پورے دن گھر اور گھر کے باہر کی مشغولیت کے بعد اگر آپ کو ایک گھنٹہ اپنے لیے مل جائے تو آپ کیا کرنا چاہیں گی؟ یہ سوال ہر باشعور خاتون سے کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ ماحول میں عورت چاہے نوکری پیشہ ہو یا گھریلو کام کاجی۔ ہر دو صورتوں میں کاموں کی زیادتی، اندرونِ خانہ اور بیرونِ خانہ کی ذمہ داریوں کے بوجھ نے خواتین کو اتنا مشغول بنادیا ہے کہ ان کے پاس اپنے لیے یعنی اپنی ذات کے لیے وقت ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین میں تناؤ اور ڈپریشن کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں کام کاجی خواتین بھی ہیں اور گھریلو خواتین بھی ۔ سبب صرف یہ ہے کہ ان کے پاس سب کے لیے وقت ہے۔ اگر نہیں ہے تو صرف اپنی ذات کے لیے کہ وہ کچھ دیر سکون سے بیٹھ کراپنی ذات کے بارے میں سوچ سکیں، اپنی ذات کی خوبیوں، خامیوں کو دیکھیں، اپنی امنگوں اور عزائم پر نظر کریں اور ان کی تکمیل کے لیے بھی سوچیں، اپنی شخصیت کا جائزہ لیں اور اس کے ارتقاء اور امپرومنٹ کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں اور … اور سب سے ہٹ کر فرصت کے کچھ ایسے لمحات انہیں میسر آجائیں جب وہ پرسکون اور تنہا ہوں اور ’’اپنے آپ سے کھل کر گفتگو کرسکیں۔ ساتھ ہی اپنی زندگی کے لیے کچھ منصوبہ بندی کرسکیں۔‘‘ اس منصوبہ بندی کا آغاز اپنی روز مرہ کی مصروفیات کی منصوبہ بندی سے ہوتا ہے جو آپ کو وقت کا مناسب ترین استعمال سکھاتی ہے۔
آپ خواہ طالب علم ہوں یا کام کاجی اور گھریلو عورت ہر صورت میں ضروری ہے کہ کاموں کا ایک شیڈول ہو جس پر آپ کار بند رہیں۔ یہ شیڈول تحریری بھی ہوسکتا ہے اور ذہنی بھی – مگر طے شدہ ہونا ضروری ہے۔
جب بیڈ پر جائیں
شاید آپ کو نہیں معلوم کہ گھریلو خواتین میں سے تقریباً ۶۵ فیصد خواتین ایسی ہیں جنھیں پوری نیند نہ ہوپانے کی شکایت رہتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر روز چھ سے آٹھ گھنٹہ تک انسان کا سونا ضروری ہے، یہ قوت اور دماغی سکون کے لیے بے حد ضروری ہے۔
چنانچہ جب آپ سونے کے لیے بستر پر جائیں تو اس سے پہلے اپنی دن بھر کی مصروفیات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ نے جو کام انجام دیے ہیں ان کو اور زیادہ بہتر اور کم وقت میں کس طرح انجام دیا جاسکتا تھا۔اور پھر دن کے بچے ہوئے کاموں کی فہرست پر بھی نظر ڈال لیں اور اگلے روز ان کاموں کو پہلی فرصت میں انجام دینے کی کوشش کریں۔ اس طرح روز کے کام روز نپٹانے کو معمول بنائیں۔ اس طرح آپ پر کاموں کا بوجھ کم رہے گا۔ یہ بھی طے کرلینا ضروری ہے کہ کونسے کام آپ کو خود کرنے ہیں اور کن کاموں کو گھر کی خادمہ وغیرہ سے کرانا ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اسی وقت آپ کل کے کاموں کی ایک لسٹ بنالیں اگر ممکن ہو تو اس لسٹ کو تحریری شکل بھی دے دیں اور اسی کے ساتھ یہ بھی متعین کرلیں کہ کونسا کام کتنے وقت میں مکمل کرلینا ہے۔جب پورے دن کا ایک خاکہ آپ کے پاس موجود ہوگا تو کوئی بھی کام بچ نہیں سکے گا۔
ایک منظم دن کا آغاز
اپنے دن بھر کی منصوبہ بندی کے ساتھ صبح اٹھ کر کاموں کی انجام دہی شروع کریں اور ترتیب کے ساتھ اس طرح مکمل کرتی جائیں کہ آپ کو بچوں کے ہوم ورک، اپنے ذاتی مطالعے کے علاوہ کچھ فارغ وقت بھی میسر آجائے جس میں آپ کچھ آرام کرسکیں، کچھ تفریح ہوسکے یا بچوں کے ساتھ کچھ کھیل کود کا وقت بھی میسر آجائے۔
