ماں کی گود کا مدرسہ

ملک عبداللہ

مائیں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے عام طور پر کہتی ہیں: ’’بیٹا! سوجاؤ، سوجاؤ، ہاؤ آرہا ہے۔‘‘ بعض اوقات بچہ ماں سے پوچھ لیتا ہے: ’’امی ! ہاؤ کیسا ہوتا ہے؟‘‘ تو ماں بے چاری مجبوراً جھوٹ بولتی ہے: ’’بیٹا! ہاؤ بڑی بلا ہے۔ اس کے لمبے لمبے دانت، خوفناک آنکھیں اور بڑا بھیانک چہرہ ہوتا ہے۔‘‘
یہ سن کر بچے پر خوف طاری ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ سفید پڑنے لگتا ہے اور وہ ڈر کے مارے سوجاتا ہے، لیکن اعصابی دباؤ کی وجہ سے نیند میں بھی ڈراؤنے خواب دیکھ کر بڑبڑاتا رہتا ہے۔ مائیں چند ساعت کی سہولت کی خاطر بچوں کو انجانے خوف سے ڈراتی ہیں۔ وہ اس کے ردعمل سے بالکل بے خبر ہوتی ہیں کہ اس فعل کا بچے کے ذہن اور اس کی شخصیت پر کتنا برا اثر پڑسکتا ہے۔ ’’ہاؤ‘‘ کا خیالی خوف بچے کے ذہن پر ہمیشہ سوار رہتا ہے اور وہ بڑا ہوکر کمزور دل ہی نہیں بلکہ خود اعتمادی کی بھر پور صلاحیتوں سے بھی محروم ہوجاتا ہے اور آنے والی زندگی میں ان بلندیوں تک پہنچ نہیں سکتا جو مولا کریم کی طرف سے پیدائشی طور پر ودیعت کی جاتی ہیں۔
دراصل توہم پرستی کی غیر ایمانی سوچ میں بچوں کو ’’ہاؤ‘‘ اور بھوت جیسے توہمات سے ڈرانا ان کے ذہنوں میں عقیدہ توحید ختم کرنے کی لاشعوری کوشش ہے۔ جبکہ مسلم ماؤں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ’’خیالی ہاؤ‘‘ سے ڈرانے کے بجائے بہادر لوگوں کے قصے کہانیاں سنا کر اللہ کی ذات کا پختہ شعور پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ اس کے علاوہ کوئی بھی چیز انسان کونقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہی ذات ہے جس سے تمام انسانوں کو ڈرنا چاہیے ۔ موجودہ حالت میں بچوں کو پاک و صاف ماحول مہیا کرنے کی خاطر اللہ پاک سے ڈرانے بلکہ اس کی ذات وصفات رحیم و کریم اور مہربان ہونے کے ناطے سے متعارف کرانے کی ازحد ضرورت ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر صحیح مومن بنیں اور کسی بھی سطح پر غیر اللہ سے خوف نہ کھائیں نہ اس کے سامنے جھکنے پائیں۔ بچپن ہی میں اللہ پاک کی بڑائی اور عظمت اور کائنات کا خالق و مالک ہونے کا تصور ذہنوں میں راسخ کردیا جائے تو بچے بڑے ہوکر نہ کسی مرحلے پر ٹھوکر کھائیں گے نہ کسی جھوٹے دین یا ازم کی طرف راغب ہوں گے۔
پرانے وقتوں میں ہماری مائیں بہنیں اپنے بچوں کو ’’اللہ ہو‘‘ کی لوریاں دے کر سلاتی تھیں۔ لیکن اب ابو کے لاڈلے اور امی کے پیارے کو فلمی لوریاں دی جاتی ہیں تو بچے میں شرافت و متانت اور خدا خوفی کی خوبیاں کیسے پروان چڑھ سکتی ہیں۔
درحقیقت ماں کی گودہی وہ مدرسہ ہے جہاں سے ابنِ آدم درس حیات حاصل کرتا ہے۔ بچپن میں جس قسم کی تربیت ملے گی وہی بنیاد قائم ہوجائے گی۔ بچہ اسلامی تعلیم و تربیت سے مزین ہوگا تو مسلمان کہلائے گا اور اگر دیگر خیالات کا رنگ چڑھ گیا تو کہیں دور جا پڑے گا۔ ماں دن میں کم از کم تین بار نماز پڑھتے وقت اپنے بچوں کو بتائے کہ بیٹا سوجاؤ اللہ پاک کی عبادت کا وقت ہوگیا ہے۔ میں نے نماز ادا نہ کی تو اللہ ناراض ہوگا جو ہمیں اچھے اچھے کپڑے اور کھانے کھلاتا ہے، مٹھائیاں اور ٹافیاں دیتا ہے۔ اذان کی آواز آنے پر مائیں لازماً اونچی آواز میں دعائیں مانگیں تاکہ بچوں پر اذان کی اہمیت واضح ہوتی رہے۔ اسی طرح مرد گھر کے بجائے مساجد میں نمازیں ادا کرنے جائیں اور کبھی کبھار چھوٹوں کو کم از کم جمعے کے دن ضرور ساتھ لے کر جائیں۔ اس طرح بچوں کے ذہن اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور کبریائی کا ایک ان مٹ نقش ابھرے گا نیز پابند نماز ہونے کے ساتھ ان میں خشیتِ الٰہی پیدا ہوگی جو ان کی عملی زندگی کو سنوارنے اور اسے پاکیزہ و صالح بنانے میں یقینا مدد گار ثابت ہوگی۔
ساتھ ہی اس امر کا بھی لحاظ رکھیں کہ بچوں کے ذہنوں میں مسجد کا احترام اور نماز کی اہمیت بھی بٹھائیں کہ وہ مسجد کا ادب و احترام کریں۔ نماز میں آپ کو یا دوسروں کو ڈسٹرب نہ کریں۔ مسجد میں کھیلیں کودیں نہیں۔ شرارت نہ کریں، شرافت سے بیٹھیں۔ یہ تربیت گھر سے کرکے بچوں کو مسجد میں لائیں۔
راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جب کبھی گھر میں ٹھوکر کھاجاتے، مائیں حسبک اللہ کہتی تھیں، جو دعائیہ کلمہ ہے جبکہ آج کل کی مہذب مائیں ’’ہائے اللہ‘‘ یا ’’اف اللہ‘‘ کہہ کر چلا اٹھتی ہیں۔ یوں ہمارے بچے شفقت بھری مامتا کی دعاؤں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
ہر انسان کو دو جہانوں میں زندگی گزارنی ہے۔ ایک عالم دنیا، دوسرا عالم آخرت۔ عالم دنیا چند ساعتوں پر محیط ہے جس کے لیے بیس پچیس برس تک بچہ تعلیم حاصل کرتا رہتا ہے جبکہ عالم آخرت میں ابدی اور لامحدود زندگی ہوگی لیکن اس کی تیاری کے لیے چند ماہ بھی فارغ نہیں کیے جاتے۔ اگر ہم میں سے کسی بھائی نے یہاں نیکی اور بھلائی کے پھول چن چن کر اکٹھے کرلیے ہوں گے تو انشاء اللہ دنیا و آخرت یعنی دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل ہوگی… لہٰذا ماؤں کی خدمت میں پرزور درخواست ہے کہ اپنے بچوں کی بہتری اور بھلائی کی خاطر ماں کی گود والا دینی مدرسہ پھر سے جاری کردیا جائے۔ اسلام کی تعلیم گھر ہی سے شروع کی جائے تاکہ بچہ باہر کی دنیا سے روشناس اور متعارف ہونے سے پہلے ہی ایک راسخ العقیدہ مسلمان بن جائے۔ اس میں دنیا اور آخرت ہیں نہیں سنورے گی بلکہ ہمارا معاشرہ خیروفلاح، امن و سکون اور محبت و پیار کا گہوارہ بن جائے گا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146