قتل کا لائسنس

ویر سنگھوی

تقریباً دس سال پہلے دہلی پولیس نے دن دہاڑے دہلی شہر کے قلب میں واقع بارہ کھمبا روڈ پر کار میں بیٹھے معصوم تاجر کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہونے والا ہنگامہ ایسا تھا کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں میڈیا کے ذریعے بہت سے سوالات اٹھائے گئے اور پولیس کمشنر کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔
آپ میں سے کچھ لوگوں کو شاید یہ مڈ بھیڑ یاد ہوگی۔ پولیس کی ایک ٹیم کو یہ خبر ملی کہ ایک کار جو ایک پولیس کو مطلوب مجرم کو لے کر جارہی ہے وہ بارہ کھمبا روڈ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پولیس انتظار کرتی رہی۔ جب ایک کار جو کہ ان کو بتائے گئے حلیے سے مطابقت رکھتی تھی، ان کے پاس سے نکلی تو انھوں نے فائرنگ کردی۔ غضب ہوگیا۔ یہ تو کوئی اور کار تھی، جس کا حلیہ اتفاقی طور پر اس بتائی گئی کار سے ملتا تھا ۔ جن آدمیوں کو پولیس نے قتل کیا تھا وہ سب بالکل بے خطا تھے۔
یقینا پولیس اس چیز کا اعتراف کرنے والی نہیں تھی اس لیے انھوں نے کار کے اندر ایک بندوق رکھ دی۔ پولیس میں سے ایک نے اپنے آپ کو گولی مارلی اور دہلی پولیس نے یہ دلیل دی کہ اس کار میں موجود لوگوں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔ یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ مارے گئے لوگوں کے رشتہ دار اس پریس کانفرنس میں گھس گئے جہاں پولیس کمشنرخطاب کررہے تھے اور شدید غصہ میں احتجاج کیا۔ وہ سب میڈیا کے پاس گئے اور شکایت کی۔ وہ بے اثر لوگ نہیں تھے اس لیے دھیرے دھیرے حقیقی کہانی لوگوں کے سامنے آگئی۔ وہ پولیس کے جوان جنھوں نے مڈبھیڑمیں حصہ لیا تھا گرفتار کرلیے گئے اور ان پر قتل کا مقدمہ چلا۔ وہ مجرم قرار دیے گئے اور میرے خیال سے کچھ لوگ اب بھی جیل میں ہیں۔
ہم میڈیا کے لوگ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے کہ آخر کار انصاف مل گیا۔ میں ان لوگوں کا حامی نہیں ہوں جو معصوم لوگوں کو مارتے ہیں اور پھر ان کے جسموں پر ہتھیار ’پلانٹ‘ کر دیتے ہیں لیکن اس مڈ بھیڑ پر میرا جو ردعمل رہا اس نے مجھے فکر مند کردیا۔ ہم کس چیز کی شکایت کررہے تھے۔ ہمارے اعتراضات انسانی حقوق سے متعلق تھے کہ : پولیس کو قتل کرنے کا لائسنس کس نے دے دیا وغیرہ۔
لیکن ہم میں سے کچھ لوگوں نے بدیہی سوالات پوچھے۔ فرض کیجیے پولیس کو غلط کار نہ ملی ہوتی اور فرض کیجیے کہ وہ ان مجرموں کو ماردیتے جن کے پیچھے وہ لگے تھے تو کیا ہم میں سے کسی نے کوئی اعتراض کیا ہوتا؟
مجھے اس بات پر شبہ ہے۔ اب تک ہم میں اکثر لوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ پولیس عام طور پر مشتبہ لوگوں کو مارتی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سی نام نہاد مڈ بھیڑوں میں مارے جانے والوں کو دفاع کا موقع ملنے سے پہلے ہی قتل کردیا جاتا ہے۔ اکثر انھیں خود سپردگی کرتے وقت ہی شوٹ کردیا جاتا ہے۔
اس میں سے کوئی بھی چیز ہم کو خاطر خواہ پریشان نہیں کرتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ یہ ناگوار چیز ہے لیکن منظم جرائم یا دہشت گردی سے جنگ کے لیے یہ ایسی چیز ہے جس سے بچا نہیں جاسکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ پولیس جھوٹ بول رہی ہے لیکن ہم نظر انداز کرنا پسند کرتے ہیں ۔تو جن لوگوں نے اس تاجر کو شوٹ کیا وہ مرڈر کے مجرم ہیں؟ یا صرف یوں ہی پہچان میں غلطی کے مرتکب۔ آپ ہی بتائیں۔ اس کا لم میں میں ان مڈبھیڑوں کی طرف پلٹتا ہوں جو سال بہ سال ہوتی رہیں کیونکہ وہ ہمارے پولیس نظام پر وسیع داغ لگاتے ہیں۔ یہ سب دہشت گردی (اور اب عام جرائم سے بھی) جنگ کے ایک حصہ اور آلہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن ہم ان تمام قتلوں کی حقیقت کو جو ہمارے نام سے انجام دیے جاتے ہیں، یکسر رد کرتے ہیں۔ جب تک کوئی دوسرا ان کی زد میں آتا ہے اس وقت تک ہم رات میں آرام کی نیند سوتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ جب ہم ان کاؤنٹرس کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نہ کوئی ضابطہ ہے نہ رہنما خطوط اور نہ کوئی ضابطۂ اخلاق۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ پولیس جس کو چاہے مارسکتی ہے اور جب تک کوئی شخص اچھے روابط رکھنے والا نہ ہو اور لوگوں کے نظریے سے دور انکاؤنٹر کا شکار ہوجائے (بارہ کھمبا روڈ یقینا) ہم اس کو یقینا قابلِ ملامت تصور نہیں کرتے۔ ہم یہ کہہ کر اسے جائز قرار دیتے ہیں کہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اور یقینا یہ بات بالکل درست ہے کہ انکاؤنٹر نظم و قانون کو نافذ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ثابت ہوا ہے۔
ہندوستانی اسٹیٹ نے ’’ایکسٹرا جوڈیشیل کلنگس‘‘ کو چمبل کی گھاٹی کے ڈاکوؤں کی ڈکیتیوں سے نجات حاصل کرنے اور ۱۹۶۰ء کی دہائی میں نکسل وادی تحریک کو کچلنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں پنجاب میں دہشت گردی گولی کے جواب میںگولی کی پالیسی سے ہی ختم ہوگئی اور دہشت سے نجات مل گئی۔ زیادہ قریبی دور کی بات وہ ہے جب بومبے پولیس نے منظم انڈر ورلڈ کے خلاف انکاؤنٹرس کااستعمال کیا۔ لیکن یہاںمیرا ایک سوال ہے۔ اگر انکاؤنٹرس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم حصہ ہیں تو کیا ہم ان کو بلا رکاوٹ، بلا ضابطہ اور بغیر کسی داخلی نگرانی کے ہونے دیں۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ کیسے کوئی اسٹیٹ کیسے قانون پاس کرسکتی ہے اور ان حالات و کوائف پر مبنی کتاب چھاپ سکتی ہے جس میں مشتبہ افراد کے صفائے کی اجازت ہو۔ اس لیے کوئی داخلی ضابطہ تو ہونا چاہیے۔ یہ پولیس کے اندر تو کیا جانا چاہیے اور سینئر افسران کے ذریعے اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔
ایک وقت تھا جب ایسا ہوتا تھا۔ اگرچہ قانون کی گرفت میں آنے کے ڈر سے اس کے بارے میں کوئی کھلے عام نہیں بولے گا، پر پنجاب پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کے یہاں بھی ایک ضابطہ تھا۔ اگر ایک دہشت گرد (ان کی نگاہ میں) تین سے زیادہ قتل کے معاملوں میں ذمہ دار تھا تو وہ اسے مارڈالتے تھے۔ بہ صورت دیگر وہ اسے جیل میں ڈال دیتے تھے۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ چیز لبرلزم کے برعکس ظالمانہ اور سنگدلی پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی موجودہ صورت میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے بہتر ہے۔ ظاہری طور پر ہم مجرموں کو پکڑنے اور قانون کی زد میں لانے کے لیے صرف زبا نی جمع خرچ کرتے اور ٹیلی ویژن پر مجرموں کو پکڑنے کے قوانین بنانے کی ضرورت پر مباحثہ کراتے ہیں لیکن ہماری پولیس حقیقت میں جیسے چاہتی ہے اس کا صفایا کرتی ہے اور یہ سب ہوتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر۔
ہمارے پاس کافی ثبوت ہیں کہ یہ انکاؤنٹر اسٹریٹجی بری طرح غلط راستے پر گئی ہے۔ بومبے میں ویانائک جیسے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کرائے کے قاتل ہونے اور کروڑوں روپے اینٹھ کر جمع کرنے کے ملزم ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہ بات بڑے پیمانے پر تسلیم کی گئی کہ انڈرورلڈ نے کرائے کے قاتل لینے کے بجائے اپنے مخالفین کے صفائے کے لیے اس بات کو زیادہ آسان سمجھا کہ وہ محض پولیس انسپکٹر کو رقم دیں۔ وہ گنگسٹر کو قتل کردیں گے وہ اس کی رقم لیں گے اور پھر پبلک سروس کے میڈیلس بھی لیں گے۔
