وہ بھی ایک ایسی ہی شام تھی، جب میں اور تارا چھم چھم برستی بارش میں اس محلے کے کونے والے مکان میں کرائے دار کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ مکان گو بہت خوبصورت نہ تھا، مگر گزارے کے لیے کافی تھا اور پھر ہماری مخصوص ضروریات کے لیے بہت مناسب۔
ان دنوں تارا الہڑ، شوخ لڑکی ہوا کرتی تھی۔ ڈھیروں کپڑوں اور زیوروں کا بے پناہ شوق رکھنے والی شوخ تتلی، ناچ کے لیے اس کا جسم بہت مناسب تھا۔
مملکت خدا داد نئی نئی تھی۔ ویسے بھی بمبئی میں اس کے چمکنے کے آثار بہت کم تھے، اس لیے میں اسے ساتھ لے کر لاہور آگیا۔
کئی دنوں کے بعد جب میں اس کے لیے ڈانس ماسٹر کا انتظار کرکے گھر لوٹا تو وہ ایک دم سے کھل اٹھی۔ اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جل اٹھے اور پھر سر شام وہ چھوٹا سا گھر گھنگھروؤں کے چھناکے سے بج اٹھا۔
اور ہاں! یہ محلہ بھی تو کچھ عجیب قسم کے لوگوں سے آباد تھا۔ چودھری کرم الٰہی، حاجی بابا، نور محمد، فضل دین آرے والا، مائی اللہ رکھی اور اس کی دو نوجوان بیٹیاں۔ بس کچھ عجیب سنکی سے لوگ تھے۔ عورتوں کو کئی کئی پردوں میں ڈھانپ کر رکھتے۔ کسی کو بھی کہیں آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ بس عورتیں کبھی کبھار دیواروں سے سر نکالے سالن یا کسی میٹھی چیز کا تبادلہ کرتی نظر آجاتیں اور بس۔
پہلے پہل تو میں نے سوچا کہ یہ جگہ میرے اور تارا کے لیے انتہائی غیر موزوں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا اثر قبول کرلے اور اس کے اندر چھپا ہوا عظیم فنکار دم توڑدے، مگر ان دنوں نقل مکانی کوئی آسان کام نہ تھا۔ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سڑکوں اور گلی کوچوں میں بکھرا پڑا تھا۔ ایسے میں یہ جگہ بھی کسی عظیم نعمت سے کم نہ تھی۔
وقت سست رفتاری سے رینگ رہا تھا اور پھر … اس دن تارا نے ابھی ڈانس شروع ہی کیا تھا۔ اس کا ماسٹر میوزک کے ساتھ ساتھ اسے ہدایات دے رہا تھا اور میں بالکل بے حس و حرکت اس کے اٹھتے ہوئے قدموں پر نظریں جمائے بیٹھا تھا کہ میرا دروازہ دھڑ دھڑ بجنا شروع ہوگیا۔ آنے والے کی بیہودگی پر کڑھتا ہوا میں دروازے تک آیا تو دیکھا کہ محلے کے لوگ غصے میںبپھرے کھڑے ہیں۔ میں نے وجہ جاننی چاہی تو وہ ایک دم پھٹ پڑے!
