قصور وار؟؟

نکہت ظہیر

تانیہ کا تعلق ایک انتہائی امیر اور ماڈرن گھرانے سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کی ماما حقوقِ نسواں کی تنظیم کی رکن تھیں۔ان کی تحریریں اور تقریریں مساواتِ مردو زن کے لیے ہوتی تھیں۔ وہ خود عورت اور مرد کے فرق کی بالکل قائل نہیں تھیں۔ اس کے پاپا اس معاملے میں ماما سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔
غرض وہ ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھی تھی جو کہ بہت آزاد اور روشن خیال تھا۔ یہ خیال بھی اس کے ذہن میں رچا بسا ہوا تھا کہ وہ بھی مردوں کی طرح مضبوط ہے۔ ان سے کسی طرح بھی کمزور یا کمتر نہیں۔ اور وہ ہر کام کرسکتی ہے جو کہ مرد کرتے ہیں۔
اس کے پاپا نے اس کو جوڈو کراٹے بھی سکھائے تھے اور خواتین کو خود حفاظتی تراکیب سکھانے والے متعدد تربیتی کیمپوں میں بھی وہ شریک ہوکر سرٹی فیکٹ لے چکی تھی۔
…٭…
آج شہلا کی سالگرہ تھی۔ اس نے اپنی تمام سہیلیوں کو مدعو کیا تھا۔ وہ سبM.B.A سال دوم کی طالبات تھیں۔ شہلا کی سالگرہ کے لیے تانیہ نے خصوصی تیاری کی تھی۔ اس نے سرخ رنگ کے چھوٹے سے جھلملاتے ہوئے بلاؤز کے ساتھ کالے رنگ کی پینٹ پہنی تھی۔ اس کے ساتھ اس نے کھنکتی ہوئی بڑی بڑی مصنوعی جیولری بھی پہنی تھی۔ فل میک اَپ کے ساتھ زلفیں کھلی ہوئی تھیں۔ خوشبو میں بسا رہنا اس کو انتہائی مرغوب تھا۔ وہ پارٹی میں مہکتی چہکتی ادھر ادھر پھر رہی تھی۔
…٭…
میوزک کی تیز بے ہنگم آواز اچانک رک گئی۔ تانیہ اور شہلا نے نورین کو گھور کر دیکھا جس نے ڈیک بند کردیا تھا۔ نورین مسکراتی ہوئی شہلا کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’اس شور میں تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، اس لیے میںنے اس کو بند کردیا۔ میں یہ بتانے آئی ہوں کہ میرا بھائی مجھے لینے آگیا ہے، دیر بھی کافی ہوگئی ہے، ساڑھے دس بج رہے ہیں اس لیے اب مجھے اجازت دو۔‘‘
ساتھ ہی وہ تانیہ سے مخاطب ہوئی:’’تانیہ تم بھی ہمارے ساتھ نکل چلو، کافی رات ہوگئی ہے، راستہ بھی بہت سنسان ہے۔ بعد میں تم کو اکیلے جانے میں پریشانی ہوگی۔‘‘
تانیہ نورین کی بات سن کر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولی: ’’تم جاؤ اپنے چھوٹے بھائی کی انگلی پکڑ کر گھر۔ میں اکیلی ہی کافی ہوں، مجھے کوئی خوف نہیں۔ میں ذرا گفٹ وغیرہ دیکھ کر جاؤ ںگی۔‘‘
نورین نے تانیہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا: ’’تانیہ تم کو اپنی حفاظت کا خیال ہونا چاہیے، کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو ہی جاتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے ہی دو لڑکیوں کو کسی نے قتل کرکے جھاڑیوں میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’ارے وہ ایسی ویسی لڑکیاں ہوں گی۔ میں توبہت اچھی لڑکی ہوں۔ میں تو چار، پانچ سال سے ایسے ہی تنہا گھوم پھر رہی ہوں۔ ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا، تم فکر نہ کرو بی اماں!‘‘
نورین کی انہی باتوں کی وجہ سے شہلا اور تانیہ نے اس کو بی اماں کا خطاب دے رکھا تھا۔
