ہم بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اسلام کی عظیم نعمت سے سرفراز کیا۔ واقعی یہ اللہ کا احسان ہے ، مگر کیا ہم اس احسان کا شکر ادا کررہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ہماری زندگیوں میں اسلام نہیں ہے۔ اللہ پر ایمان تو ہے مگر اللہ کا خوف نہیں، قیامت پر ایمان ہے، مگر قیامت کے حساب اور عذاب کا نہ تو ڈر ہے اور نہ اس کی تیاری۔ موت برحق ہے مگر موت کے بعد کیا ہونے والا ہے اس کا خیال تک ذہن میں نہیں ہے۔ ہمارے ایمان کی اس کمزوری اور عقیدے کے اسی کھوکھلے پن نے ہمیں دنیا بھر میں ذلیل وخوار کررکھا ہے۔
جس معاشرے میں برے بھلے کی تمیز اٹھ جائے، حلال وحرام کا فرق مٹ جائے، جہاں متعدد قسم کے جرائم، دھوکا دہی، بے ایمانی اور دیگر برائیاں عام ہوجائیں، معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو، پوری قوم اخلاقی قدروں کو فراموش کردے، تعلیم و تحقیق کی طرف کوئی توجہ نہ ہو تو کیا اس معاشرے پر اللہ کی مہربانی ہوگی؟ قومیں علم و عمل کے سبب ترقی پاتی اور عروج کو پہنچتی ہیں، اسی کے سبب کبھی ہماری ایک امتیازی شان اور ہمارا ایک امتیازی مقام تھا لیکن جب عمل نہیں رہا، تو اللہ نے سب کچھ چھین لیا۔ ہمارے ہاتھ بے زور ہوگئے اور زبان بے اثر ہوگئی۔ ہمارا عمل کیسا بھی ہو مگر دنیا ہمیں مسلمان ہی سمجھتی ہے اور ہماری خامیوں، کوتاہیوں اور بدعملیوں کو بھی اسلام ہی کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ آج وہ حدیث پاک امت مسلمہ پر صادق آرہی ہے جس میں حضور پاکؐ نے امت کو خبردار کیا تھا کہ :
’’قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتےہیں۔ صحابہ نے حیرت سے پوچھا کہ کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوجائے گی؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس وقت تمہاری تعداد تو بہت ہوگی مگر تمہاری حیثیت سمندر کے جھاگ کی طرح ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا ڈر نکال دے گا۔‘‘
آج اسلام کو نفرت اور دہشت کی تعلیم دینے والا دین سمجھا اور سمجھایا جارہا ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے پیش کردہ نظام زندگی کو دقیانوسیت باور کرایا جارہا ہے۔ ملت کی کمزوری اور بے اثری کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے ہر گوشے میں خواہ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا اقلیتی ہر جگہ اسلام اور اس کے چاہنے والے مظلوم ہیں۔ یہ غوروفکر کا مقام ہے اور اس کا بات متقاضی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں، اپنے اخلاق و کردار اور اپنے سوچ وفکر میں تبدیلی پیدا کریں اور ان عظیم اور بلند اسلامی اخلاقیات اورتعلیمات کو اپنائیں جو مظلومیت سےنکال کر قوت و طاقت فراہم کرنے والی اور دنیا میں قیادت کے مقام پر فائز کرنے والی ہیں۔
مسلمان قرآن پڑھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے گھر کی زیارت بھی کرتے ہیں، لیکن اس کا پھل نہیں ملتا۔ اس کے اثرات نمایاں نہیں ہوتے۔ بدحالی اور پریشانی جوں کی توں باقی ہے تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ علامہ اقبال نے اسی کیفیت کو بیان کیا ہے:
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
کبھی مسلم معاشرے پر ایسا بھی زمانہ آیا تھا جب زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ کیا ایسی بات کہنے والا آج کوئی سماج ہے؟ آج تو لوگ قرض لیتے ہیں واپس نہیں کرتے۔ لین دین کے معاملے میں پاک و صاف نہیں ہوتے۔ ہم میں سے کون اس حدیث کو نہیں جانتا جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کے حلق سے حرام کا ایک لقمہ بھی اتر گیا تو اس شخص کی چالیس دن کی عبادتیں اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
آج ہر عبادت کا یہ یہی معاملہ ہے۔ جب قوم اصلاح کی طرح مائل ہی نہ ہو تو اس معاشرے پر اللہ کی رحمت کیوں کر ہوگی۔ مسلمان اللہ کی طرف آئیں تو اللہ بھی ان کی طرف متوجہ ہوگا۔ ہم اپنی زندگیوں کو تبدیل کریں تو اللہ تعالیٰ بھی حالات بدلے گا اور ’’ہمارے خوف کو امن میں بدل دے گا‘‘ یہ قرآن میں اس کا وعدہ ہے مگر ساتھ ہی شرط بھی ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیںبدلتا جب تک وہ اپنی زندگیوں اور ان کے اندر کی چیزوں کو نہ بدل ڈالیں۔‘‘ (انفال: 53)
اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا ہم اس آیت کے مطابق اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے تیار اور اس کے لیے آمادہ ہیں؟ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اجتماعی احتساب بھی اور انفرادی احتساب بھی کہ ہمارے سماج اور ہماری ذات اور سوچ و فکر میں کہاں کہاں برائیاں گھس آئی ہیں اور پھر انہیں دور کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