بھی برابر ہوگا، جیسے ایک عورت نے شوہر کو، ماں کو اور ماں شریک بھائی کو چھوڑا تو ماں شریک بھائی چھٹے حصے کا مستحق ہوگا۔ اگر شوہر اور ماں کے علاوہ صرف اخیافی بہن کو چھوڑا تو وہ بھی چھٹے حصے کی ہی مستحق ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی عورت کا انتقال ہوا، اس کے ورثہ، شوہر، ماں، اخیافی بہن ہوں، تو نصف شوہر کا حصہ ہوگا،چھٹا حصہ ماں کا اور ایک تہائی میں بھائی اور بہن کا حصہ برابر ہوگا۔
(۳) بہت سی حالتیں ایسی ہیں کہ اگر مرنے والے کا ایک ہی وارث ہو، خواہ مرد ہو یا عورت، وہ پورے ترکہ کا حقدار قرار پاتا ہے، جیسے: باپ، بیٹا، بھائی، شوہر، ماموں اور چچا، اسی طرح خاتون رشتہ داروں میں : ماں، بیٹی، بیوی، خالہ اور پھوپھی۔ مثلاً: اگر کسی شخص کے انتقال پر صرف اس کا بیٹا ہی باقی بچا ہو تو وہ پورے ترکے کا حقدار ہوگا، اس لیے کہ وہ عصبہ ہے۔ اسی طرح اگر اس نے صرف بیٹی کو چھوڑا ہو تو وہ پورے ترکے کی حقدار ہوگی، نصف تو اس کا متعینہ حصہ ہوگا اور باقی نصف اس کو بطور ’’رد‘‘ کے ملے گا۔
(۴) بعض دفعہ حقیقی بہن اور حقیقی بھائی کا حصہ بھی برابر ہوجاتا ہے، جیسے ایک عورت نے شوہر اور ایک حقیقی بھائی کو چھوڑا تو نصف شوہر کا حق ہوگا اور نصف بھائی کا۔ اسی طرح اگر شوہر اور حقیقی بہن کو چھوڑا تو نصف شوہر کا حصہ ہوگا اور نصف حقیقی بہن کا، اگر اس نے شوہر اور حقیقی بھائی کے علاوہ ایک بیٹی کو بھی چھوڑا ہو تو شوہر چوتھائی ترکہ کا اور بیٹی نصف ترکہ کی مستحق ہوگی، باقی بھائی کا ہوگا۔ اگر یہاں حقیقی بھائی کے بجائے حقیقی بہن ہو تو باقی اس کو ملے گا۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی بھائی اور ماں شریک بہن کا حصہ برابر ہوجاتا ہے، جیسے کسی عورت نے شوہر کو، ماں کو، ماں شریک بہن کو اور حقیقی بھائی کو چھوڑا ہو تو نصف ترکہ کا مستحق شوہر ہوگا، چھٹا حصہ ماں کو ملے گا، حقیقی بھائی اور اخیافی بہن دو چھٹے حصے کے حقدار ہوں گے، حالانکہ رشتہ کے اعتبار سے یہ بھائی اس بہن سے زیادہ قریب ہے۔
یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ بہت سی ایسی صورتیں بنتی ہیں، جن میں عورت اپنے ہم درجہ مرد رشتہ دار سے زیادہ کی مستحق ہوتی ہے۔
مردوں سے زیادہ حصہ
بہت سی صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں سے بڑھ جاتا ہے۔ چند صورتیں ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
(۱) کسی عورت کا انتقال ہوا اور اس نے شوہر، باپ، ماں اور دو بیٹیوں کو چھوڑا اور بالفرض اس کا ترکہ ساٹھ لاکھ روپئے پر مشتمل ہو تو دونوں بیٹیوں کو بتیس لاکھ روپے یعنی فی کس سولہ لاکھ روپئے ملیں گے اور اگر اس نے شوہر، باپ، ماں کے علاوہ دو بیٹیوں کو چھوڑا ہو تو وہ پچیس لاکھ یعنی فی کس ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کے ورثہ میں شوہر، ماں اور حقیقی بہنیں ہوں اور مثال کے طور پر اس کا ترکہ اڑتالیس لاکھ ہو تو دونوں بہنوں کو چوبیس یعنی فی کس بارہ لاکھ ملے گا۔ اور اسی صورت میں اگر دو بہنوں کے بجائے دو حقیقی بھائی ہوں تو ان کا حصہ سولہ لاکھ یعنی فی کس آٹھ لاکھ ہوگا، ان صورتوں میں عورت کا مقررہ حصہ دو تہائی اس حصہ سے بڑھ جاتا ہے، جو مرد کو بطور عصبہ حاصل ہوتا ہے۔