نورین نے غصے میں اپنا پرس اٹھایا اور تیز تیز قدموں سے باہر جانے لگی۔
تانیہ نے ہنستے ہوئے کہا: ’’خدا حافظ تو کہتی جاؤ۔‘‘
’’تمہارا خدا ہی حافظ ہے۔‘‘ نورین نے مڑکر کہا اور گیٹ سے نکل گئی۔
…٭…
گفٹ دیکھتے دیکھتے اچانک تانیہ اٹھ کھڑی ہوئی، اس کو نیند اور تھکن کا احساس ہورہا تھا۔ گھڑی دیکھی تو گیارہ بج چکے تھے۔ اس نے شہلا سے اجازت چاہی اور باہر آکر پچھلی سیٹ پر پرس پھینکا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
…٭…
گاڑی میں تیز میوزک چل رہا تھا اور وہ فل اسپیڈ سے سڑک پر دوڑ ی چلی جارہی تھی کہ اچانک ایک عجیب سی گھڑگھڑاہٹ کے ساتھ گاڑی رک گئی۔ تانیہ حیران سی گاڑی سے نکلی کہ ٹائر وغیرہ چیک کرلے۔
…٭…
جمی نے اپنی بائیک کو ایک کنارے کھڑا کیا اور وہ سیٹھ صاحب کے گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ابھی وہ گیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا کہ اس کو کسی گاڑی کے گھڑگھڑاہٹ کے ساتھ رکنے کی آواز آئی ساتھ ہی ایک تیز خوشبو کا جھونکا محسوس ہوا۔ وہ غیر ارادی طور پر پیچھے گھوم گیا۔ اس نے دیکھا کہ کوٹھی سے تھوڑے فاصلے پر ایک گاڑی خراب ہوگئی ہے اور اس میں سے ایک خوبصورت لڑکی نکل کر اگلے ٹائر چیک کررہی ہے۔
وہ غیر محسوس طریقے سے گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ اتنی رات کو تنہا لڑکی … سنسان ویران علاقے میں اس کے سامنے تھی۔ خوشبو کے جھونکوں نے اس کو بالکل سحر زدہ کردیا تھا۔ وہ چند قدم کے فاصلے پر رک گیا۔ اس کے خوبصورت سجے بنے وجود کو دیکھ کر جھٹ پٹ شیطان نے اس کے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا۔
تانیہ ٹائر چیک کرکے مڑی تو دیکھا کہ ایک لمبے قد کا لحیم شحیم شخص اس کی طرف آرہا ہے۔ اس کے بال کندھوں تک ہیں۔ وہ شکل سے کوئی بدمعاش معلوم ہورہا تھا۔ تانیہ جی جان سے لرز کر رہ گئی۔لیکن اس نے لمحوں میں خود کو سنبھال لیا اورسوچا کہ وہ جوڈو کراٹے جانتی ہے، اس سے مقابلہ کرے گی۔ اس نے خود کو پوری طرح تیار کرلیا۔
بدمعاش اس سے چند قدم کے فاصلے پر آکر رک گیا۔ وہ اسے بری طرح گھور رہا تھا۔ اس کے چہرے پر خباثت، آنکھوں میں شیطانیت اور ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
ویسے تو تانیہ کی لڑکوں، لڑکیوں سبھی سے دوستی تھی، لیکن کبھی کسی نے اس کو ایسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ کچھ نروس ہوگئی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اس کا دل چاہا کاش اس کے پاس کوئی چادر ہوتی اور وہ اپنے آپ کو اس میں چھپا لیتی۔
اتنے میں بدمعاش نے آگے بڑھ کر اس کی نازک کلائی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تانیہ کو لگا جیسے کوئی آہنی ہاتھ ہے یا لوہے کا شکنجہ ہے، جس نے اس کی کلائی کو جکڑ لیا ہے۔ وہ اپنی پوری طاقت، پورا زور لگا کر بھی اپنا ہاتھ چھڑانے میں ناکام رہی۔
پیروں سے داؤ پیچ کی کوشش بھی رائیگاں گئی، کیوں کہ اس بدمعاش نے اپنا وزنی بوٹ اس کے پیروں پر رکھ دیا۔ تانیہ کی سسکی نکل گئی۔ وہ اپنے آپ کو انتہائی کمزور اور بے بس محسوس کررہی تھی۔
