دعا

مجیراحمد آزاد، دربھنگہ

پون ایکسپریس دھیرے دھیرے کھسکنے لگی اور پلیٹ فارم پیچھے چھوٹ گیا تو نثار الحق نے راحت کی سانس لی۔ اس نے اے سی ٹو ٹائر میں اپنے سامنے کی برتھ پر بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھا۔ پرسکون چہرے پر سلیقے سے ترشی ہوئی داڑھی، پیشانی پر سجدوں کے نشان اور بڑی بڑی آنکھیں،خوبصورت سوٹ زیب تن کیے یہ شخص اسے کچھ جانا پہچانا سا لگا۔ نثار الحق نے اسے غور سے دیکھا اور یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ سامنے بیٹھے ہوئے مسافر نے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھا تو پل بھر کے بعد چہک کر بولے:
’’آپ نثار الحق صاحب ہیں؟ مجھے پہچانا میں عقیل احمد ہوں۔ کبھی آپ کا پڑوسی…‘‘ یکلخت نثار الحق کو سب یاد آگیا دونوں تپاک سے گلے ملے اور خیروعافیت دریافت کرنے لگے۔ لیکن نثار الحق اس کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران تھا۔ ماضی کی یادیں انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
نثار الحق بھی بارہ پندرہ سال پیچھے جا پہنچے۔
عقیل احمد اس کے برابر والے فلیٹ میں اپنی ضعیف ماں کے ساتھ آئے تھے۔ ان کا کنبہ بڑا تھا۔ دس بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ کثیرالاولاد ہونے کی وجہ سے فلیٹ میں گہما گہمی رہتی۔ ان کا بڑا بیٹا اپنے ماموں کے پاس رہ کر کامرس فائنل ایر میں پڑھتا تھا۔ اور سب سے چھوٹا گاؤں کے اسکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ان کا تعلق دیہات سے تھا۔ شہر میں آنے کی وجہ صرف اپنی والدہ کا علاج و معالجہ تھا۔ گاؤں دیہات میں اچھے ڈاکٹر کی کمی کا ذکر وہ بے حد افسوس سے کرتے تھے۔ صبح سے شام تک ماں کی خدمت میں لگے رہناہی ان کا کام تھا۔ ان کی ماں کی حالت کبھی اتنی خراب ہوجاتی کہ لگتا بس آخری وقت ہے۔ مگر عقیل احمد اتنی ہی مستعدی سے نسخے بدل کر علاج کراتے۔ علاج اپنی جگہ پرہیز اور خدمت اپنی جگہ۔ ان کے بارے میں پورا اپارٹمنٹ کہتا کہ ’بڑی سخت جان واقع ہوئی ہیں بی اماں‘۔ عقیل احمد گاؤں کی کاشت اور اپنی چھوٹی سی دوکان سے پیسے نکال کر والدہ کا علاج کراتے۔ ایسا لگتا تھا بس ماں کا علاج اور اس کی خدمت ہی ان کی زندگی کا نصب العین ہے۔ آئے دن رشتہ داروں کا سلسلہ لگا رہتا اسے بھی عقیل احمد خندہ پیشانی سے نبھا رہے تھے۔ بھائی، بہن صرف والدہ سے آخری بار ملنے آتے چند روز ساتھ گزار کر واپس ہوجاتے۔ نثار الحق ایک اچھے پڑوسی کی حیثیت سے عقیل احمد کی دلجوئی اور ہمت افزائی کرتے رہتے۔ دونوں کی قربت اتنی بڑھ گئی تھی کہ عقیل اپنے درد نثار الحق کو سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے۔
بھائیوں نے ماں کے علاج سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو عقیل احمد پریشان ہو اٹھے تھے مگر اپنے مشن پر ثابت قدمی سے چلتے رہے۔ ان کے شہر آنے کی وجہ سے کاشت کاری بھی متاثر ہوئی تھی اور دکان کی پونجی بھی کم ہوتی گئی۔ منجھلا بیٹا جو گاؤں میں دوکان چلاتا تھا شہر آکر حالات سے واقف کراتا مگر وہ اسے ہمت سے کام لینے کی ترغیب دیتے۔ عقیل احمد کی خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا جب اس کی امی روبہ صحت ہوتیں۔ وہ دلجمعی سے والدہ کی خدمت اور فرمانبرداری میں لگے رہتے۔
ایک رات انھوں نے نثار الحق کو نیند سے بیدار کرتے ہوئے امی کی حالت بگڑ جانے کی خبر دی۔ دونوں ڈاکٹر کو لے کر آئے تب تک ضعیفہ کی حالت تھوڑی سنبھل چکی تھی۔ انھوں نے نثار الحق کو اپنے قریب بلایا، ان کی پیشانی پر بوسے دیے اورخوب دعائیں دیں۔ پھر کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ ہم سب وہیں کھڑے سوچتے رہے کہ یہ سنبھالا آخری تھا۔
والدہ کی رحلت نے عقیل احمد کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ نثار الحق نے بیمار ماں کے علاج اور خدمت میں لگے بیٹے کو اس کی موت پر اتنا مضمحل نہیں دیکھا تھا۔ وہ سوچتے عقیل احمد کس مٹی کا بنا ہے۔ اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ لاش کو ان کے گاؤں لے جایا گیا تھا۔ راستے بھر عقیل احمد نثار الحق سے افسوس جتاتا رہا کہ کاش امی کچھ دن اور زندہ رہتیں تو ہمیں خدمت کا موقع مل جاتا۔ دو تین مہینے کے بعد عقیل احمد نے کرائے کامکان چھوڑ کر گاؤں میں سکونت اختیار کرلی اور نثار الحق نے ایک مثالی پڑوسی کھودیا۔