دہلی میں راجبیر سنگھ قتل اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ خود پولیس کی اپنی تفصیل کے مطابق ان کا سب سے نامی گرامی انکاؤنٹر پولیس افسر حقیقت میں ایک عیار تھا جو اپنی خدمات پراپرٹی ڈیلر کو پیش کرتا تھا اور اپنی بندوق کو دولت حاصل کرکے قسمت بنانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ پھر بذات خود ہی انکاؤنٹر ہیں۔ کچھ سال پہلے جب میں Hindustan Timesکا ایڈیٹر تھا دہلی پولیس نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے دو دہشت گردوں کو مار گرایا جو انسل پلازہ میں حملہ کرنے اور دیوالی کی خریداری کرنے والوں کو مارنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ہمیں لگا کہ ان کی کہانی کتنی مضحکہ خیز تھی اور اس کی جس قدر گہرائی میں ہم گئے مزیدبے ضابطگیاں اور تضاد ملتے رہے۔ ایسا لگا کہ پولیس دو آدمیوں کو انسل پلازہ کی پارکنگ کے پاس لے کر آئی اور ان کو بے دردی سے قتل کردیا۔ شاید وہ دہشت گرد تھے جو پہلے سے ہی پولیس تحویل میں تھے۔ لیکن جو چیز میں نے ناگوار پائی وہ عوامی جذبات کا ننگا مینوپولیشن تھا۔ وہ یہ دعویٰ تھا کہ ہندو تہوار ’’ڈسرپٹ‘‘ ہونے والا تھا۔ دوکانداروں کو فرضی دھمکی کا خوف اور یہ یقینا بہادری کا ایسا خود ساختہ دعویٰ تھا جو پولیس نے محض اپنے طور پر کیا تھا۔
ایسا ہی کچھ چند ہفتے پہلے جامعہ میں ہوا۔ مجھے انسپکٹر شرما کی موت پر افسوس ہے۔ لیکن اس کی موت کی آفیشیل اسٹوری کافی نہیں ہے۔ اگر آپ عینی شاہدین کے بیان کو بھی جانب دارانہ ہونے کی بنیاد پر رد کردیں تب بھی اس میںبہت سے جھول ہیں۔ انسپکٹر شرما کے جسم پر گولیوں کے وہ زخم کیوں نہیں تھے ، شوٹ آؤٹ کے بعد تصویر میں جن کے سبب ان کی موت ہونا تصور کیا جاتا ہے؟ اگر وہ ’’گن بیٹل‘‘ میں مرا ہے تو انھیں پیچھے سے اتنی قریب سے گولی کیوں لگی؟ وہ گولیاں کہاں ہیں جو اس کی موت کا سبب بنیں؟ اور دو دہشت گرد کیسے بچ نکلے جبکہ ان کے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا؟ اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم (حقیقت) کبھی نہیں جان پائیں گے۔ انسل پلازہ انکاؤنٹر کے معاملہ میں ہمیں جو کچھ معلوم ہے وہ انتہائی مشکوک ہے۔ اور یہاں بھی سچائی کبھی کھل کر سامنے نہیں آئے گی اور کیا ہوا اس کا ہمیں صرف اندازہ ہی لگانا ہوگا۔ اس سے بھی بری چیز یہ ہے کہ کسی انکاؤنٹر کے سلسلے میں یہ سوالات اٹھانا ملک مخالف سمجھا جاتا ہے۔ جب ہم نے انسل پلازہ شوٹنگ کی آفیشیل تفصیلات پر سوالات کیے تو ہندوستان ٹائمز کو بدنام کیا گیا۔ اور جو شخص یہ جاننا چاہے کہ جامعہ میں کیا ہوا اس کے سلسلہ میں تو پہلے ہی سے اس بات کی کوشش ہے کہ اسے دہشت گردوں کا ہمدرد ہونے کا لقب دے دیا جائے۔ لیکن آپ خود سے یہ سوال کیجیے کہ کیا بارہ کھمبا روڈ انکاؤنٹر کی سچائی کو سامنے لانا، راجبیر کیس کے خلاف کھل کر بولنا اور دیا نائک کے قتلوں پر سوال اٹھانا ملک مخالف بات ہے؟ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایک مثالی اور آئیڈیل دنیا میں انکاؤنٹر نہیں ہونا چاہیے لیکن ہم آئیڈیل دنیا میں نہیں جیتے۔ اور سماج انکاؤنٹر کو سپورٹ کرتا ہے۔ لیکن اگر پولیس کے لوگوں کو قتل کا لائسنس دے دیا جائے تو کیا ہم کوئی ضابطہ وضع نہیں کرسکتے۔ خواہ کتنا ہی راز دارانہ یا غیر رسمی ہو۔ یہ اس چیز کی یقین دہانی کے لیے کہ معصوم اور بے گناہ لوگ نہیں مارے جائیں گے اور سماج کو ان کے آگے نہیں جھکنا پڑے گا۔ اور کم سے کم کیا ہمیں یہ اختیار بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ملک مخالف کہلائے بغیر سوال کھڑے کرسکیں؟
(بشکریہ ہندوستان ٹائمز)——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146