[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

او سی ڈی ایک نفسیاتی بیماری

ترتیب و پیشکش: ادارہ

کئی بار آفس کے لیے گھر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد ہمیں یاد آتا ہے کہ دروازے کو ٹھیک سے بند کیا ہے یا نہیں۔ پھر اطمینان کے لیے ہم گھر واپس آتے ہیں تالے کو دوبارہ چیک کرتے ہیں، حالانکہ یہ معمولاتِ زندگی کا عام سا کام ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آفس کے لیے نکلتے وقت بہت ساری باتیں ذہن و دماغ میں گردش کررہی ہوتی ہیں، جیسے تاخیر تونہیں ہوجائے گی۔ بیگ میں ضروری کاغذات رکھنا تو نہیں بھولے ہیں۔ پرس، چابیاں وغیرہ رکھ لیں یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اور آخرمیں یہ بات بھی ذہن میں ہوتی ہے کہ دروازہ کو ٹھیک سے لاک کرنا ہے، لیکن کبھی کبھی دماغ پر دوسری باتیں اتنی زیادہ حاوی ہوجاتی ہیں کہ دروازہ کو لاک کرتے وقت ذہن حاضر نہیں رہ پاتا اور بعد میں خیال آنے پر شبہ ہوتا ہے کہ دروازہ شاید لاک نہ کیا ہو۔
عائشہ کو اپنا گھر ہمیشہ صاف ستھرا اور چمکتا ہوا ملنا چاہیے، وہ نہ صرف گھر کی صفائی پر غیر معمولی توجہ دیتی ہے بلکہ اپنے گھر آنے والے مہمانوں کو بھی ان باتوں کی ہدایت کرتی رہتی ہے۔ ٹائلٹ سے آنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو خوب رگڑ رگڑ کر صابن سے دھوتی ہے۔ پھر اسے خیال آتا ہے کہ ٹائلٹ میں جانے سے پیر بھی گندے ہوجاتے ہیں پھر یہی عمل وہ پیروں کے ساتھ کرتی ہے اور کم از کم ایک بالٹی پانی پیر دھونے پر صرف کرتی ہے۔ دراصل گندگی کے ازالے اور صفائی کی فکر اس کے ذہن پر اس قدر حاوی رہتی ہے کہ عام لوگوں کی بہ نسبت وہ کہیں زیادہ اس کا اہتمام کرتی ہے۔
راشدہ روزانہ سونے سے قبل گیس، بجلی کے سوئچ بند کرنے سے لے کر کھڑکیاںاور دروازے بند کرنے کے معاملے میں اتنی حساس ہے کہ کئی کئی بار اٹھ کر چیک کرتی ہے۔
رمیش ہر مندر، مسجد، گرودوارہ کے سامنے سے گزرتے وقت سرجھکا کر دعا کرنے کا عادی ہے۔ اور دعا ہر بار کولڈ ڈرنک پیتے وقت ایک بار میں شمار کرکے ۳ سپ لیتا ہے۔
او سی ڈی کیا ہے؟
آب سیسیو کمپلیسوڈس آرڈر جسے میڈیکل اصطلاح میں او سی ڈی کہتے ہیں ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ جو مختلف علامتوں کے ساتھ کسی انسان میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس بیماری کی صورت میں انسان ہر وقت ذہن میں پائے جانے والے خیالات و تفکرات سے مربوط رہتا ہے اور یہی فکر اسے بار بار کوئی خاص حرکت یا کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ او سی ڈی سے متاثر انسان پر کسی کام کو ایک خاص طریقے سے کرنے کا جنون سوار رہتا ہے۔ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر انیتا بھسین کہتی ہیں:’’بار بار ہاتھ دھونا، دیر تک نہانا یا سب کام چھوڑ کر عبادت میں مشغول رہنا وغیرہ اوسی ڈی کی عام علامتیں ہیں۔‘‘ ایسے آدمی کو اس کی حرکات و سکنات اور اس کے معمولات کے معمولی مشاہدے سے بھی پہچانا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی حرکتیں، کام اور انداز عام آدمی سے مختلف انداز کے ہوتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اگر اس بیماری پر مریض یا اس کے سرپرست بروقت توجہ نہ کریں تو یہ ذہنی بگاڑ اور پاگل پن تک لے جاسکتی ہے۔
مرد اور خواتین دونوں میں او سی ڈی کی علامتیں پائی جاسکتی ہیں۔ لیکن خواتین میں یہ مرض اب عام بات ہوگیا ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ ہے ذہنی تناؤ، عدمِ تحفظ کا احساس اور گھر اور معاشرے میں روز بروز کم ہوتی باہمی الفت و محبت۔ ماہرینِ نفسیات اور ڈاکٹر اگرچہ اس مرض کی کوئی خاص تکنیکی وجہ معلوم نہیں کرپائے ہیں تاہم اکثر ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ سر میں کسی طرح کی چوٹ لگ جانے یا جسم انسانی کی فطری ساخت میں حادثاتی طور پر یا کسی اور وجہ سے تبدیلی آجانے سے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ لیکن جو بات متفقہ طور پر مانی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا احساس محرومی یا کسی شخص کا اپنی مرضی کے برخلاف کسی کام کے لیے مسلسل مجبور کیا جانا یا جذباتی طور پر کسی حادثہ کا شکار ہوجانا یا کسی مقصد کے حصول میں ناکامی وغیرہ اس کے خاص اسباب ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ کسی قسم کا انفکشن بھی اس کا سبب ہوسکتا ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ خاص حالات اور ماحول انسان کے اندر اس بیماری کے پیدا کرنے اور آگے بڑھانے کا سبب ہو۔