اس نے چیخنا چلانا چاہا تو اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر منہ بھی بند کردیا او رکہا کہ سامنے والی کوٹھی میں اس کے آٹھ دس ایسے ہی ساتھی موجود ہیں اور اس کی ہلکی سی سیٹی پر سب اس کی مدد کو آجائیں گے۔ اس لیے وہ چیخنے، چلانے کی کوشش نہ کرے۔ تانیہ نے دیکھا کہ علاقہ انتہائی ویران ہے۔ بہت فاصلے پر اکا دکا کوٹھیاں ہیں۔ سڑک بالکل سنسان ہے۔ مدد کی ساری امیدوں کو ٹوٹتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
تانیہ نے روتے ہوئے التجا کی کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ لیکن پھر ایک شیطانی جال… اس کے سنہرے چمکتے ہوئے خوشبودار بال اس کے سامنے آگئے۔ شیطان پھر اس پرحملہ آور ہوگیا اور اس کا دل تانیہ کو چھوڑنے سے انکاری ہوگیا۔
جمی نے کلائی پر ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت کو اور مضبوط کرلیا اور تانیہ سے مخاطب ہوا: ’’تم نے اپنا سارا زور ساری طاقت آزمالی۔ تم کو اندازہ ہوگیا ہوگا، اس لیے اب سیدھے طریقے سے سامنے والی کوٹھی میں چلی چلو جہاں میرے آٹھ دس ساتھی موجود ہیں۔‘‘
یہ سن کر تانیہ کے منہ سے ہلکی سے چیخ نکل گئی۔ اس نے کہا: ’’نہیں نہیں ایسا نہ کرو۔‘‘
’’اگر یہ منظور نہیں تو پھر خاموشی سے میری بائیک پر چلو۔ میرا فلیٹ یہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔‘‘ اس نے غیر آباد زیرِ تعمیر فلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اور ہاں شور مچانے کی کوشش نہ کرنا۔ اتنی رات گئے اس ویرانے میں کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔‘‘ اس بے بسی کے عالم میں تانیہ نے وہی کیا جو کہ ہر مظلوم کرتا ہے۔ اس نے گڑگڑا کر اپنے رب کو پکارا جو کہ ہر مظلوم کی پکار سنتا ہے، چاہے وہ فرماں بردار ہو یا نافرمان، امیر ہو یا غریب، عورت ہو یا مرد۔
…٭…
جمی کو دور سے سڑک پر کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس آتی محسوس ہوئی۔ کوئی بڑی گاڑی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس میں تو اکثر گارڈ بھی ہوتے ہیں۔ وہ کچھ گھبرا گیا۔ اس نے تانیہ کی کلائی چھوڑ دی اور تیز تیز قدموں سے اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا اور بائیک اسٹارٹ کرکے یہ جا وہ جا۔
تانیہ حیرانی سے اس کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ اس معجزے پر اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر وہیں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس کے شل ہوتے ہوئے اعصاب اور بہتے ہوئے آنسو چیخ چیخ کر اعلان کررہے تھے کہ وہ ایک ناتواں، کمزور لڑکی ہے۔ جسمانی ساخت کے لحاظ سے مردوں سے کمزور۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس اس کے قریب پڑیں تو تانیہ نے چونک کر دیکھا۔ کوئی بڑی گاڑی اس کے پاس آکر رکی تھی۔ اب تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، شاید وہ بے ہوش ہی ہوجاتی کہ گاڑی کے پچھلے دروازے سے نکلتی بزرگ اور شفیق سی خاتون نے اس کو سنبھال لیا۔ ساتھ ہی ان کی بیٹی تھی جس نے اس کو ٹھنڈا پانی پلایا۔ اب تانیہ کے حواس تھوڑے درست ہوئے تو اس نے دیکھا کہ دونوں خواتین چادروں میں ملبوس ہیں اور شکل سے انتہائی شریف اور رحم دل دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے بہت پیار سے ساری بات پوچھی۔ اس نے سب کچھ سچ سچ بتادیا۔ ان لوگوں نے تانیہ کو اس کے گھر چھوڑنے کی آفر کی تو اس نے وہاں موجود ان کے مردوں کا جائزہ لیا۔
