حجاب کے نام،!

شرکاء

مسلم خواتین کی سماجی صورت حال
حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ (ماہ اکتوبر) گلدستہ کی صورت میں موصول ہوا۔ یہ رسالہ واقعی ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس میں مختلف قسم کے خوبصورت پھول مضامین کی صورت میں لگے ہوتے ہیں۔ محترمہ عظمیٰ ناہید کا مضمون پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ایسی تلخ حقیقت کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ اگر کوئی دوسرا یہ کہتا تو شاید ہم یقین نہ کرپاتے۔مگر ہمارے یقین کرنے نہ کرنے سے ’حقیقت‘ کے حقیقت ہونے پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان کا یہ مضمون مسلم خواتین کی صورت حال کے جن گوشوں کو اجاگر کرتا ہے ان پر ملت کی ہوش مند خواتین کو پورے ہوش کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور صرف غوروفکر ہی نہیں بلکہ فکر کو فعالیت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندی وانگریزی اخبارات و رسائل میں آئے دن فعال خواتین کے انٹرویوز اور ان کی کوششوں کی رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ایک نیم خواندہ سی تنہا دیہاتی عورت نے پورے پورے گاؤں کے لوگوں میں تعلیم و صحت کے میدان میں انقلاب برپا کردیا۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر کے دیہی قبائلی علاقوں میں ایسی کئی خواتین زبردست جدوجہد میں مصروف ہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ آدی باسی عورتوں میں اور گاؤں دیہات کی خواتین تک میں زندگی کی لہر دوڑنے لگی ہے مگر ایسا کیوں ہے کہ مسلم معاشرہ کی خواتین جو تعلیم وثقافت کے میدان میں ان سے کہیں آگے ہیں آخر عملی میدان اور فعالیت (ایکٹوزم) میں ان سے بھی پیچھے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس میں مسلم سماج کی خواتین کی بے حسی کو دخل ہے یا اسلام کی تعلیمات اس کی ذمہ دار ہیں۔
عظمی ناہید صاحبہ تو ممبئی جیسے عالمی سطح کے شہر کا تجربہ بتاتی ہیں کیونکہ وہ اسی معاشرہ میں کام کرتی ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے تصور کیا ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معمولی سا محض چند روایات کا فرق ہے وہاں ان کی حالت کیا ہوگی۔ میں ایک ایسی مسلم فیملی کو جانتی ہوں جس میں دو سگی بہنیں ایک ہی شوہر کی بیوی بن کر رہ رہی ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ اسلام کی رو سے یہ حرام ہے۔ اللہ رحم کرے۔ بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ خداکرے کہ مسلم سماج میں قدم قدم پر عظمیٰ ناہید جیسی خواتین پیدا ہوجائیں۔
حبیبہ خاتون، چتی پورہ، مدھیہ پردیش (مقیم حال ممبئی)
ہماری حالت زار
ماہ نومبر کا حجاب بہت پسند آیا۔ ٹائٹل سے لے کر مضامین تک۔ مولانا آزاد کی تحریر ’صدائے دل‘ ایسا معلوم ہوتا ہے بس آج کے حالات پر لکھی گئی ہے اور ابھی تازہ ہے۔ انھوں نے جب کہا کہ: ’’موجوہ مصائب نے بالخصوص مسلمانانِ ہند کے دلوں پر اضطراب طاری کردیا ہے۔‘‘ تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے انھوں نے گجرات، مہاراشٹر اور دہلی میں مسلم نوجوانوں کے قتل و گرفتاریوں سے متاثر ہوکر لکھی ہو۔
