جہیز — ایک معاشرتی بوجھ

ڈاکٹر محمدشکیل

جہیز سے مراد وہ سامان ہے جو شادی کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کو دیا جاتا ہے۔ اس سامان کو شادی کا لازمہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ سامان نہ دے یا نہ دے سکتا ہو تو وہاں شادی کا تصور تک نہیں کیا جاتا۔ یہ سامان جہیز ایک طول طویل فہرست پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو ضروریات سے بڑھ کر تعیشات تک جاپہنچتا ہے۔ کہیں کہیں تو یہ سامان بالکل فرمائشی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جسے پورا کرنا لڑکی والوں کی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے اور جہاں یہ فرمائشی نہیں ہوتا وہاں بھی بالعموم فرمائشی جیسا ہوتا ہے۔ اور اس اہتمام کو لڑکے والوں کی خاموش فرمائش تصور کرلیا جاتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر غریب خاندان کی لڑکیاں اس لعنت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اور متوسط گھرانے کی لڑکیاں سامانِ جہیز میں خوب سے خوب تر کی جستجو میں برباد ہوجاتی ہیں۔ جہیز کی طلب اور رسد نے ’’نکاح‘‘ جیسے ضروری، فطری اور پاکیزہ و حلال عمل کو مشکل کررکھا ہے۔ اسی لیے جہیز کی پابندی نے بعض لڑکیوں کو شرم و حیا سے آزاد کردیا ہے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان میں غربت و افلاس کی وجہ سے دلہن بننے کی شرط مفقود ہوچکی ہے۔ ایسے میں معاشرتی فساد اور بداخلاقی و آوارگی کا راستہ صاف ہوجاتا ہے۔ جو دین اور اخلاق کی تباہی ہے۔ سماج و معاشرہ کو بھی تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
جہیز کے فرض، واجب یاسنت ہونے کا کوئی تصور ہماری شریعت میں موجود نہیں ہے۔ شادی کے وقت گھر والوں کی طرف سے بہ طیب خاطر، اگر کوئی تحفہ یا ہدیہ پیش کردیا جائے تو وہ جہیز کے ضمن میں نہیں آتا۔ پھر یہ کہ تحفہ کی شرعی حیثیت اس لزوم کے ساتھ بھی بہرحال نہ تو فرض بنتی ہے نہ واجب اور نہ سنت۔ زیادہ سے زیادہ اسے مستحب کے زمرہ میں لیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی فعل کو اپنے اوپر لازم کرلیا جائے تو وہ بدعت بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ اسی بدعت میں مبتلا ہے۔ شریف بیٹیاں اپنے باپوں کی دہلیز پر زندہ درگور ہوگئی ہیں۔
واذ المؤدۃ سئلت بای ذنب قتلت۔
(التکویر: ۸-۹)
’’اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس جرم میں ماری گئی۔‘‘
جہیز وہ معاشرتی آلۂ قتل ہے، جس سے ہماری بیٹیوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ معاشرہ کا اجتماعی ضمیر اس قتل عام کو روکنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔
جہیز کا لفظ آج جس معنی میں بولا جاتا ہے، عہدِ رسالت مآب ﷺ میں اس معنی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ جہیز کے سنت ہونے کی غلط فہمی جس روایت سے اخذ ہوئی ہے۔ پہلے ہم وہ روایت درج کرتے ہیں اور بعد میں اس کی تفصیل کرتے ہیں:
عن علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال جہز رسول اللّٰہ ﷺ فاطمۃ فی خمیل و قربۃ ووسادۃ حشوہا اذخر۔
’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہؓ کو نکاح کے لیے تیار کیا اور انہیں ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک ایسے تکیے کے ساتھ جس میں گھاس بھری ہوئی تھی، روانہ کیا۔‘‘