خواتین کیونکہ مردوں کی بہ نسبت زیادہ جذباتی اور نفسیاتی اعتبار سے کمزور واقع ہوئی ہیں، اس لیے یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ محبت میں ناکامی یا شادی کی عمر گزرجانے کا اندیشہ بھی نوجوان لڑکیوں میں اس بیماری کا سبب ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایامِ حمل یا وضعِ حمل کے بعد بعض خواتین اس کا شکار ہوجاتی ہیں اور اس کی ذمہ دار وہ جسمانی تبدیلیاں ہیں جو ان مراحل سے گزرنے کے بعد خواتین میں رونما ہوتی ہیں۔
اس مرض کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے متاثر انسان کو اپنے اس جنون اور بیوقوفانہ حرکتوں کا احساس تو ہوتا ہے مگر چاہ کر بھی ان سے نجات حاصل نہیں کرپاتا اور اس معاملے میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ او سی ڈی سے متاثر لوگوں کو کسی قسم کے درد کا اٹیک بھی ہوسکتا ہے۔
علاج کیسے کریں؟
سوچنا اور فکر کرنا تو عام انسان کی فطرت ہے اور ہر شخص کچھ نہ کچھ تو سوچتا ہی ہے مگر یہ فکر تعمیری اور مثبت ہوتی ہے۔ جو انسان کی زندگی کو جذبہ عمل سے ہمکنار کرتی ہے۔ لیکن او سی ڈی کے مریض کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کی سوچ توہماتی ہوتی ہے اور اس کے اندیشے موہوم اور محض خیالی ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اندیشہ ہائے دور دراز ستانے لگیں، غیر حقیقی خطرات سوچ و فکر کو گھیرے رہیں اور ایسی فکروں میں مبتلا رہنے لگیں جن کا یا تو حقیقت میں کوئی وجود نہیں یا ان کا واقع ہونا فطری نظام کا حصہ ہے تو سمجھ لیں کہ نفسیاتی صحت متاثر ہے۔ ایسے میں انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی حرکات و سکنات، اپنے کاموں اور اپنے معمولات پر دھیان دے۔ ان کا جائزہ لے اور عام انسانوں کی زندگی سے تقابل کرتے ہوئے نارمل کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ یہ موہوم اندیشے اور غیر ضروری فکر انسان کی زندگی کو بے رونق کردیں گی۔
او سی ڈی کا علاج:
اس مرض کا علاج جدید طریقوں اور دواؤں سے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات مریض کو اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں دے کر اس کے دماغ کے زیادہ تیز کام کرنے والے حصے کو نارمل کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اینٹی ایگزائٹی (تشویش ختم کرنے والی) دواؤں اور سائکو تھریپی (نفسیاتی علاج) سے بھی اچھے اور جلد نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ یوگا ورزشیں اس کے لیے بڑی مفید اور کارآمد بتائی جاتی ہیں۔
چند اہم باتیں:
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مرض نفسیاتی ہے اس لیے علاج خواہ دواؤں کے ذریعہ کیا جارہا ہواس کے باوجود متاثر آدمی کے ساتھ نرمی، محبت اور اخلاص کا معاملہ کیا جائے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی صورت میں برعکس اثر کا اندیشہ ہوتا ہے۔ سختی کی صورت میں متاثر فرد ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے، چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے یا اس پر رونے کا شدید دورہ پڑسکتا ہے۔ اس لیے ایسے فرد کے ساتھ معاملہ کرنے میں بڑی نفسیاتی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیل میں چند مشورے دئے جاتے ہیں:
٭ اگر ممکن ہوتو مریض کی آب وہوا اور ماحول میں تبدیلی کردی جائے اور ایسی جگہ بھیج دیا جائے جو پرفضا ہو۔
٭ بات چیت اور معاملات میں انتہائی نرمی و محبت کا سلوک کیا جائے اور اسے نفسیاتی سپورٹ کا احساس دلایا جائے۔
٭ مناسب غذا جو مقویٔ جسم و اعصاب اور زودِ ہضم ہو کھانے کے لیے دی جائے۔
٭ اس کے رہائشی کمرے میں کھلی ہوا اور روشنی کا مکمل انتظام ہو۔
٭ ہلکی پھلکی ورزش، چہل قدمی کو معمول بنایا جائے اور متاثر فرد کے ساتھ گھر کے دوسرے لوگ باقاعدگی سے جائیں۔
٭ مریض کو تنہائی سے بچایا جائے اور اس کے لیے تعمیری اور ایسے مشاغل تلاش کیے جائیں جن میں وہ خوشی محسوس کرسکے۔
٭ اسے خوش کن مصروفیات میں لگایا جائے تاکہ اس کا ذہن بھٹکنے کے بجائے تعمیری باتیں سوچ سکے۔
مناسب دواؤں اور عملی تدابیر کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اگر مریض کو جذباتی سپورٹ اور محبت و نرمی کا رویہ نصیب نہ ہو تو مرض لاعلاج حد تک بھی پہنچ سکتا ہے جو بعد میں انتہائی جسمانی کمزوری، ذہنی خلجان اور جسمانی معذوری کی کیفیت سے بھی دوچار ہوسکتا ہے۔ ایسے مریض کے سلسلے میں گھر اور خاندان کے تمام افراد کا تعاون درکار ہوتا ہے تاکہ اسے جذباتی قوت فراہم کرکے موہوم خطرات اور اندیشوں سے بچایا جاسکے۔
(نفسیاتی معالج ڈاکٹر انیتا بھسین سے گفتگو پر مبنی)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں