بچے والدین کی عزت کیوں نہیں کرتے!

ایس ایس رضا

آج کل بیشتر والدین یہی شکایت کرتے ہیں کہ بچے ان کی عزت نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنے والدین سے ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ والدین حیران و پریشان رہ جاتے ہیں کہ آخر ان کی غلطی کہاں ہے؟ والدین اپنے بچوں کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بدلے میں عزت و احترام چاہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوپاتا ہے جبکہ والدین سے بدتمیزی اور بدتہذیبی سے پیش آنا آج کل عام بات ہوگئی ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ بچے اپنے آس پاس کے ماحول سے ہی سب سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ چاہے وہ اسکول ہو، دوست ہوں یاگھر کا ماحول اور گھر میں والدین کا ایک دوسرے کے ساتھ طرز عمل۔ اس لیے بچوں کو مہذب بنانے اور ان میں اچھی خوبی پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے گھر کاماحول درست کرنا ضروری ہے۔ گھر کے بزرگوں سے عزت و احترام کا رویہ رکھنا۔ بچوں کے سامنے کسی کے لیے بھی غلط زبان کا استعمال نہ کرنا، یہاں تک کہ گھر میں نوکروں سے بھی غلط الفاظ کا استعمال نہ کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ بچوں سے عزت پانے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ آپ انہیں بھی پوری عزت دیں۔ لہٰذا انھیں ’’آپ‘‘ کہہ کر بلائیں۔ ان کے دوستوں سے بھی عزت سے پیش آئیں۔
بچوں سے قریبی اور ادب و احترام والا رشتہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان سے رسمی اور پرتکلف رشتہ بنانے کے بجائے ان سے سیدھا سادہ اور سچا رشتہ بنائیں۔ کئی بار بچے جب اپنے والدین سے کوئی ایسا سوال پوچھتے ہیں جس کے جواب دینے کی و ہ پوزیشن میں نہیں ہوتے تو پھر وہ انہیں ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بجائے مناسب یہ ہے کہ آپ انہیں بتائیں کہ اس بارے میں مجھے معلومات نہیں ہیں اور یہ کہ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کروں گا، کسی سے معلوم کروں گا اور جب مجھے معلوم ہوجائے گا تو آپ کو بتاؤں گا۔ اسی طرح آپ ایسے ایسے موقع پر بچے کو خود جو اب تلاش کرنے یا استاد سے معلوم کرنے کے لیے اکسا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے بچے کو غلط جواب کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کی تو یہ عمل اس وقت آپ کوبچے کی نظروں میں گرا دے گا جب اسے صحیح جواب کسی بھی طرح معلوم ہوجائے گا۔
بچوں کے ساتھ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کو لے کر بعض لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر ان پر سختی کی گئی تو وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے اور ان کی عزت نہیں کریں گے۔ یہ بات بہت زیادہ اور غیر ضروری سختی کے بارے میں تو اندیشہ کے طور پر سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ غلط اور غیر مناسب کاموں اور باتوں پر ڈانٹنا اور سختی کرنا والدین کا فر ض اور حق ہے۔ لیکن اس کے استعمال کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے طرزِ عمل اور پیارو محبت کے ذریعے بچے کے ذہن میں اس خیال کو مضبوط کردیں کہ والدین ہمارا بھلا چاہتے ہیں اور ان کی سختی بھی ہماری خیرخواہی کے لیے ہی ہے۔ اگر بچے کے اندر یہ تصور ہے تو وہ آپ کی بڑی سے بڑی سزا کو بھی برداشت کرلے گا اور مطمئن رہے گا۔ لیکن اگر آپ اس تصور کو اس کے ذہن میں بٹھانے میں ناکام رہے تو وہ یقینا بغاوت اور بے عزتی پر اتر آئے گا۔ جس سے حالات بگڑنے لگیں گے۔
والدین بچوں سے جو کام کروانا چاہتے ہیں اس کے لیے ان سے ایک بار ہی کہنا کافی ہونا چاہیے اور آپ کی بات ماننے کے لیے بچوں کو بلا شرط تیار ہونا چاہیے مگر اس کے لیے پیار و محبت کے جذباتی تعلق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ آپ کہتے رہیں گے اور بچے کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ ایسی صورت میں بعض والدین بچوں کے ساتھ سودے بازی کرتے اور مختلف قسم کے لالچ دیتے ہیں۔ ایسے میں بچہ لالچ میں تو کام انجام دے دے گا مگر اس کے اندر اس بات کی فکر پیدا نہ ہوگی کہ والدین کی خدمت اور فرمانبرداری اس کی جنت اور جہنم کا معاملہ ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے کسی قسم کی شرط ہرگز نہ لگائیں۔ کیونکہ آگے چل کر بچہ ایک طرف تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھاسکتا ہے، دوسری طرف اس عمل سے اس کے اندر والدین کی خدمت و اطاعت کا وہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا جس کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے اور جو ہم خود بھی چاہتے ہیں۔
آج کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ اس کے لیے انہیں اسکولوں میں خود اعتماد بننے کی ہدایت اور تربیت بھی دی جاتی ہے۔ خود اعتمادی اپنی جگہ اچھی خوبی ہے لیکن اگر اس کا تعلق اخلاق و کردار کے دائرے سے نکلتا ہے تو اس کے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بلند اخلاقی اقدار سکھانے میں ناکام ہے جس کے سبب یہ خود اعتمادی دھیرے دھیرے خود سری اور ضدی پن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر بچے اسی میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کی حاضر جوابی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ خود اعتمادی کا مطلب اور معانی ان پر واضح کیے جائیں اور خود سری اور ضدی پن کا فرق انہیں بتایا جائے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ خود اعتمادی کو اخلاق و کردار کی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جائے جہاں صحیح اور غلط کو جانچنے اور سمجھنے کی تربیت بھی ہو اور غلطی کو تسلیم کرنے کی خوبی بھی ہو۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو بچے کے اندر ایک جذباتی کشمکش کی کیفیت جنم لے لے گی جو معاشرتی اور سماجی بغاوت کو فروغ دے گی۔ ایسی صورت میں بچے والدین اور بڑوں کی باتیں ماننے کے بجائے اپنی بات منوانے کو ہی اپنا شیوہ بنائیں گے جس کے نتیجے میں اگر سختی کی جائے تو اس کے الٹے نتائج کا نکلنا زیادہ ممکن ہوجائے گا۔
دراصل بچوں کے پاس اپنا کوئی ذخیرہ الفاظ نہیں ہوتا ہے۔ وہ وہی الفاظ زبان سے دہراتے اور ویسا ہی کرتے ہیں جیسا گھر اور سماج میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ غلط کام اگرچہ ہمیں کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں کرنے چاہئیں لیکن بچوں کے سامنے تو ہرگز نہ کرنے چاہئیں۔ کیونکہ اگر وہ والدین کو غلط کام کرتے ہوئے یا غلط بات کرتے ہوئے سنیں گے تو وہ بھی وہی کریں گے، ایسے میں اگر آپ ان سے خواہش کریں کہ وہ ایسا نہ کریں تو یہ ممکن نہ ہوگا۔ سختی کی صورت میں وہ بغاوت پر آمادہ ہوجائیں گے کہ خود تو کرتے ہیں اور ہمیں منع کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی نظرمیں والدین کی عزت و احترام ختم ہوجائے گا۔
بچوں سے ہمیشہ شفقت اور محبت کا سلوک کریں اور ان کو اپنی بات اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کریں۔ ان سے کھل کر بات کریں۔ تاکہ آپ کے فیصلے سے انہیں کوئی اعتراض نہ ہو اور وہ آپ کا فیصلہ ادب سے مان لیں نہ کہ خوف سے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146