اس شخص پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اکثر و بیشتر وہ میری طرف دیکھتا رہتا تھا۔ اس کی عمر پینتالیس سے پچاس کے درمیان ہوگی۔ ہم ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے مگر سیکشن علیحدہ تھے۔ قریباً دس گز کی دوری پر بالکل سامنے اس کی میز تھی جہاں سے وہ مجھے صاف نظر آتا تھا، ظاہر ہے میں بھی اسے نظر آتی ہوں گی۔ دفتر کے کام کے تعلق سے کبھی بھی ہمارا سابقہ ایک دوسرے سے نہیں پڑا تھا۔ کبھی کبھار ڈیپارٹمنٹ کی دوسری شوخ و چنچل لڑکیاں اس کی میز کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ کر نہ جانے کیا کیا گپ شپ کیا کرتی تھیں۔
ایم بی اے کی تعلیم مکمل کرتے ہی مجھے اس سرکاری کمپنی میں افسر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ مجھے اس دفتر میں ملازمت کرتے ہوئے صرف تین ماہ ہی گزرے تھے۔ مجھے بہت کچھ سیکھنا تھا۔ میں اپنے کام پر زیادہ توجہ دیا کرتی۔ بعض اوقات میں اپنے کام میں اتنا کھوجاتی کہ مجھے اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔ اپنے کام سے فارغ ہوجاتی اور نظریں اٹھاتی تو اچانک اس شخص پر نظر پڑجاتی تو اسے اپنی طرف گھورتا پاتی، مجھے بڑی کوفت ہوتی۔
وہ قدآور اور خوبصورت جسم کا مالک تھا۔ دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ اس سے بات چیت کرکے محظوظ ہوا کرتے۔ شاید سینئر اور تجربہ کار شخصیت ہونے کی وجہ سے بھی لوگ اس سے صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ چونکہ اکثر وہ میری طرف دیکھتا رہتا تھا اور مجھے اس کی یہ عادت پسند نہیں تھی، اس لیے مجھے اس سے نفرت سی ہونے لگی تھی۔ اس کی نیت پر بھی شک ہونے لگا مجھے۔
کئی بار میں نے سوچا کہ اپنے باس سے اس کی شکایت کردوں پھر یہ سوچ کر کہ ایک سینئر اور ادھیڑ عمر کے شخص کی شکایت کروں گی تو شاید ہی میری شکایت پر توجہ دی جائے گی۔ ہماری کمپنی کی بہت ساری شاخیں تھیں۔ سوچا دوسری شاخ میں تبادلے کی درخواست دے دوں۔ تبادلہ ملنے پر یہ روز مرہ کی کوفت سے چھٹکارہ اور ذہنی الجھنوں سے نجات مل جائے گی۔
ایک روز کینٹین میں دوپہر میں کھانے کی میز پر ہم دفتر کی سہیلیاں حسبِ معمول گپ شپ کررہی تھیں کہ پتہ چلا کہ مسٹر شامی کے دوسری شاخ میں تبادلے کے احکام آگئے ہیں۔ یہ مسٹر شامی وہی شخص تھا جو مجھے اکثر گھورتا رہتا تھا۔ یہ خبر سن کر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی۔ اپنی خوشی کا اظہار کیے بنا میں نے اپنی سہیلیوں کو آئس کریم کھلادی۔
دوسرے روز دفتر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ آج شام مسٹر شامی کو الوداعی پارٹی دی جائے گی۔ دفتر کے چند سرگرم لوگوں نے پارٹی کا نظام سنبھالا۔ ٹھیک ۴؍بجے سبھی افسران اور اسٹاف ممبران ہال میں اکٹھا ہوئے۔ مجھے بھی اس الوداعی پارٹی میں مجبوراً اور اخلاقاً اپنی سہیلیوں کے ہمراہ شرکت کرنی پڑی۔ خواتین پہلی صف میں بیٹھی تھیں۔ ہم بھی اسٹیج کے قریب پہلی صف میں بیٹھ گئے۔ حاضرین پر جب میں نے نظر ڈالی تو لوگوں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے۔ خواتین کی آنکھیں نم پائیں ایسا لگ رہا تھا کہ آنسو آنکھوں کی دہلیز پار کرجائیں گے۔ کچھ مرد بھی افسردہ تھے، ان کے چہروں پر پژمردگی چھائی تھی۔ مگر میں بہت خوش تھی۔ میری مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اچھا ہوا اس شخص کا تبادلہ ہوگیا۔ بے غیرت انسان ہمیشہ مجھے دیکھتا رہتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مجھے نجات ملی ہو، راحت ملی ہو۔
الوداعی تقریب کا آغاز ہوا تو مسٹر شامی کو کئی تحائف اور ڈھیر سارے گلدستے پیش کیے گئے۔ پھر تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اپنی تقریروں میں کئی لوگوں نے مسٹر شامی کی بے شمار تعریفیں کی، ان کی اچھائیاں بیان کی گئیں۔ ان کو مخلص، لوگوں سے پیار کرنے والا، تجربہ کار، محسن، ہر دلعزیز، بے لوث خادم و ر ہنما اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔ اس دوران مجھے بڑی کوفت ہوتی رہی مگر میں برداشت کرتی رہی۔ جی چاہا کہ میں بھی مائک پر پہنچ کر اصلیت بیان کروں۔ ابھی میں اپنے خیالوں اور اپنی سوچ میں ہی گم تھی کہ مائک پر ہمارے چیف کو تقریر کے لیے مدعو کیا گیا۔ باس نے بھی دیگر مقررین کی طرح اپنی تقریر میں مسٹر شامی کے گن گنانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے خموشی اختیار کی۔ پھر رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے: ’’آپ سب جانتے ہیں کہ مسٹر شامی کی جواں سال بچی دو سال پہلے ایک حادثے میں انتقال کرگئی۔ یہ غمزدہ باپ مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ جب میں مس ثنا کو دیکھتا ہوں تو میری بیٹی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اس کی ہر ادا میں میری بیٹی سموئی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ میری بیٹی نے مس ثنا کی صورت میں دوسرا جنم لیا ہے۔ اللہ اسے لمبی عمر دے۔‘‘
میرا دل بھر آیا اور احساسِ شرمندگی سے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
——