’’شرم آنی چاہیے تمہیں، شریفوں کے محلے میں رہنے کے آداب نہیں آتے تو اس بازار کا رخ کرنا تھا۔‘‘
’’ارے سنو، یہ شریفوں کا محلہ ہے کوئی کنجر خانہ نہیں، رہنا ہے تو شریفوں کی طرح رہو، ورنہ یہاں سے چلتے بنو۔‘‘
لوگوں کی بھنبھناہٹ بڑھتی جارہی تھی۔ آخر میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ آپ کو میری کون سی بات پر اعتراض ہے؟ تو چودھری کرم الٰہی ایک دم گرم ہوگیا:
’’تمہیں پتہ ہے ہم لوگ مسلمان ہیں، بہنوں بیٹیوں والے ہیں۔ تم اگر اس چھوکری کو ناچ گانا سکھانا چاہتے ہو تو سیدھے طریقے سے وہاں جاؤ جہاں یہ کاروبار ہوتا ہے، یہاں ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’ارے یہ پاکستان ہے پاکستان۔ تم اس کو ناپاک کرنا چاہتے ہو۔‘‘
’’یہ اس نبی ﷺ کے نام لیواؤں نے حاصل کیا ہے، جس نے طاؤ س و رباب کی محفلوں کو اجاڑ کے رکھ دیا تھا۔‘‘
’’مسلمانوں کے اس نئے دیس میں تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟‘‘
حاجی بابا نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا۔
میں نے حیران آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا۔’’سنئے بھائی! اگر آپ لوگ مسلمان ہیں تو آپ کا خیال ہے کہ میں کافرہوں۔ میں تو سات پشتوں سے مسلمان ہوں۔ جہاں تک ناچ گانے کا تعلق ہے تو وہ بچی کاشوق ہے اور میں اس شوق کو ہر طور پر پورا کروں گا۔ آپ کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کہ میں اپنے گھر میں کیا کرتا ہوں۔‘‘
مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے کہ میوزک بند کرو۔ اس وقت وہ سب لوگ متحد تھے اور میں ابھی نووارد تھا، اس لیے مصلحت کے تحت چپ رہا اور پھر دوسرے دن تارا اپنے ماسٹر کے گھر جاکر میوزک سیکھنے لگی۔
پرانا وقت اور بیتی باتیں یاد کرنے لگو تو شاید ایک لمبا عرصہ درکار ہو۔ کتنے ہی انقلابات آئے زمانے میں، زمانے کا پہیہ چکر کھاتے کھاتے ہر چیز کو پیستا چلا گیا۔ پرانی تہذیب، پرانے اصول، پرانی روایات اور پرانے بوڑھے گویا خواب وخیال ہوگئے۔
کرم الٰہی اور حاجی بابا بہت زیرک اور سخت انسان تھے۔ ان کی زندگی میں تارا کے پاس محلے کی کسی لڑکی کا آنا تو درکنار بات تک کرنا بھی ممنوع تھا۔ محلے کے لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ میں اور تارا اس محلے میں چور سے بن گئے تھے۔ میں تقریباً سارا دن گھر پڑا رہتا، تارا اپنے کام سے فارغ ہوکر آتی تو اتنی تھک چکی ہوتی کہ دو چار باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہ کرپاتی۔ کھانا وغیرہ سب مجھے پکانا پڑتا۔ ان دنوں میں جب کبھی گھر سے باہر نکلتا تو لوگ انگلیاں اٹھاتے۔ میرے اور تارا کے سائے سے بھی لوگ اپنے بچوں کو محفوظ رکھتے، اور مجھے یوں لگتا جیسے میں زندہ درگور ہوگیا ہوں۔ کبھی کبھار تارا کے ساتھ اس کے ماسٹر کے گھر چلا جاتا جہاں سارا دن ایک کونے میں پڑا رہتا۔
