تک تبلیغی جماعت سے ریاست تامل ناڈو میں کوئی متعارف نہیں تھا۔ اس وقت بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی سے منشی اللہ داتا اور ان کے ایک ساتھی مدراس آئے۔ ریاست میں ان کے پیشِ نظر تبلیغی کام کے نفوذ کی راہیں تلاش کرنا تھا۔ مدراس کی ایک مسجد میں چھوٹا سا اجتماع ہوا جس میں اس مسئلہ پر غوروفکر ہوا۔ اس مجلس میں میں بھی شامل تھا۔
گفتگو کے بعد طے ہوا کہ ریاست کے مرکزی مقام کا انتخاب کیا جائے جہاں سے لوگ ریاست میں ہر طرف پھیل سکیں۔ اس مسئلے پر غورکرنے کے بعد ڈینڈیکل مقام کا انتخاب ہوا۔
وہاں پہنچ کر چند دن قیام کرکے تبلیغی جماعت کے لیے افراد کو تلاش کرنا اور اس کو تامل ناڈو کا مرکز بنانا طے ہوا۔ اس پر حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ وہاں لوگ بہت کم اردو جانتے ہیں۔ عام طور پر تمل بولی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی بھی مادری زبان تمل ہے۔ شمال سے آئے ہوئے یہ بزرگ کس طرح تبادلۂ خیال کریں گے؟
منشی اللہ داتا نے جواب دیا: ’’یہ بات معقول ہے مگر اس کا حل یہاں بیٹھ کر بحث و مباحثے سے نہیں ہوگا۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا چاہیے۔ وہاں کے حالات دیکھنے کے بعد خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اے اللہ! تیرے دین کی تبلیغ کی خاطر ہم یہاں پہنچے ہیں اور ہمارے پاس جو کچھ صلاحیتیں تھیں، جو کچھ قوت تھی اس راہ میں لگادی۔ لیکن ہم اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی سے قاصر ہیں، خدایا! جو اجنبی زبان ہے یا تو اس میں بولنے کی ہمیں صلاحیت فرما یا پھر ایسے معاون عطا فرما جن کے ذریعے ہم اپنی بات یہاں کے لوگوں تک پہنچاسکیں تو اس وقت امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ کی نصرت و رحمت ہمارے ساتھ ہوگی۔ یہاں بیٹھے بیٹھے بحث و مباحثہ کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔‘‘
ان حضرات کا خلوص تھا، کہ وہ گئے، دعائیں کیں اور کوششیں کیں۔ آج ریاست تمل ناڈو کا کوئی چپہ ایسا نہیں ہے جو تبلیغی جماعت کے کام سے متعارف نہ ہو۔
ایمرجنسی کے سیاہ دور کے بعد ۱۹۷۷ء میں جماعت اسلامی ہند پر عائد پابندی ختم ہوئی تو ہم لوگ جیل سے رہا ہوئے۔ باہر آنے کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ جنوب کے بعض اضلاع میں لوگ نسبتاً زیادہ تعداد میں اسلام قبول کررہے ہیں اور ادھر چند برسوں میں اس میں مزید تیزی آئی ہے، لیکن اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی نظم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم کیا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ اس پر رہ نمائی حاصل کرنے اور مرکز کا تعاون لینے کے لیے اس وقت کے امیر حلقہ جناب اعجاز اسلم صاحب نے مجھے مرکز روانہ کیا۔
مرکز میں اس وقت مولانا سید حامد علی صاحبؒ مرحوم دعوتی کاموں کے انچار ج تھے۔ میں نے ان سے ملاقات کی۔ یہاں کی صورت حال سے انھیں واقف کرایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ آئیں اور جائزہ لیں اور اس سلسلے میں کچھ منصوبہ بنانے میں ہماری مدد فرمائیں۔
مولانا حامد علی صاحبؒ نے کہا: یہ تو دور دراز کاعلاقہ ہے اور پھر تم کہتے ہو کہ جنوبی اضلاع میں یہ کیفیت پائی جاتی ہے وہاں لوگ صرف تمل سے واقف ہیں تو میرے وہاں آنے سے کیا فائدہ ہوگا؟
۱۹۵۱ء میں منشی اللہ داتا نے جو بات کہی تھی اور جس قسم کا عزم کیا تھا، میں نے اس واقعے کو سنایا اور مولانا سے عرض کیا کہ دہلی میں بیٹھ کر بحث و مباحثے سے کوئی بات نہیں بنے گی، آپ آئیں اس مقام تک اور وہاں کے حالات دیکھیں اور وہاں بیٹھ کر خدا سے دعا کریں تو اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔
مولانا کو یہ بات پسند آئی وہ آنے پر رضا مند ہوگئے۔ اس کے بعد مولانا سید حامد علی صاحبؒ اور یہاں کے مقامی ساتھیوں نے ان اضلاع کے کئی دورے کیے اور تربیت گاہ بنانے کا ایک خاکہ بنایا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ بیس پچیس روپے کرائے پر لے کر دوچار نومسلم بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا کورس شروع کردیا گیا۔ آج الحمد للہ اس سینٹر سے تقریباً چار ہزار افراد تربیت پاچکے ہیں جنھوں نے آگے چل کر اعلیٰ دینی مدارس سے عالمیت اور فضیلت کی سندیں حاصل کرلیں اور بعض نے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے دیہات ہیں جہاں دین حق کی دعوت دی گئی ہے اور لوگوں نے اس کو قبول کیا ہے۔
مولانا سید حامد علی صاحب اور اس کام میںابتدا میں ساتھ دینے والے ساتھیوں کا اخلاص اور محنت اور اپنے پاس جو کچھ ہے، اس کو اس راہ میں لگانے کے بعد خدا سے دعا کرنے کانتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔
میں غیر مسلم بھائیوں کے درمیان دعوت کو پیش کرنے کی جو جھجک ہم میں پائی جاتی ہے، وہ بلاشبہ ہمارے ماضی کی تاریخ کا ورثہ ہے اور فطری ہے۔ لیکن اس کا علاج صرف اور صرف یہی ہے کہ جہاں ہم کھڑے ہیں وہاں سے دو قدم آگے بڑھیں توہم دیکھیں گے کہ اللہ کی مدد ان راہوں سے بھی آئے گی جہاں سے مدد ملنے کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے:
ومن یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجاً و یرزقہ من حیث لا یحتسب۔
’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘
——