(۲) بعض صورتوں میں عورت نصف ترکہ کی مستحق ہوتی ہے، یہ اس کا مقررہ حصہ ہے، جب کہ اس کے ہم درجہ مرد کا حصہ کم بنتا ہے۔ جیسے ایک عورت نے شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہو تو اگر ترکہ ایک کروڑ چھپن لاکھ روپئے پر مشتمل ہو تو بیٹی بہترّ لاکھ کی مستحق ہوگی، اس صورت میں اگر بیٹی کی جگہ بیٹا ہو تو اس کا حصہ پینسٹھ لاکھ ہوگا۔ بعض دفعہ تو یہ فرق بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ جیسے کسی عورت کے ورثہ میں شوہر ہو، ماں ہو اور حقیقی بہن ہو اور فرض کیجیے کہ مرحومہ کا ترکہ اڑتالیس لاکھ ہو، تو بہن کا حصہ اٹھارہ لاکھ ہوگا اور اس صورت میں اگر بہن کے بجائے بھائی ہو تو اس کا حصہ صرف آٹھ لاکھ ہوگا۔
(۳) بعض دفعہ عورت کا مقررہ تہائی حصہ بھی اپنے مقابل مرد رشتہ دار سے زیادہ ہوجاتا ہے، مثلاً ایک شخص نے بیوی، ماں، دو حقیقی بھائی اور دو ماں شریک بہنوں کو چھوڑا اور فرض کیجیے کہ مرنے والے کا ترکہ اڑتالیس لاکھ روپئے تھا تو دونوں ماں شریک بہنوں کو سولہ یعنی فی کس آٹھ لاکھ روپئے ملیں گے اور دونوں بھائیوں کا حصہ بارہ یعنی فی کس چھ لاکھ ہوگا۔ اسی طرح اگر عورت نے شوہر، دو ماں شریک اور دو حقیقی بھائیوں کو چھوڑا ہو اور مثلاً اس کا ترکہ ساٹھ لاکھ روپئے ہو تو دونوں بہنوں کا حصہ بیس لاکھ ہوگا اور دونوں بھائیوں کا دس لاکھ۔
(۴) بعض دفعہ خواتین کا مقررہ حصہ ترکہ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے، لیکن وہ اس کے مقابل مرد رشتہ دار سے بڑھ جاتا ہے، جیسے ماں شریک بہن کا مقررہ حصہ چھٹا حصہ ہے، اب اگر کسی عورت نے شوہر، ماں، ایک ماں شریک بہن اور دو حقیقی بھائیوں کو چھوڑا ہو تو اگر ساٹھ لاکھ ترکہ ہو تو بہن کو دس لاکھ ملے گا اور دو بھائیوں کو بھی دس لاکھ یعنی فی کس پانچ لاکھ ملے گا، اس طرح کی اور بھی متعدد صورتیں ہیں۔
جب صرف عورت وارث بنتی ہے
بعض حالتیں ایسی ہیں کہ جن میں عورت وارث بنتی ہے۔ مردوارث نہیں بنتا، جیسے ایک عورت نے شوہر، باپ، ماں، بیٹی اور پوتی کو چھوڑا ہو تو پوتی چھٹے حصے کی حقدار ہوگی، لیکن اسی صورت میں اگر پوتی کے بجائے پوتا ہو تو اس کو کچھ نہیں ملے گا، اسی طرح اگر شوہر، حقیقی بہن اور باپ شریک بہن وارث ہوں تو باپ شریک بہن چھٹے حصے کی مستحق ہے اور اگر اس کی جگہ باپ شریک بھائی ہو تو اس کو کچھ نہیں ملے گا، ان کے علاوہ بھی متعدد صورتیں ہیں، جن میں خواتین حصہ پاتی ہیں اور ان کے مقابل مرد رشتہ دار حصہ نہیں پاتے۔
خواتین کا کم حصہ کب اور کیوں؟
اس میں شبہ نہیں کہ جو لوگ لازمی طور پر میراث میں حصہ پاتے ہیں یعنی باپ، ماں، بیٹا، بیٹی اور شوہر و بیوی، ان میں مردوں کا حق عورتوں سے زیادہ یا دوہرا رکھا گیا ہے، لیکن اس کو مردوں اور عورتوں کے درمیان جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ اس اُصول پر مبنی ہے کہ جس کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی، ان کے حقوق بھی زیادہ ہوں گے اور جس کی ذمہ داری کم ہوگی، اس کے حقوق کم ہوں گے۔ اس اصول کو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ایک ارشاد سے واضح فرمایا: ’’الخراج بالضمان‘‘ (ابوداؤد) اس کا ماحصل یہ ہے کہ جو نقصان اٹھائے گا وہی فائدہ کا بھی حقدار ہوگا۔ اس پہلو سے اگر مردوں اور عورتوں کی مالی ذمہ داریوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے گی۔ مرد پر اپنی کفالت خود واجب ہے، بیوی کی ضرورت پوری کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اولاد کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت کے تمام اخراجات، نیز ان کی شادی بیاہ مرد کے ذمے ہیں، یہاں تک کہ اگر بیوی شیر خوار بچہ کو دودھ پلانے پر آمادہ نہ ہو تو باپ کا فریضہ ہے کہ اس کے دودھ کا انتظام کرے۔ والدین نیز یتیم، غیر شادی شدہ بھائیوں، بیوہ اور مطلقہ بہنوں کی کفالت بھی اکثر حالات میں وہی کرتا ہے، والد اگر خدانخواستہ اس دنیا سے گزرجائے تو پوتوں اور پوتیوں کی پرورش اس کی ذمہ داری ہے، غرض کہ تمام مالی ذمہ داریاں مردوں پر رکھی گئی ہیں، عورتوں پر بہت کم اس ذمہ داری کا حصہ عائد ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنی کفالت کی ذمہ داری سے بھی آزاد ہیں۔ اگر شوہر غریب ہو اور بیوی مالدار، تب بھی شوہر کو بیوی کے اخراجات ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو بیٹا، بیٹی، باپ، ماں اور شوہر و بیوی کے حصۂ میراث میں اس سے بھی زیادہ تفاوت ہونا چاہیے تھا، لیکن خواتین کی خلقی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کی رعایت کرتے ہوئے حصوں میں کم تفاوت رکھا گیا ہے۔
اس کو ایک اور طریقہ پر سمجھا جاسکتا ہے، شریعت میں والدین کی اہمیت و عظمت اولاد سے زیادہ ہے۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ والدین کا حصہ زیادہ ہو اور اولاد کا حصہ کم ہو، لیکن اس کے برخلاف ترکہ میں ماں باپ کا حصہ کم ہے اولاد کا زیادہ، کیوں کہ ماں باپ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہورہے ہیں، ان کی ذمہ داریوں کی بساط لپیٹی جارہی ہے اور اولاد ذمہ داریوں کے میدان میں قدم رکھ رہی ہیں، اس لیے اولاد کا حصہ زیادہ رکھا گیا اور والدین کا کم،غرض کہ قانون میراث کا گہرا تعلق نفقہ اور کفالت کے قانون سے ہے، جن کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، ان کا حصہ بھی زیادہ ہے اور جن کی ذمہ داریاں کم ہیں ان کا حصہ بھی کم ہے۔ یہ ایسا منصفانہ اصول ہے جس کی معقولیت سے کوئی صاحبِ انصاف انکار نہیں کرسکتا۔
حق میراث ادا نہ کرنے کا گناہ
اس وقت معاشرہ میں اصل مسئلہ ترکہ کی مقدار کا نہیں ہے، بلکہ عورتوں کو ترکہ سے محروم کرنے کا ہے۔ قرآنِ مجید میں ترکہ کو ’فریضۃ من اللّٰہ‘ (النساء:۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حکم کہا گیا ہے اور ترکے کے احکام بیان کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔(النساء:۱۳) اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو جو کچھ حق میراث ملتا ہے، وہ اس کے مرد رشتہ دار نہیں دیتے ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا ہوا حصہ ہے، اس میں کمی بیشی کرنا اللہ تعالیٰ کے حق میں دخل دینے کے مترادف ہے اور اس سے بڑھ کر زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے؟
