کھانسی

ڈاکٹر ظفر کریم

ہم میں سے اکثر کو کھانسی کبھی نہ کبھی ضرور ہوتی ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ کھانسی کیا ہے؟ اور کیوں ہوتی ہے؟کھانسی کے دوران دراصل چھاتی میں جمع شدہ ہوا انتہائی تیزی سے باہر کو نکلتی ہے اور یہ عمل ہمارے جسم کے دفاعی نظام کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے گلے اور پھیپھڑوں کی اندرونی جھلیاں بہت حساس ہوتی ہیں، جب بھی انہیں کسی چیز سے تحریک ملتی ہے تو یہ تحریک پیدا کرنے والے عناصر کو بذریعہ کھانسی باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان عناصر میں پھیپھڑوں میں موجود رطوبات اور بلغم یا بیرونی اشیاء شامل ہیں جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتی ہیں مثلاً گرد، سگریٹ کا دھوا اور مختلف گیسیں وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ کھانسی ہمارے جسم کے لیے فائدہ مند ہے کیوں کہ یہ ہمارے پھیپھڑوں کو صاف رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات کھانسی کی وجہ گلے یا پھیپھڑوں کی اندرونی بیماری ہوتی ہے۔ اس صورت میں کھانسی زیادہ شدید اور لمبے عرصے تک رہتی ہے۔ اکثر لوگ اس کو عام بیماری سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ بازار میں دستیاب مختلف ادویات سے اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل یہ دونوں رویے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ کھانسی ایک مرض نہیں بلکہ مختلف امراض کی علامت ہے اور ہوسکتا ہے اس کو نظر انداز کرکے ہم ان بیماریوں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کررہے ہوں۔ ذیل میں ان خطرناک بیماریوں میں سے چند ایک کا تعار ف پیش کیا جارہا ہے جن کی ابتدائی علامت کھانسی ہی ہوتی ہے۔
کرونک برونکائٹس
بناوٹ کے لحاظ سے پھیپھڑے بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان میں ایک حصہ تو ان چھوٹی بڑی نالیوں پر مشتمل ہے جن کے ذمے ہوا کو منہ سے پھیپھڑوں کے آخری حصے تک پہنچانے کا کام ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو اسفنج کی طرح لچکدار اور نرم عضلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حصے کا کام ہوا اور خون کی باریک باریک نالیوں کے مابین گیسوں کا تبادلہ کرنا ہے۔ کرونک برونکائٹس دراصل ان چھوٹی چھوٹی نالیوں کی سوزش کی بیماری ہے جو ہوا کے گزرنے کا راستہ فراہم کرتی ہیں اور اس سوزش میں اہم کردار سگریٹ کا دھواں اور مختلف جراثیم ادا کرتے ہیں۔ سوزش کی وجہ سے ان نالیوں کی اندرونی سطح غیر ہموار ہوجاتی ہے اور ان کااندرونی قطر کم ہونے لگتا ہے۔ نتیجتاً سانس کی آمدورفت میں مستقل طور پر رکاوٹ پڑنی شروع ہوجاتی ہے۔ کرونک برونکائٹس یعنی پرانی کھانسی کے ایک مریض کی تصویر کشی کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی۔ یہ تقریباً ۴۵ سے ۵۰ سال کی عمر کا مرد ہوگا جو پچھلے دس برس سے سگریٹ پیتا رہا۔ گزشتہ کئی ماہ سے اس کو کھانسی ہے جو شروع میں خشک تھی، مگر بعد میں اس کے ساتھ پیلے رنگ کا بلغم بھی آنا شروع ہوگیا۔ اب اسے چلنے پھرنے سے سانس پھول جانے کی تکلیف بھی ہے۔ کبھی کبھار اس کا سارا جسم نیلا ہوجاتا ہے اور سانس گھٹنے لگتا ہے۔ اگر ایسے مریض کا اس مرحلے پر علاج نہ کیا جائے تو اس کے دل کا سائز بڑھ جاتا ہے اور بعد میں ہارٹ اٹیک سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اپنی ابتدائی شکل میں یہ بیماری سگریٹ نوشی چھوڑ دینے سے ٹھیک ہوسکتی ہے، مگر ایک خاص مرحلے کے بعد یہ بیماری لاعلاج ہوجاتی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کے ساتھ منسلک ایک اور بیماری ہے جسے ایمفائی زیما یا نفاخ کہتے ہیں۔
ایمفائی زیما (Emphysema)
جس شخص کو بھی پرانی کھانسی ہوگی، اسے ایمفائی زیما ضرور ہوگا اور ان دونوں بیماریوں کے ملنے سے جو صورتحال پیدا ہوتی ہے وہ سی او پی ڈی کہلاتی ہے۔ اس بیماری میں پھیپھڑوں کی باریک جھلیوں کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجاتی ہے جن کو آر پار گیسوں کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھیپھڑوں کے فعال حصے میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پھیپھڑوں کی اندرونی لچک کی قوت ختم ہونے لگتی ہے اور وہ ہر سانس میں پھولنے کے بعد اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں آتے جس کی وجہ سے ان کا سائز بڑھنے لگتا ہے کیونکہ ہر سانس کے ساتھ ان کے اندر موجود ہوا پوری طرح خارج نہیں ہوپاتی۔ اس بیماری میں معمولی ورزش سے سانس پھولنے لگتا ہے، کھانسی رہتی ہے، چھاتی کی شکل چپٹی ہونے کے بجائے گول ہوجاتی ہے اور چھاتی سے سائیں سائیں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
اس بیماری کی بنیادی وجہ سگریٹ نوشی اور آلودہ فضا ہیں۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عام آدمی کی نسبت سگریٹ نوش کو ایمفائی زیما ہونے کے چھ گنا زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ یہ ایک خود بخود بڑھنے والا مرض ہے اور اس کا کوئی تسلی بخش علاج ممکن نہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سی او پی ڈی کے ۷۰ فیصد مریض پانچ برس کے اندر اندر مرجاتے ہیں اور یہ شرح اموات عام کینسر کے برابر ہے۔
سی او پی ڈی کے مریضوں کے لیے سگریٹ ترک کردینا بنیادی علاج ہے۔ اس کے علاوہ چھاتی میں انفیکشن کا علاج فوری طور پر کروانا چاہیے۔ انفیکشن کی موجودگی پیلے یا سبز رنگ کے بلغم یا بخار سے ثابت ہوتی ہے۔ ہلکی ورزش کرنی چاہیے اور بھاری کام سے پرہیز لازم ہے کیونکہ اس سے پہلے سے متاثرہ پھیپھڑوں پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
ایسے مریض جن کا سانس بہت زیادہ پھول رہا ہو انھیں اپنے دونوں ہاتھ سامنے سے پسلیوں کے نچلے حصے پر رکھ کر سانس خارج کرنے کے ساتھ ساتھ اندر کو دبانا چاہیے۔ اس سے ہوا کو پھیپھڑوں سے باہر نکالنے میں مدد ملے گی۔ یہ عمل پندرہ پندرہ بار دن میں تین چار مرتبہ کیا جائے۔
دمہ یا ایستھما (Asthma)