مگر پھر حالات آہستہ آہستہ بدلنے لگے اور گھر گھر ریڈیو بجنے لگا… ان دنوں ریڈیو اتنے عام نہیں تھے۔ تارا کو کسی نے تحفے میں چھوٹا سا ریڈیو دیا۔ میں ریڈیو پاکر بہت خوش ہوا تھا۔ اس دن میں نے گھر کو صبح ہی صبح صاف کیا تھا۔ باہر والے کمرے کا فرش دھوکر دری بچھا دی تھی۔ زندگی میں شاید پہلی بار باہر والی ساری کھڑکیاں کھول دی تھیں۔ ریڈیو پوری آواز سے لگا کر میں آرام کرسی سے سرٹکائے منتظر نگاہوں سے سامنے والے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا… یوں جیسے آج پھر کسی کا انتظار ہو۔ میرا خیال تھا کہ لوگ آج پھر مجھے ٹوکیں گے، کوسیں گے، محلے سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں گے۔
تارا تو رات کو گھنگھرو باندھتی تھی، مگر اب ریڈیو سارا دن ہی بجتے رہتے تھے۔ اور آج میں بھرا بیٹھا تھا… میں ان کو بتا دینا چاہتا تھا کہ کوئی نرالی بات تو نہیں کررہا ، اب تو ہر گھر سے ریڈیو کی آواز آتی ہے! لیکن خلافِ توقع کوئی بات نہ ہوئی۔ لوگ جھجکتے جھجکتے اندر آنے لگے پھر تو یوں ہونے لگا کہ محفلیں گئی رات تک جمی رہتیں… اونچے بلند قہقہے لگائے جاتے۔ جس چیز نے ہمارے درمیان دیوار کھڑی کی تھی اسی نے یہ دوریاں اس حد تک ختم کردیں کہ کوئی فاصلہ نہ رہا۔
اصل میں چودھری کرم الٰہی اور اس کی پارٹی کے لوگ کمزور ہورہے تھے۔ نئی نسل جوان ہورہی تھی… یہ لوگ تعلیم یافتہ اور بہ زعم خود مہذب تھے۔ یوں ہوا کہ چودھری کرم الٰہی کے اٹھ جانے کے بعد تارا کا محلے میں آنا جانا آسان ہوگیا۔ حال یہ ہوگیا کہ جونہی تارا گزرتی، محلے کی لڑکیاں کھڑکیوں سے لٹک جاتیں اور بڑے فخریہ انداز سے اپنی ہمجولیوں کو بتاتیں… ارے وہ مشہور ڈانسر تارا ہے نا! اپنے گھر کے پاس ہی رہتی ہے۔ بس بڑی دوستی ہے اس سے۔
٭٭٭
زمانہ دیکھتے دیکھتے بدل رہا تھا… تارا نے اپنی گاڑی خرید لی۔ یہ اس محلے میں پہلی گاڑی تھی۔ اس دن سب محلے داروں نے کیسی رشک کی نگاہوں سے ہمیں دیکھا تھا… انسان کو جانچنے کے معیار بدل رہے تھے… یہاں تک کہ محلے والے بھی اپنی روایات کے خول سے باہر نکلنے لگے۔ چودھری کرم الٰہی کی پوتیاں کالجوں میں پہنچ گئیں… محلے کی دوسری لڑکیاں بھی تعلیمی اداروں میں جانے لگیں۔ اب تارا ان سب کی آئیڈیل بن چکی تھی۔ اس دن تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب چودھری کرم الٰہی کی بیٹیاں تارا سے میک اپ کروانے آئیں۔ ان کے کالج میں کوئی فنکشن تھا… ننگے شانوں، اور ننگے سرمیک اپ میں ساڑھیاں سجاتی لڑکیاں تارا سے کسی طور کم نہ لگ رہی تھیں… میرے کانوں میں ان کے دادا کے الفاظ گونجنے لگے: ’’سنو! یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ یہاں مسلمان بہو بیٹیاں رہتی ہیں۔‘‘
’’ارے تارا! تو نے انہیں بالکل اپنے جیسا بنادیا ہے۔‘‘ میرے لہجے میں طنز کی گہری کاٹ تھی مگر وہ اپنی تعریف پر پھولے نہ سمارہی تھیں۔
قدریں بدلتی گئیں اور ترقی پذیر ملک ترقی کی جانب ایک قدم اور آگے بڑھا… تارا بڑا سا ٹیلی ویژن اٹھالائی۔اس دن سے گھر میں غیر معمولی چہل پہل رہنے لگی۔ لوگ ’’فن اور کلچر‘‘ سے آشنا ہونے شروع ہوگئے… دن ڈھلتے ہی جوان، بوڑھے اور لڑکیاں بالیاں آجاتیں۔ ہر ایک کو بولتی ہوئی تصویریں دیکھنے کا شوق تھا… ہر کوئی تصویر کی طرح بننے کی پوری کوشش کرتا۔
