پیاری بہنو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
تمام بہنوں اور بھائیوں کو نیااسلامی سال 1430ہجری مبارک ہو اور ساتھ ہی فرنگی سال 2009بھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ نیا سال ہماری زندگیوں میں نیکیوں کا ذریعہ بن جائے — اور — یہ نیا سال مظلوم، بے بس اور بے حس امت کے لیے زندگی، احساس و شعور اور مظلومیت سے نجات کا پیعام لائے۔ نیا سال جی ہاں نیا سال 2009جس کا پوری دنیا نے ’ہیپی نیو ایئر‘ کہہ کراستقبال کیا ہے۔
یہ سال کیا ہے کبھی آپ نے سوچا؟ جی ہاں وقت کو ناپنے کا ایک پیمانہ۔ پلک جھپکنے میں کتنا وقت لگتا ہے ایک سکنڈ سے بھی کم۔۶۰ سیکنڈ جب گزر جاتے ہیں تو ایک منٹ بنتا ہے۔ ایک منٹ جتنی دیر میں گھڑی کی باریک سوئی ایک چکر پورا کرتی ہے پھر وہ جب ۶۰ چکر لگالیتی ہے تو ایک گھنٹہ مکمل ہوتا ہے اس طرح ۲۴ گھنٹوں میں دن رات مکمل ہوجاتے ہیں۔ ذرا آپ اپنے چوبیس گھنٹوں پر نظر ڈالیے، آپ نے اس دوران کیا کیا۔ کتنا وقت کس کام میں لگایا، اس کے بعد دیکھئے یہی ۲۴ گھنٹوں کا چکر ۳۶۵ دور پورے کرلیتا ہے تو ایک سال مکمل ہوجاتا ہے۔ اور پھر اگلے دن ہم لوگوں کو نئے سال کی مبارک باد دیتے ہیں۔ انسان کی زندگی بھی انہی سالوں سے ناپی جاتی ہے۔ پچھلے سال دادا جان ۷۲ سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ اب پا پا کی عمر ۴۸ سال ہوگئی ہے، کیونکہ پچھلے ہی ہفتے ان کا برتھ ڈے منایا گیا تھا۔ اور آپ؟ جی ہاں آپ کی عمر بھی گیارہویں سال میں چل رہی ہے اور بڑی باجی کی عمر تو سترہویں سال میں ہے۔
کچھ سمجھا آپ نے پچھلے سال دادا جان ہمارے درمیان میں تھے مگر اب نہیں ہیں۔ محلے پڑوس کے اور بھی کئی لوگ رخصت ہوگئے کیونکہ ان میں سے کوئی ۶۰ کوئی ۷۰ اور کوئی ۸۰ سال کو پہنچ گیا تھا۔ وہ بتولن کا لڑکا تو صرف ۲۶ سال ہی کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ یعنی … عمل کی مہلت ختم ہوگئی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہی زندگی جسے ہم پلک جھپکنے کی مدت سکنڈ، منٹ، گھنٹے اور دنوں و سالوں سے ناپتے ہیں۔ آخر کار ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ختم ہوجاتی ہے۔ زندگی ختم ہوگئی۔ کچھ نہ کرسکے ساری عمر یوں ہی گنواں دی۔ یہ باتیں خوب سننے میں آتی ہیں۔ عمر گنوا دی، کیسے؟ جی ہاں یہی پلک جھپکنے کی مدت،ء منٹ اور گھنٹے یوں ہی گپ شپ اور کھیل تماشے میں صرف کردیے ،ایک ایک کرکے تمام ۳۶۵ دن اسی طرح گزرے تو پورا سال ختم اور چند سال اسی طرح اور گزرگئے تو عمر تمام۔ اب پچھتانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
نئے سال کا اسی فکر کے ساتھ اگر ہم استقبال کرتے ہیں تو یقینا وقت کی قیمت کو سمجھ لیں گے۔ ورنہ ’ہیپی نیو ایئر‘کہنے کی رسم تو کروڑوں لوگ ادا کرتے ہی ہیں پھر ہم میں اور ان میں فرق کیا رہا؟ ذرا غور کیجیے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
آپ کی بہن
مریم جمال