دن کاآغاز عام طور پر ناشتہ کی تیاری یا کچن ورک سے ہوتی ہے کیونکہ گھر کے مردوں کو آفس اور بچوں کو اسکول جانے کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کو بھی دفتر جانا ہو، اس طرح صبح کا یہ وقت خاصا مشغول وقت ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ صبح فجر کی نماز سے دن کا آغاز کیا جائے فجر کی نماز کے بعد کچھ قرآن کی تلاوت ہو تو بابرکت دن کاآغاز ہوگا۔
بچوں کے اسکول چلے جانے اور مردوں کے آفس چلے جانے کے بعد آپ کسی قدر فارغ ہوں تویکسوئی کیساتھ باری باری اپنے کاموں کو متعین وقت میں انجام دے کر جلد فارغ ہونے کی کوشش کریں۔ شاپنگ کے لیے یا سامان کی خریداری کے لیے اگر نکلنا ہو تو سامان کی فہرست تیار کریں اور کوشش کریں کہ کم از کم ایک ہفتہ کا سامان خرید لیا جائے۔ اس طرح آپ کو بار بار بازار جانے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی اور آپ کا کافی وقت بچ جائے گا۔
کچھ وقت رشتے ناطوں کے لیے بھی
بھاگ دوڑ اور مصروفیات کی زندگی میں رشتے داروں، پڑوسیوں اور ملنے جلنے والوں کے لیے آج ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ جس سے انسان رشتہ داروں کے درمیان بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے رشتے ناطوں کا حق، پڑوسیوں اور ملنے جلنے والوں کا حق بھی ادا کرنے کی فکر کی جائے۔ اس کے لیے آپ ہفتہ کا ایک دن خاص کرسکتی ہیں یا کم از کم اتنا طے کرسکتی ہیں کہ روزانہ دوچار رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کو صرف خبر خیریت کے لیے ٹیلیفون کریں گی۔ اس طرح رشتہ مضبوط اور تعلقات مستحکم رہیں گے۔
کچھ وقت دوسروں کی خدمت کے لیے بھی
مرد حضرات گھر سے باہر نکل جاتے ہیں اور مختلف قسم کی مشغولیات میں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ ہماری اکثر خواتین کو زیادہ تر گھروں ہی میں رہ کر ہمیشہ یکساں مصروفیتوں میں وقت گزارنا ہوتا ہے۔ مصروفیات کی یہ یکسانیت اور کاموں کا دباؤ آخرکار خواتین کے لیے اکتاہٹ کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ اکتاہٹ اور بوریت جب حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو ذہنی تناؤ کی کیفیت کو جنم دیتی ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو یہ ضروری ہے کہ زندگی کی مصروفیات اور معمولات میں تبدیلی لائی جائے دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کچھ وقت سماجی خدمت، دینی کاموں اور دوسروں کے کاموں میں ساتھ دینے کے لیے بھی نکالیں۔ اس طرح آپ اپنی زندگی میں بدلاؤ بھی لاسکیں گی اور زندگی کو بامقصد بھی گزار سکیں گی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ’’ولی‘‘ (دوست اور مددگار) ہیں۔ وہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘
بہ حیثیت مسلمان سماجی اور دینی خدمت میں آپ کا حصہ آپ کی آخرت کے لیے بھی ضروری ہے اور اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں تناؤ اور اکتاہٹ سے بچنے کے لیے بھی۔ چنانچہ باشعور، تعلیم یافتہ اور سمجھ دار خواتین کی یہ ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی کہ وہ اپنی جیسی ہم خیال خواتین کے ساتھ مل کر کوئی نہ کوئی سماجی یا دینی خدمت کا پروگرام چلائیں۔ یہ پروگرام آپ خود اپنے حسب حال متعین کرسکتی ہیں۔ اس سے بامقصد زندگی جینے کا لطف حاصل ہوگا۔
شخصی ارتقاء کی فکر کیجیے
ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وقت گھریلو اور کام کاجی خواتین میں ۶۵ فیصد خواتین ایسی ہیں جنھیں چھ سے آٹھ گھنٹوں کی ضروری نیند بھی میسر نہیں ہے اور یہ کہ ان کے پاس ایک گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں جس کا استعمال وہ اپنے شخصی ارتقاء، حسن و آرائش اور خصوصی و منظم مطالعے کے لیے کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ خواتین میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ خواتین اس طرف بھی متوجہ ہوں کہ وہ اپنی ذات کو سیکھنے سکھانے، نئی نئی معلومات کے حصول، فنون اور دست کاریوں کے علاوہ اپنے اندر خوبیوں کے فروغ اور خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی بھی فکر کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اچھی کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالیں اور اسے اپنا معمول بنائیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت، گھر کی دیکھ بھال اور آرائش، متوازن غذاؤں اور کھانے پکانے کے امور سے متعلق اہم اور بنیادی باتیں جاننے کے لیے مطالعہ اور کتابیں پڑھنے کا شوق آپ کی بنیادی ضرورت ہے۔ کاموں کو کم وقت میں بہتر و منظم انداز میں کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی فکر ہر عورت کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کاموں اور مصروفیات کے باوجود اچھی کتابیں پڑھنے کو اپنے روز مرہ کے معمول میں شامل رکھیں۔
اسی طرح ایک مسلمان عورت کے لیے سمجھ بوجھ کر، ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھنا اور حدیثِ پاک اور سیرتِ رسولؐ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ ہماری زندگی کے حسن، خوبصورتی اور کامیابی کا راز انہی چیزوں میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے اگر ہم سیلف امپرومنٹ یا شخصی ارتقاء کی بات کریں تو ان اہم باتوں کواپنی زندگی میںاپنانا نہایت ضروری ہے جو ہمارے حضور پاک نے فرمائی ہیں اور یہ چیز حاصل ہوگی کتابوں کے مطالعہ اور قرآن و سیرت پاک پڑھنے سے۔ اس لیے جہاں ہم دوسری کتابیں پڑھنے کو اپنا معمول بنائیں وہیں ان چیزوں کو بھی مطالعے میں ضرورشامل رکھیں۔
یاد رکھئے وقت ہر انسان کو دن رات میں یکساں طور پر صرف ۲۴ گھنٹے ہی فراہم کرتا ہے۔ اسی وقت کا درست استعمال کرکے لوگ تاریخ کے صفحات کی زینت بن جاتے ہیں جبکہ اکثر لوگ وقت کی کمی اور تنگی کی شکایت کرتے کرتے قبر تک پہنچ جاتے ہیں اور کوئی قابلِ ذکر کام پوری زندگی میں بھی انجام نہیں دے پاتے۔
تاریخ ہمیں بہت سی ایسی خواتین کے بارے میں بتاتی ہے، جنھوں نے اپنے گھر کی دیکھ بھال اور اولاد کی تربیت بھی بہترین انداز میں کی اور ساتھ ہی علم و ادب اور سماجی خدمت وسیاست کے میدان میںبھی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ آپ کو سوچنا ہے کہ آپ کن کی صف میں کھڑی ہو ںگی۔
——