تارا کو بھی ٹیلی ویژن میں چانس مل گیا… تنخواہ معقول تھی۔ اور عزت اور شہرت کی کوئی انتہا نہ تھی… تارا کی واپسی کے ساتھ ہی لوگ آٹو گراف کے لیے بھاگے چلے آتے… اور وہ دستخط کرتے کرتے تھک جاتی… اور ہاں! یاد آیا حاجی بابا کا بڑا بیٹا، جو بہت بڑا سرکاری آفیسر تھا، اس دن ’’کلچرل شو‘‘ میں آیا تھا! تارا وہاں مہمان خصوصی تھی… کیسا بچھا جارہا تھا، بے چارا کہہ رہا تھا… ’’جگہ جگہ کلچرل سینٹر قائم کیے جارہے ہیں۔ حکومت بذاتِ خود بہت دلچسپی لے رہی ہے۔ آخر کیوں نہ ہو کہ ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ ملنے کے لیے ہمیں ہر گھر سے فنکار مہیا کرنے چاہئیں۔ اور اس میں مشکل ہی کیا ہے؟ فنکار تیار کرنے کے لیے نفسیاتی بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔ ایک ایک بچے کی ٹریننگ پر اتنا وقت اور پیسہ صرف کیا جارہا ہے۔ بازاروں، ہوٹلوں اور گلیوں، حتی کہ بسوں میں فلمی ریکارڈ، ان میں میوزک کا شوق ابھارنے کے لیے دن رات پوری آواز سے بجتے رہتے ہیں… ٹی وی پر ملکی اور غیر ملکی فلموں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔ اونچے طبقوں کے لیے ہوٹلوں میں ’’ثقافت‘‘ کو نمایاں کرنے کے لیے خاص پروگرام ہوتے ہیں … سنیما ہال دن رات قوم کی تعمیر میں مصروف ہیں… اس کے باوجود ابھی وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے جن کے حالات متقاضی ہیں۔ اس قوم کی ترقی کی راہ میں چند ایک رجعت پسند حائل ہیں، ان کو ہٹانا پڑے گا۔‘‘
میں حیرانی سے اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا: ’’سنو برخوردار! روم ایک دن میں نہیں بس گیا تھا۔ تم حالات سے مایوس کیوں ہو؟ جانتے ہو تمہارے خیالات تمہارے باپ دادا سے کتنے مختلف ہیں؟ اور تمہارے بچوں کے خیالات تمہارے خیالات سے کتنے آگے ہوں گے؟‘‘
میری باتیں سن کر وہ حاجی بابا ٹائپ نوجوان جانے کدھر سے آگیا جس کی آنکھوں میں کچھ عجیب سا تاثر تھا۔ ہلکی سی بے بسی لیے ہوئے، ٹوٹتی آرزوؤں اور کھوئی ہوئی منزلوں کی ساری حسرتیں لیے ہوئے۔ وہ ایک دم سے بپھر گیا… ’’تمہیں ایک فنکار قوم ہی چاہیے نا … سو تم بالکل ٹھیک راہ پر جارہے ہو اور تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہاری راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں… ارے یہ ثقافتی انقلاب جس پر کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں، اگر اس پسماندہ ملک کی صنعت پر خرچ کیے جاتے تو آج یہ جاپان کے ساتھ آنکھیں ملا سکتا تھا… اگر زراعت پر خرچ کیے جاتے تو اپنے جتنے کتنے ہی ملکوں کو اناج مہیا کرسکتا تھا … اور اگر تعلیم ٹھیک بنیادوں پر دی جاتی تو …