ہو بہ ہو میںدونوں مضامین کا انتخاب بہت خوب ہے۔ دراصل ہم مسلمانانِ ہند یا تو اتنے سیکولر ہوگئے ہیں یا اتنے بزدل کہ حقیقت کے اظہار تک سے خوف کھاتے ہیں۔ بھلا ہو اس ملک کے انصاف پسند اور حق پسند غیر مسلم بھائیوں کا جو مسلم لیڈران سے کہیں زیادہ جوش و جذبہ اور ایمانداری کے ساتھ حق و انصاف کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے انتشار، آپسی رسہ کشی اور مفاد پرستی نے تو ہمیں کسی لائق نہیں چھوڑا۔ ہم کمزوروں اور دبے کچلے لوگوں کی جنگ تو کیا لڑتے خود اپنی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔ مگر حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ وقت کا پہیہ مستقل گھوم رہا ہے۔ گردش شام و سحر جاری ہے۔ ابھی اندھیرا معلوم ہوتا ہے مگر سویرا بھی ایک روزیقینا ہونا ہے۔
گہرا ہوا ہے رنگ اندھیروں کا جب حفیظ
امکاں روشنی کے بھی روشن بہت ملے
ضرورت صرف شعوری جدوجہد اور مسلسل کوشش کی ہے۔
وصی احمد ندوی، وارانسی
مضامین اچھے ہیں
حجاب صحیح وقت پر مل رہا ہے۔ اداریہ بہت پسند آیا۔ میں خود بھی پڑھتی ہوں اور دوسری بہنوں کو بھی خاص طور سے پڑھواتی ہوں۔ ویسے حجاب کے سارے مضامین بہت ہی اچھے ہیں۔
ہم پانچ نومبر کو حج کے لیے روانہ ہورہے ہیں۔ حجاب ترقی کرے میری دعا ہے اور ساتھ ہی آپ تمام حضرات جو بھی مجھے جانتے ہیں۔ ان سے میں معافی چاہتی ہوں۔ شاید کبھی غلطی ہوئی ہوگی۔ اور انشاء اللہ آپ تمام کے لیے دعائے خیروں گی۔
پیکرؔ سعادت معز، ہمنکنڈہ، ورنگل
]پیکر صاحبہ! حج کا سفر مبارک ہو۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حج مبرور و مقبول سے نوازے اور بہ خیروعافیت واپس لوٹیں۔ آمین![
حجاب میری ضرورت بن گیا ہے
میں حجاب اسلامی کی ایک نئی قاری ہوں۔ مطالعہ کرنا میرا شوق رہا ہے لیکن جب سے میں نے حجاب اسلامی کا مطالعہ شروع کیا ہے میرا یہ شوق میری ضرورت بن گیا ہے۔
ماہ اگست میں ’’کرائے کی کوکھ‘‘ مضمون پڑھ کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ جدید اور تعلیم یافتہ دور کے دانشوروں نے عورت کوذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین اپنی ذلت اور توہین کو ایک نایاب تحفہ سمجھ کر تسلیم کرتی جارہی ہیں۔ ستمبر کے شمارے کے سبھی مضامین پسند آئے۔ ’’ہوشیار!… ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ بے حد پسند آیا ۔
شرمین طالب، مراد پور ، غازی آباد
مضامین بہت خوب ہیں
حجاب اسلامی اکتوبر ۲۰۰۸ء کا شمارہ میرے ہاتھ میں ہے۔ عمدہ سرورق اور سبھی مستقل کالم کے مضامین بہت خوب ہیں۔ تذکیراور اداریہ معلوماتی اور فکر انگیز ہے۔ محترمہ صائمہ پروین کا مضمون ’’بندئہ مومن کی خوبیاں‘‘ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دیر سے حرم کو کالم میں سابق مصری اداکارہ حنان ترک کا تذکرہ ’’ پردہ میری زندگی سے الگ نہ ہونے والا حصہ ہے‘‘ غوروفکر کے لائق ہے۔
مستحق الزماں خاں، محی الدین نگر،(بہار)
حجاب پسند آیا
اپنے ایک رشتے دار کے ذریعے ’حجاب‘ موصول ہوا۔ انھوں نے میری دختر کے نام سے یہ رسالہ جاری کروایا ہے۔ پہلی بار حجاب (اگست ۲۰۰۸ء) پر نظر ڈالی۔ چند مضامین پڑھنے پر شوق میں اضافہ ہوا اور تقریباً سبھی مضامین پڑھ ڈالے۔ خصوصاً تنظیمہ پٹیل کا انٹرویو، ان کی پیاری پیاری دلکش باتیں بہت بھلی لگیں۔ ویسے سبھی مضامین اچھے ہیں۔
سوچا حجاب کی محفل میں، میں بھی شریک ہوجاؤں۔ اسی لیے ایک کہانی ’’سوچ‘‘ کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔ حوصلہ افزائی ہونے پر مزید کہانیاں ارسال کروں گا۔ انشاء اللہ
شمیم ادھیکاری، پنویل، رائے گڑھ
]شمیم صاحب! حجاب آپ کو پسند ہے اسے ہم اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ آپ کی کہانی شامل اشاعت ضرور ہوگی۔ آپ اپنی کاوشیں ہمیں مسلسل ارسال کرتے رہیں۔ اور … اور حجاب کو بہتر بنانے کے لیے اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہیں۔[
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146