ایک انکل تھے، ایک گارڈ تھا اور ایک شاید ان کا بیٹا۔ اس نے جلد ہی محسوس کیا کہ ان کی نظریں جھکی ہوئی ہیں لیکن اس پر پڑ ضرور رہی ہیں۔ شاید وہ لوگ اپنی نظروں کو بچانے میں ناکام تھے۔ غالباً اس کے لباس کی وجہ سے۔
آج اس کو اپنے لباس کی تنگی کا احساس بہت شدت سے ہورہا تھا۔ آنٹی نے اس کی کسمساہٹ کو محسوس کرلیا اور اپنی چادر اتار کر اس کو اوڑھا دی۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی نعمت مل گئی ہو، وہ کسی کی پناہ میں آگئی ہو اور بالکل محفوظ و مامون ہوگئی ہو۔
اب اس کا اعتماد لوٹ آیا تھا،اس نے گاڑی سے اپنا پرس نکالا، گاڑی کو لاک کیا اور آنٹی کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ انکل درانی نے جب سارا واقعہ سنا تو انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق پولیس کے محکمے سے ہے۔ وہ آج ہی اس کوٹھی کی نگرانی شروع کروادیتے ہیں اور صبح تک چھاپہ ڈال دیں گے۔ تم مجھے اس لڑکے کا مکمل حلیہ بتادو، انشاء اللہ مجرم پکڑے جائیں گے۔ بیٹی تم بالکل فکر نہ کرو۔
…٭…
جب وہ چادر اوڑھے، پریشان حال، اجنبی لوگوں کے ساتھ گھر پہنچی تو اس کے والدین گھبراگئے جو شاید کچھ ہی دیر پہلے کسی تقریب سے گھر پہنچے تھے۔ تانیہ روتی ہوئی اپنی ماما کے سینے سے جالگی۔
’’ماما! آپ لوگوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ لوگ تو بیٹیوں کو نازک آبگینوں کی طرح رکھتے ہیں۔ ان کی پھولوں کی طرح حفاظت کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے مجھے یہ احساس کیوں نہ دیا؟ آپ لوگوں نے مجھے کیوں غلط اور غیر حقیقی تصور دیا؟ آپ نے مجھے ایسا کیوں بنادیا؟ ماما! میں مردوں کی طرح مضبوط نہیں ہوں، میں کمزور اور نازک لڑکی ہوں، میں اغوا ہوجاتی تو کیا ہوتا؟‘‘
اس واقعے نے تانیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس میں زبردست ذہنی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ تانیہ کے ماں باپ کے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کی زبانیں گنگ ہوکر رہ گئی تھیں۔ وہ مجرم کی طرح خاموشی سے سر جھکائے ہوئے تھے۔آخر تانیہ وہیں ماما کے شانے پر سر رکھ کر سوگئی۔ ماما نے آج اس کو اپنے بیڈ روم میں لے جاکر سلالیا۔
…٭…
جب تانیہ کی آنکھ کھلی تو کافی روشنی کمرے میں پھیل چکی تھی۔ وہ بہت دیر سے بیدار ہوئی تھی۔ اس کا کمرہ اور دل دونوں ہی روشن ہوچکے تھے۔ وہ جلدی سے اٹھ کر فون کی طرف لپکی اور انکل درانی کا نمبر ملایا۔
انکل نے تانیہ کو بتایا کہ انھوں نے صبح چھ بجے اس کوٹھی پر چھاپہ ڈالا۔ لیکن وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔ وہاں تو ایک بہت اچھی فیملی چارپانچ سال سے رہ رہی ہے۔ سیٹھ رام لال مینا اس فیملی کے سربراہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک دفتری ملازم ضروری کاغذات پر دستخط کروانے کے لیے آنے والا تھا۔ وہ نہیں آیا۔ ہوسکتا ہے وہ وہی ہو۔ ہم نے اس کو تلاش کرکے گرفتار کرلیا ہے، اس کا حلیہ تمہارے بتائے ہوئے حلیے کے عین مطابق ہے۔