تارا نے اس کی بات کاٹ دی: ’’یہ روٹی کپڑا اور مکان تو دے گی حکومت، رہ گئی تعلیم تو یونیورسٹیوں اور اسکولوں، کالجوں میں جانے کی اب کیا ضرورت ہے۔ وہاں مہذب بننے کے طور طریقے ہی سکھائے جاتے ہیں نا، تو اب یہ لوگ ٹی وی سے سیکھ لیا کریں گے۔ جہاں لباس، انداز گفتگو، رقص ، مخلوط محفلوں کے آداب سب کچھ ہی تو سکھادیا جاتا ہے۔‘‘
اور آج ویسی ہی چھم چھم کرتی برسات کی شام ہے۔ سارے محلے کی لڑکیاں تارا سے ڈانس سیکھ رہی ہیں۔ اور آج چودھری کرم الٰہی کی آنکھوں میں شکست کے آثار صاف نظر آرہے ہیں … ارے سنو، کرم الٰہی! تم ایک تارا کو اپنی راہ سے نہ ہٹاسکے اور اس نے تم سب کو اپنی راہ بدلنے پر مجبور کردیا… تمہاری تربیت اور میری تربیت میں کتنا فرق تھا… تم نے مدرسوں پر اعتبار کیا… میں نے اپنے اصولوں کی، اپنے فن کی اسے خود تربیت دی… میں نے اسے انگلی پکڑ پکڑ کر خود چلایا، میں نے اپنا ایک ایک اصول اسے منتقل کیا اور تمہارے اصول تمہاری ذات کے ساتھ ہی ختم ہوگئے … تم انہیں اپنی نسلوں میں منتقل نہ کرسکے… کیا یہ بات تو نہیں کہ تم خود بھی ناپختہ تھے؟ کیا یہ تو نہیں کہ تمہارا دین فقط نماز روزے تک تھا جو تمہارے ساتھ ہی ختم ہوگیا؟
اور تم بھی سنو حاجی بابا! اگرچہ نام تمہارا بھی مسلمانوں کی فہرست میں ہے مگر زندگی میں ہماری راہیں ہمیشہ جدا رہیں… تم میں کچھ خوبیاں ضرور تھیں کہ تم اپنے نظریے کے پکے تھے، مگر بابا! تمہارے اندر اپنے مقصد کی وہ تڑپ وہ لگن نہ تھی جو میرے اندر تھی … سو تم مٹ گئے، ختم ہوگئے اور ہم باقی رہ گئے۔ تم ہمیں زندگی میں برا سمجھتے رہے۔ تمہاری مرضی، مگر ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے کہ منزل سے نا آشنا قدم، مقصد سے بے پروا ذہن اور جذبہ صادق کے بغیر دھڑکتا دل کسی طور بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔
تو آؤ سنو، چھن چھن چھن کی یہ آواز۔ ان میں تمہاری آنے والی نسلوں کی آوازبھی سنائی دے رہی ہے۔ حاجی بابا! اس بحث سے قطع نظر کہ مقصد تمہارا عظیم تھا یا میرا، تم نے محض آرزو کی اور میں نے عمل۔ میں نے اپنی متعین راہ پالی اور تمہاری تو شاید کوئی واضح منزل ہی نہ تھی… تم پیچھے رہ گئے، مٹ گئے۔ آؤ، اب خود اپنی نسلوں کو منع کرجاؤ کہ تمہاری طرح محض آرزوؤں کے سہارے ہی نہ بیٹھی رہیں… ورنہ وہ میرے اور تارا کے وجود میں جذب ہوتے جائیں گے۔ ان کی اپنی علیحدہ ہستی ختم ہوجائے گی۔ آؤ! تم بھی دیکھو، یہ فنکاروں کی ابھرتی ہوئی قوم، یہ ناچ گانے کی رسیا نئی نسل، یہ کلچر اور تہذیب کے نام پر بننے والے ناچ گھر، ان میں میری تارا تو نہیں ناچے گی، ان میں میری اور تمہاری سب کی بیٹیاں ناچیں گی۔
اور دیکھو! مسلمان تو ہم ہیں ہی… یہ مسلمانی ہم سے کون چھین سکتا ہے… اس سے اسلام کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔… یہ ثقافت کوئی اسلام کی دشمن تھوڑی ہے … یہ تمہاری نماز روزے اور حج سے منع تو نہیں کرتی۔ لو بھئی چودھری اور حاجی بابا آج تمہاری ہار ہوگئی۔ مان گئے ہونا ۔
اب تمہاری بچیاں واپس گھر جارہی ہیں… باہر اندھیرا بڑھتا جارہا ہے۔ میں ذرا انھیں راہ دکھادوں کہ تمہارا اور میرا پرانا یارانہ تھا…
——