وقت بیتتا رہا اور عقیل احمد کے حالات سے واقفیت نثار الحق کو نہیں ہوسکی۔ مگر آج اچانک ملاقات ہوئی تو ماضی کے ماہ و سال آنکھوں میں اتر آئے، نثار الحق کو لگا سامنے والا شخص ترقی کی نہ جانے کتنی منزلیں طے کرگیا ہے۔ ان کی گفتگو کے انداز و آداب بدل گئے تھے۔ وہ شستہ اور نفیس اردو بول رہا ہے۔ پہناوے کا ڈھنگ بھی متاثر کرنے والا ہے۔ پہلے کے عقیل احمد اور آج کے عقیل احمد میں فرق نظر آرہا تھا۔ نثار الحق کے پوچھنے پر عقیل احمد تفصیل سے بتانے لگے۔
’’نثار بھائی اب میں ممبئی میں پوری طرح سٹل ہوگیا ہوں۔ چاروں بیٹوں کا اپنا اپنا کاروبار ہے۔ میں بھی بزنس میں لگا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے پہلے والی تکلیفیں ختم ہوگئی ہیں۔ اپنے بال بچوں کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ آرام و آرائش کے دن چل رہے ہیں، رب کی رحمت ہے…‘‘
’’آ پ تو گاؤں چلے گئے تھے نا، پھر ممبئی اور یہاں کی سکونت؟‘‘ نثار الحق جاننا چاہتے تھے۔ عقیل احمد مسکرائے اور بتانے لگے۔
’’آپ نے ٹھیک کہا ہے۔ امی کے انتقال کے بعد میں تو ٹوٹ گیا تھا۔ بھائیوں نے کھیتی کی زمین یہ کہہ کر بانٹ لی کہ امی کے بہانے میں نے ان سب کا حق مارا۔ یہ سن کر مانو میرے پیر کے نیچے کی زمین کھسک گئی۔ پھر سے کھیتی کی جانب توجہ نہ دے سکا۔ منجھلے بیٹے کی دکان تو پونجی کی کمی سے چوپٹ تھی ہی سوائے پریشانی کے کچھ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بڑے بیٹے کو ممبئی کی ایک فرم میں ملازمت مل گئی۔ گھر کی حالت اس سے چھپی نہیں تھی۔ اس نے منجھلے بھائی کو اپنے پاس بلاکر کام پر لگایا۔ بندسی پڑی گھر کی گاڑی سست رفتار سے ہی سہی مگر چل پڑی نثار بھائی۔‘‘
عقیل احمد کچھ پل خاموش رہے اور تیز دوڑتی ٹرین کے باہر چھوٹتی ہوئی بنجر زمین کو تکنے لگے۔ نثار الحق نے بھی باہر دیکھا جب تک ٹرین ہری بھری کھیتیوں سے گزر رہی تھی۔ عقیل احمد نے لمبی سانس لی۔ پھر نثار الحق سے مخاطب ہوئے۔
’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اس نے میرے دن پھیر دیے۔ دونوں بیٹوں نے مل کر باقی بھائیوں کو باری باری بلا لیا اور پھر مجھ سے آنے کی ضد کرنے لگے۔ میں ہرگز تیار نہ تھا مگر اپنوں کی بے رخی اور بے غیرتی نے میرا دل توڑ دیا تھا۔ چار چار آنسو ڈھلک پڑے تھے میرے گالوں پر جب میں امی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ممبئی کے لیے پہلی بار چلا تھا۔ یہاں تو کامیابی راہ دیکھ رہی تھی۔ بڑے بیٹے نے اپنا بزنس میرے حوالے کرنیا کاروبار شروع کیا۔ اللہ نے برکت دی۔ ہم سب کامیاب ہوئے۔ سب نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ مجھ میں اب انکار کی ہمت نہیں تھی۔ اس طرح اب میںممبئی میں عقیل سیٹھ ہوگیا ہوں نثار بھائی۔‘‘
’’آپ تو بڑے آدمی ہوگئے گاؤں سے تعلق ختم ہوگیا ہوگا۔ اپنے پرائے۔‘‘ نثار الحق نے چھیڑا۔
’’میں گاؤں کیسے بھول سکتا ہوں۔ بھائیوں نے والدہ کی خدمت سے جی چرایا تو انجام کار تکلیف میں ہیں۔ ان کے اپنے بچے انہیں خرچ تو دیتے ہیں مگر سکھ نہیں۔ میں تو سب سے ملنے سال میں ایک آدھ بار آجاتا ہوں۔‘‘
نثار الحق نے محسوس کیا کہ عقیل صاحب پر رقت طاری ہونے لگی ہے تو وہ خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے نثار الحق کو مخاطب کیا۔ ’’نثار بھائی، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اللہ کی اس عنایت کا سبب کیا ہوسکتا ہے، تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہے۔ پتا نہیں اللہ کو میری کون سی بات پسند آئی کہ اس نے مجھے اتنی خوشیاں بخش دیں۔‘‘
نثارالحق پہلی دفعہ مسکرائے اور عقیل احمد کے قریب آکر بیٹھتے ہوئے بولے: ’’عقیل بھائی آپ نے غور نہیں کیا مگر میں نے سب جان لیا ہے۔ آپ کو امی کی دعائیں لگ گئی ہیں۔ اس سے پسندیدہ عمل اللہ کے نزدیک اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘
ٹرین کی رفتار تیز تھی اور دونوں اتنی ہی سرعت سے اس وقت تک یاد ماضی کے اوراق پلٹتے رہے جب تک کہ سفر ختم نہیں ہوا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146