پرانی کھانسی کے برعکس اس بیماری میں سانس کی نالیاں عارضی طور پر تنگ ہوجاتی ہیں اور سانس کا باہر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مرض کی بنیادی وجہ پھیپھڑوں میں موجود ہوا کی نالیوں کا زیادہ حساس ہوجانا ہے۔ دمہ مختلف شکلوں میں ہوسکتا ہے، مثلاً کبھی کبھار سانس کے دورے پڑنا، مستقل دمہ رہنا اور کسی الرجی کی وجہ سے دمہ ہوجانا۔ اس بیماری میں ہر عمر کے لوگ گرفتار ہوسکتے ہیں، چنانچہ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو دمہ ہوسکتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ مختلف اشیاء مثلاً گرد وغبار، صنعتی دھویں، طرح طرح کے پھولوں اور پودوں ، پھپھوندی، قالین اور کمبل وغیرہ کے ریشوں، مختلف کھانوں یا جانوروں کی موجودگی سے مریض کو الرجی ہوسکتی ہے۔ یہ الرجی دوروں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ ذہنی پریشانی، موسم کی تبدیلی خاص طور پر سرد موسم میں، تمباکو نوشی اور چھاتی کی عفونت (انفیکشن) بھی دمہ پیدا کرسکتے ہیں۔
دمے کی علامات میں سانس پھولنا شدید کھانسی اور بلغم کا اخراج، چھاتی سے سائیں سائیں کی آوازیں آنا، چھاتی پر بوجھ محسوس ہونا اور جسم کا نیلا ہوجانا شامل ہیں۔ اس بیماری کی تشخیص کے لیے چھاتی کا ایکسرے، بلغم کے ٹیسٹ، سپائرومیٹر کے ٹیسٹ اور جلد کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
ٹی بی (Tuberculosis)
تپ دق ایک متعدی بیماری ہے۔ یہ ہمارے جسم کے کم و بیش ہر حصے کو متاثر کرسکتی ہے مگر پھیپھڑوں کا مرض عام ہے کیونکہ تپ دق کے جراثیم بذریعہ سانس ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں پرورش پانا شروع کردیتے ہیں۔ اس مرض کی تشخیص جتنی جلد ہوجائے اتنے ہی مریض کے مکمل طور پر تندرست ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ پھیپھڑوں کے وہ حصے جو تپ دق سے خراب ہوجاتے ہیں، اپنا فعل سر انجام دینے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کی ابتدائی علامات کا علم رکھنا ہر کسی کے لیے ضروری ہے تاکہ اس کا بروقت علاج شروع کیا جاسکے۔ کھانسی اس کی ابتدائی اور سب سے عام علامت ہے۔ شروع میں یہ کھانسی خشک ہوتی ہے لیکن بعد میں کھانسی کے ساتھ بلغم آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر کھانسی کو نظر انداز کردیا جائے تو یہ خوفناک مرض اندر ہی اندر بڑھتا رہتا ہے۔ اس کی دوسری علامات میں بخار اور زیادہ پسینے کا آنا شامل ہیں اور یہ دونوں کیفیتیں خاص طور پر رات کو محسوس کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں چلنے پر سانس کا پھول جانا، بلغم کے ساتھ خون کا آنا اور چھاتی کا درد مرض کے پیچیدہ ہونے کی علامات ہیں۔ پھیپھڑوں میں تپ دق کے جراثیم خون میں شامل ہوکر جسم کے دوسرے حصوں میں بھی بیماری پیدا کرسکتے ہیں۔
اس مرض کا علاج بہت لمبا اور مہنگا ہوتا ہے جس میں تین چار قسم کی ادویات ۷ سے ۹ ماہ تک استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ ادویات کے علاوہ مکمل آرام اور اچھی خوراک بھی علاج میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
پھیپھڑوں کا سرطان
پھیپھڑوں کا سرطان مردوں میں کینسر کی سب سے عام قسم ہے۔ کینسر سے مرنے والے مردوں میں سے نصف پھیپھڑوں کے سرطان سے مرتے ہیں۔ ایسے کینسر کی ایک بنیادی وجہ سگریٹ نوشی ہے۔ ایک سگریٹ نوش میں عام آدمی کی نسبت پھیپھڑوں کا سرطان پیدا ہونے کا چالیس گنا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔ یہ سرطان اکثر اوقات لاعلاج مرض ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اس موذی مرض کی ابتدائی علامت بھی خشک کھانسی ہوتی ہے اور کبھی کبھار کھانسی کے ساتھ بلغم بھی خارج ہوتا ہے۔ اس بظاہر بے ضرر کھانسی کی آڑ میں ایک خوفناک مرض پرورش پا رہا ہوتا ہے۔ اس مرض کی دوسری علامات میں کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس پھولنا، بار بار نمونیا ہونا اور چھاتی کا درد شامل ہے۔