افسوس کہ بہت سے مسلمان خاندانوں میں بہنوں کے حصہ پر بھائی قبضہ کرلیتے ہیں، والد کے انتقال پر بیٹے سب پر قابض ہوجاتے ہیں اور بیوہ ماں کو اس کا حصہ نہیں دیتے، بعض جگہ بھاوج کو حق سے محروم کردیا جاتا ہے، والد کے انتقال کے بعد دوسرے قرضوں کی طرح بیوی کا مہر بھی ادا کیا جانا چاہیے، لیکن بیوی کا مہر ادا نہیں کیا جاتا اور اسے غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، یہ کھلی ہوئی نا انصافیاں ہیں۔ اگر ماں اور بہنوں کا حق نہیں دیا گیا تو لڑکوں کے مال میں حرام کا عنصر شامل ہوگیا، جو نہ صرف ان کی آخرت کو ضائع کردے گا، بلکہ دنیا میں بھی وہ اولاد اس سے متاثر ہوتی ہے، جن کی حرام کے ذریعے پرورش ہوتی ہو، بلکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام اتنی بری بات ہے کہ اس سے انسان کی عبادتیں بھی نامقبول اور بے تاثیر ہوجاتی ہیں، اس لیے خواتین کو ان کا حق میراث ضرور دینا چاہیے اور اپنی زندگی کو حرام سے بچانا چاہیے۔
ہبہ
بغیر کسی معاوضے کے ایک شخص سے دوسرے شخص کو مال منتقل ہونے کے دو اور طریقے ہیں: ایک ہبہ، دوسرے وصیت۔ ہبہ یہ ہے کہ انسان زندگی ہی میں کسی شخص کو کسی چیز کا مالک بنادے، ہبہ مرد بھی کرسکتے ہیں اور عورتیں بھی۔ اسی طرح ہبہ مردوں کو بھی کیا جاسکتا ہے اور عورتوں کو بھی، انسان کو پوری جائداد ہبہ نہیں کرنی چاہیے کہ اس سے ورثہ کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ زندگی میں خود ہبہ کرنے والا بھی پریشانی سے دوچار ہوسکتا ہے، لیکن ہبہ کے لیے کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پوری جائدادبھی ہبہ کردے تو ہبہ نافذ ہوگا۔ چاہے مرد کو ہبہ کیا جائے یا عورت کو۔ اگر کوئی شخص اپنے محرم رشتہ دار کو کوئی چیز ہبہ کردے تو وہ اس سے رجوع نہیںکرسکتا، یعنی اسے واپس نہیں لوٹاسکتا، یہ حکم مرد رشتہ داروں کے لیے بھی ہے اور خاتون رشتہ داروں کے لیے بھی۔
اسی طرح شوہر نے کوئی چیز بیوی کو ہبہ کردی تو اس سے بھی رجوع کرنے کی گنجائش نہیں، ہبہ سے پہنچنے والے فوائد میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ البتہ اس میں بیٹیوں کے لیے فائدہ کا ایک خاص پہلو ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کوئی چیز ہبہ کرے تو امام ابوحنیفہؒ، امام محمدؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک ضروری ہے کہ دونوں میں مساوات کا لحاظ رکھے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے۔ حقِ میراث کی طرح ایک اور دو کا فرق نہ کیا جائے۔
وصیت
وصیت سے مراد ہے اپنی موت کے بعد کسی کو مالک بنانا، وصیت کے سلسلے میں شریعت کی طرف سے دو تحدیدات ہیں۔ ایک یہ کہ وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا وصیۃ لوارث۔ (أبوداؤد)
دوسرے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی، کیوں کہ آپ ﷺ نے زیادہ سے زیادہ اسی مقدار وصیت کی اجازت دی ہے۔ (بخاری)
ان دونوں شرائط کی رعایت کے ساتھ وصیت کرنے کا حق مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی۔ نیز وصیت مرد کے حق میں بھی کی جاسکتی ہے اور عورت کے حق میں بھی۔ عام حالات میں تو وصیت جائز ہے، لیکن اگر باپ کی زندگی میں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہوجائے تو پوتوں، پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے۔ اگر دادا اور نانا کو مسئلہ کا علم نہ ہو یا اس طرف توجہ نہ ہو تو دوسرے رشتہ داروں اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کو انھیں توجہ دلانی چاہیے۔ تاکہ آئندہ یہ محروم نہ ہونے پائیں اور وصیت کے ذریعے ان کو بھی اپنے مورثِ اعلیٰ کی جائداد میں حصہ مل سکے۔
——