شام کے سرمئی آنچل پہ گھٹا بکھری ہے
روشنی دست و گریبان ہے تاریکی سے
رات کے آنے میں باقی ہیں ابھی کچھ گھڑیاں
آؤ اس لمحۂ فرصت کو فروزاں کرلیں
تیرگی بڑھنے کے پہلے ہی چراغاں کرلیں
شب گزرنی ہے تو کچھ اس کا بھی ساماں کرلیں
دل کے زخموں کو گنیں، درد کا عنواں کرلیں
کون سا زخم کہاں، کس سے ملا، کیسے ملا
ایک اک زخم سے وابستہ ہیں یادیں کتنی
کہکشاں ٹوٹ کے کب بکھری مری پلکوں پر
کب چھوا وقت کی ناگن نے تمنا کا بدن
کس طرح درد بنی پیار کی پرکیف چبھن
زندگی بچھڑی ہے کس موڑ پہ اندازہ کریں
کیسے ویران ہوئی خوابوں کی بستی سوچیں
ایک اک یاد سے پُر کرلیں تصور کے ایاغ
خود کو مصروف رکھیں، درد بڑھے، رات ڈھلے
جھلملانے لگیں امید کی راہوں کے چراغ
آج کی شب ہو مداوا یہی تنہائی کا!!