’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، غزوئہ بدر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شرکت اس لیے نہیں ہوسکی کہ ان کی اہلیہ ، حضورﷺ کی صاحب زادی، بیمار تھیں اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمھیں بدر میں شریک ایک شخص کے برابر اجر اور حصہ ملے گا۔‘‘ (بخاری)
حضرت رقیہؓ بنتِ رسول اللہ ﷺ چیچک میں مبتلا تھیں اور اسی مہلک مرض کی وجہ سے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ حضرت عثمانؓ کو ان کی تیمار داری کے لیے آپؐ نے اس وعدہ کے ساتھ چھوڑا تھا کہ ان کو ایک مجاہد کے برابر حصہ اور اجر ملے گا۔ اس طرح آپؐ نے بیوی کی خدمت کو جہاد کے برابر اہمیت دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد نہ صرف فرض ہے بلکہ ایک ملکی ذمہ داری بھی ہے۔ ایسے موقع پر جب ملت خطرہ میں ہو یہ لازم ہوجاتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کا دفاع کیا جائے اور دشمنوں کی یلغار سے اسے بچایا جائے۔ لیکن آپؐ کی ہدایت سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ایک جان کو جانتے بوجھتے موت کے منھ میں چھوڑکر کسی دوسرے فریضے کے لیے نکل کھڑے ہونا انسانیت اور فطرتِ اسلامی کے منافی ہے۔
جو لوگ عورت کو انتہائی غیر اہم سمجھتے ہیں ، وہ اس پہلو پر غور کریں اور عورت کی جائز اہمیت کا اعتراف کریں۔ وہ اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ جہاد کی فرضیت! اسی لیے اس کی تیمار داری کو آپؐ نے جہاد کے اجر کے برابر شمار کیا ہے۔
اداریہ