اس بیماری کی تشخیص کے لیے چھاتی کا ایکسرے، برونکو سکوپی اور بلغم کے ٹیسٹ وغیرہ کرائے جاتے ہیں۔ بیماری کے ابتدائی مرحلے میں پھیپھڑوں کا سرطان زدہ حصہ نکال دیا جاتا ہے اور سرطان زدہ خلیوں کو مارنے کے لیے مختلف دوائیں استعمال کی جاتی ہیں لیکن ابھی تک اس مرض کا کوئی تسلی بخش علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ کامیاب آپریشن کے باوجود اس بیماری کے صرف تیس فیصد مریض پانچ برس یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔
پھیپھڑوں کی بیماریاں اور حفاظتی تدابیر
۱- پھیپھڑوں کی تمام بیماریوں میں یا تو تمباکو نوشی بنیادی وجہ ہوتی ہے یا ان بیماریوں کے پیدا ہونے کے بعد اس سے ان کے پھیلاؤ میں مدد ملتی ہے۔ سگریٹ کا دھواں پھیپھڑوں کے ہر حصے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی تقریباً لاعلاج ہیں، لہٰذا ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے تمباکو نوشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ ایک تمباکو نوش کتنے ہی عرصے سے سگریٹ کیوں نہ پی رہا ہو وہ جس وقت بھی یہ عادت ترک کردے، اس کے لیے بہتر ہے۔
۲- خاص طور پر شہروں اور فیکٹریوں کے ارد گرد رہنے والوں کو گرد آلود اور دھواں زدہ فضا میں سانس لینا پڑتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، آلودہ فضا سے بچنا چاہیے۔ صبح کی تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے سے آپ کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔
۳- دمے کے مریضوں کو اپنے جسم میں الرجی پیدا کرنے والی چیزوں کا تعین کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان سے بچنا چاہیے۔ مثلاً پھپھوندی یا پھولوں کے پولن (زردانوں) سے الرجی رکھنے والے افراد باغات میں نہ جائیں۔ پرندوں سے الرجی رکھنے والے ان سے بچیں۔ اگر کسی کو سردیوں میں دمے کے دورے پڑتے ہوں تو سردی سے مکمل بچاؤ ضروری ہے۔ پھیپھڑوں میں عفونت کا فوری اور مکمل علاج ضروری ہے۔ نزلہ، زکام ہونے کی صورت میں بھی ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے دوائیں گھر میں رکھیے اور ان کے استعمال سے مکمل واقفیت ہونی چاہیے۔ یاد رکھئے دمے کا حملہ مریض کی جان بھی لے سکتا ہے۔
۴- ٹی بی سے بچنے کے لیے بچوں کو بی سی جی کے ٹیکے لگوانا ضروری ہے۔ یہ ٹیکہ پیدائش کے فوراً بعد لگایا جاتا ہے۔ اچھی خوراک، صاف ستھری اور ہوا دار رہائش اس مرض سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے مریض جن کی تشخیص ہوچکی ہو، انہیں ہسپتال میں یا گھر کے اندر الگ کمرے میں رکھا جائے۔ آج کل بہتر دوائیں دستیاب ہیں، لہٰذا مریض کو بالکل الگ تھلگ کردینا یا اسے اچھوت سمجھنا بھی درست نہیں۔ بعض ملکوں میں جہاں یہ بیماری عام ہے، لوگوں کو حفاظتی ادویات دی جاتی ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146