یہ روایت جس عنوان کے تحت آئی ہے۔ وہ یہ ہے جہاز الرجل ابنتہ اور اس کا ترجمہ یہ کردیا گیا ہے۔ اپنی بیٹی کو جہیز دینے کا بیان۔ ظاہر ہے جب جہازکا ترجمہ جہیز سے کیا جائے گا تو پھر اسے سنت رسول ﷺ ماننے کی سبیل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی روایت میں جہز کا ترجمہ بھی مذکورہ مترجمین نے ’’جہیز‘‘ کے لفظ سے کیا ہے۔ اور جہیز چونکہ ہمارے ہاں ایک خا ص مفہوم میں بولا اور سمجھا جاتا ہے اس لیے اس غلط فہمی کا پیدا ہونا بھی قدرتی امر ہے۔ حالانکہ از روئے لغت، الجہاز، سفری سامان کو کہا جاتا ہے۔ سفری سامان چونکہ مسافر کی ضرورت ہوتا ہے۔ اس لیے آگے چل کر ہر اس سامان کو کہا جانے لگا جو کسی کی ضرورت ہواور تجہیز کا لفظ سامانِ سفر کے اٹھانے یا بھیجنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس معنیٰ کی تائید کے لیے آیت ملاحظہ ہو:
ولما جہز ہم بجہازہم۔ (یوسف:۵۹)
’’اور جب انہیں، ان کے سامان سے تیار کردیا۔‘‘
اس معنیٰ کی رو سے بوقت نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کچھ ضروری سامان کا بھیجنا ہمارے معاشرہ کے روز مرہ میں استعمال ہونے والے ’’جہیز‘‘ سے کسی طرح بھی میل نہیں کھاتا۔ کیونکہ اسی مفہوم کی ایک روایت سنن ابنِ ماجہ میں جو آئی ہے۔ اس میں اس سامان کی نسبت صیغۂ مفرد کے بجائے صیغہ تثنیہ میں کی گئی ہے۔ اور تثنیہ کے صیغے سے جو مفہوم بنتا ہے وہ علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما دونوں کو دینے کا بنتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ’’جہیز‘‘ کی نسبت مرد کی طرف نہیں کی جاتی، روایت ملاحظہ ہو:
ان رسول اللّٰہ ﷺ ذہب یوماً الی علیا و فاطمۃ وہما فی خمیل لہا والخمیل القطیفۃ البیضاء عن الصوف قد کان رسول اللّٰہ ﷺ جہز ہما بہا و وسادۃ محشوۃ، اذخراً و قربۃ۔
’’روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لائے اور وہ دونوں ایک چادر میں تھے۔ یہ وہ چادر تھی جو حضور ﷺ نے ان دونوں کو دی تھی اور یہ سفید اونی چادر تھی۔ نیز ایک تکیہ بھی دیا تھا، جس میں گھاس بھری ہوئی تھی اور ایک مشکیزہ بھی دیا تھا۔‘‘
اس روایت میں ’’جہیز‘‘ کی نسبت دونوں کی طرف کی گئی ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں جہز اپنے لغوی معنیٰ میں ہے نہ کہ اصطلاحی معنیٰ میں۔
پھر اس جہیز کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سامان، جو حضرت فاطمہؓ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ وہ حضرت علیؓ کے اس مہر کی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت فاطمہؓ کا مقرر ہوا تھا۔ ایک روایت کی رو سے آنحضرت ﷺ نے چونکہ حضرت علیؓ کی حطمی زرہ کو مہر قرار دے دیا تھا۔ اور اس سامان کے لیے اسی زرہ کو بیچا گیا تھا۔ اس لیے اس سامان کو ہم عرفی جہیز سے تعبیر نہیں کرسکتے۔

دراصل اس سامان کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کو ایک نئے مکان میں منتقل کرنا تھا۔ جو انہیں ان کے ایک صحابی حضرت نعمان بن حارثہؓ نے اسی مقصد کے لیے ہدیتاً دیا تھا۔ چنانچہ نئے مکان میں شفٹ ہونے کے لیے ضروری اشیاء کا ہونا بھی ضروری تھا۔ اس سامان کی علت بس یہی تھی۔ اس لیے اسے کسی طرح بھی ’جہیز‘ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اگر یہ جہیز ہوتا تو آنحضرت ﷺ اس طرح کا سامان اپنی دوسری بیٹیوں کو بھی دیتے! آپ کی ازواجِ مطہرات بھی اپنے ساتھ ایسا کچھ سامان ضرور لاتیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146