پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
لیجیے عیدالاضحی بھی رخصت ہوئی۔ ان خوش نصیبوں کو مبارک باد جنھیں اللہ تعالیٰ نے حج کی توفیق دی۔ اب آپ اپنے ششماہی امتحان سے بھی فارغ ہوگئی ہوں گی۔ ممکن ہے سردی کی چھٹیاں بھی ختم ہوگئی ہوں۔ یہاں دہلی کے موسم کے مطابق تو سردی کی چھٹیاں اب شروع ہوں گی۔ البتہ ششماہی امتحان کا نتیجہ اکثر اسکولوں میں آچکا ہے۔ امید ہے کہ آپ حضرات کو بھی مل گیا ہوگا۔
یہ ششماہی امتحان ایک ٹسٹ ہے جس کے نتیجے سے آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس آدھے تعلیمی سال میں آپ نے کتنی محنت کی اور آئندہ سالانہ امتحان کے لیے آپ کمر بستہ ہوکر تیاری کریں۔ یہ امتحان ان بھائی بہنوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جو پڑھنے لکھنے میں دل نہیں لگاتے اور سستی کاہلی میں وقت برباد کردیتے ہیں۔ ایسے بہن بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اب بھی بیدار ہوجائیں کیوںکہ ان کے پاس ابھی چار ماہ کا وقت ہے۔ اور اس چار ماہ کی مدت میں اگر وہ چاہیں تو یکسوئی اور دل لگاکر پڑھائی کرنے کی صورت میں اچھی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔
یہ شمارہ جنوری کا شمارہ ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک سال قیمتی زندگی کا ختم ہوا اور نئے سال میں ہم داخل ہوگئے۔ اس نئے سال کی آمدپر ہم اپنے بہنوں بھائیوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ نیا سال ہمارے آپ کے لیے، ہمارے ملک کے لیے اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے خیروبرکت کا سال ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں، ہمارے وطن کو اور تمام انسانوں کو آزمائشوں اور فتنوں سے محفوظ رکھے اور امن و امان سے ہمکنار کرے۔ آمین!
پیاری بہنو اور بھائیو! ہم آئے دن خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ بم دھماکوں، قتل و خون اور دہشت گردی کی خبریں ٹی وی پر بھی چھائی رہتی ہیں اور اخبارات میں بھی۔ معلوم نہیں کون لوگ ہیں جو معصوم اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں وہ مسلمان ہیں۔ پتہ نہیں وہ کیا ہیں لیکن ان کا مسلمان ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک ایمان والا آدمی اور قتل و خون دونوں دور کی چیزیں ہیں۔ ہمارا دین توامن اور بھائی چارہ سکھاتا ہے، انسانوں سے محبت کرنا سکھاتا ہے اور انسان تو کیا جانوروں تک پر ظلم کرنے سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے فرمایا: ’’جس نے کسی ذی روح کو بلاوجہ یا زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ رکھا (بچالیا) گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔‘‘
مار دھاڑ، جبر اور زبردستی کے ذریعے دنیا میں کوئی مفید اور صالح اور پائیدار تبدیلی لانا ممکن نہیں اور اگر طاقت کے بل پر آبھی جائے تو انسان اسے دل سے قبول نہیں کریںگے اور موقع پاتے ہی بھاگ نکلیں گے۔ اس لیے ہمیشہ صحیح سمت میں سوچنا چاہیے اور ہم جو کچھ چاہتے ہیں اس کے حصول کے لیے صرف تعمیری راستے ہی اختیار کرنے چاہئیں۔ ضرورت ہے کہ اس حقیقت کو ہم خود بھی سمجھیں اور دوسرے انسانوں کو بھی بتائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
مریم جمال