اس کا تعلق ایک متوسط شریف گھرانے سے ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی اس کا تعلق کسی ایسے گروہ سے ہے۔ وہ بالکل بے قصور ہے، اس نے کوئی جرم نہیں کیا، وہ تو صرف اس لڑکی کی مدد کرنا چاہتا تھا۔
’’انکل وہ جھوٹا،مکار، فریبی اور بدمعاش ہے۔ آپ اس کو ہرگز نہ چھوریے گا۔ خوب زور دار مار لگائیے گا۔ وہ سب کچھ اگل دے گا۔‘‘ یہ سب کہتے ہوئے تانیہ کی آواز قدرے تیز ہوگئی تھی۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکی۔
’’تانیہ بیٹا! تم فکر نہ کرو۔ ہم اس کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس پر ہم نے ہراساں کرنے اور اقدامِ اغوا کا مقدمہ بنایا ہے، وہ سزا سے بچ نہیں سکے گا۔‘‘ خدا حافظ کہتے ہوئے انھوں نے فون رکھ دیا۔
…٭…
اس بدمعاش جمی کو پولیس والوں نے چار چوٹ کی مار ماری تھی اور جمی کو دن میں تارے نظر آگئے تھے۔ وہ رات کو تاروں کی چھاؤں میں یعنی رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک کی تمام مصروفیات بھول گیا تھا۔ فری ایس ایم ایس، موبائل فون پر رابطے، لمبی گفتگو، چیٹنگ، انٹرنیٹ اور کیبل پر آنے والے مختلف چینلز کے پروگرام اور فلمیں… ان سب چیزوں نے جمی کو کافی بگاڑ دیا اور وہ ذہنی آوارگی کا شکار ہوگیا تھا۔ بھولے ماں باپ سمجھتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے ضروری کام رات کو نمٹاتا ہے۔
…٭…
جمی جیل کی کوٹھری میں بے سدھ پڑا ہوا تھا، اس کے پورے جسم پر نیل پڑے تھے۔ چہرہ بھی چوٹوں سے سوجا ہوا تھا۔ اس میں اٹھنے کی ذرا بھی سکت نہیں تھی۔
اس کے ماں باپ اس سے ملنے آئے تھے۔ انھوں نے کئی آوازیں جمی کو دیں لیکن وہ نہ اٹھا۔ ماں سے جمی کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔ اس نے زور سے جمی سے کہا کہ اگر وہ کہے تو ہم لڑکی اور اس کے ماں باپ کے پاس جاکر معافی تلافی اور صلح صفائی کی کوشش کریں۔
یہ سن کر جمی چیخ پڑا اور لڑکھڑاتا ہوا جیل کی سلاخوں کے پاس آیا ’’ہرگز نہیں … بالکل نہیں… وہی لڑکی تو اصل مجرم ہے اور اس کے ماں باپ اس سے بھی بڑے مجرم ہیں، کیوں اپنی بیٹی کو ایسا بنایا… ؟ وہ کیوں اتنی رات کو تنہا سج بن کر خوشبو لگا کر بے ہودہ لباس پہن کر نکلی تھی؟ کیا زمین پر انسان نہیں فرشتے بستے ہیں؟ ایسی لڑکیاں اور عورتیں دنیا میں مظلوم اور معصوم بن کر بچ جاتی ہیں لیکن خدا کی عدالت میں سب پکڑی جائیں گی۔
لڑکوں لڑکیوں کی باہم دوستی، یہی سب سے اہم کام ہے۔ ہر لڑکی مسکرا کر استقبال کرے گی، یہی سکھایا جارہا ہے۔ لڑکیوں کو بھی یہی تربیت دی جارہی ہے کہ کیسے خوبصورت بننا ہے، کیسے رجھانا ہے، کیسے استقبال کرنا ہے۔ناچو، گاؤ، ویلنٹائن ڈے مناؤ، محبت کے پیغام دو، تحائف دو، گلدستے پیش کرو، یہی تو سکھایا جارہا ہے۔پھر مجھے کیوں پکڑا؟ میری پٹائی کیوں ہوئی؟ یہ سب قصوروار ہیں۔ میں بے قصور ہوں، میںبے قصور ہوں۔‘‘ کہتا ہوا وہ جیل کی سلاخوں کے پاس گرگیا۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146