حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حدیث قدسی بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد رسول اکرم ﷺ نے نقل فرمایا: ’’آنکھ کی نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔‘‘ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص میرے خوف سے،باوجود دل کے تقاضے کے، اپنی نگاہ کی حفاظت کرلے تو میں اس کے بدلے میں اسے ایسا پختہ ایمان دوں گا جس کی لذت اور مٹھاس کو وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مردوں اور عورتوں کو نگاہوں کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری کا مفہوم ہے کہ آپؐ ایمان والے مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اس کے بعد ارشاد باری ہے کہ آپؐ عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو جسمانی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں آنکھیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ جو لوگ اس نعمت سے محروم ہیں ان ہی سے اس نعمت کی قدرو منزلت معلوم ہوسکتی ہے۔
اللہ رب العزت نے آنکھ کے استعمال کی جگہیں بتائی ہیں کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھئےنگاہوں کے ذریعہ عبرت اور علم و یقین حاصل کیجیے اور پھر اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاریے۔ قرآن حکیم میں کئی انداز سے اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے کہ اس آنکھ کے ذریعہ محبت سے ماں باپ کی طرف دیکھو گے تو ایک مقبول حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔
جب اس آنکھ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہی عبادت اور ثواب کا ذریعہ بنتی ہے اور اگر اس آنکھ کا استعمال غلط ہونے لگے تو پھر اس انسان کا ذہن بھی برے خیالات کا مرکز بن جاتا ہے۔ دماغ اور حافظے کی کم زوری سامنے آتی ہے، کاموں میں دل نہیں لگتا، نیند کم ہوجاتی ہے۔ قوتِ ارادی ختم ہوجاتی ہے، یہ ساری مشکلات صرف آنکھ کی حفاظت نہ کرنے کی بنا پر پیش آتی ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نگاہ کی حفاظت کے بارے میں صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرماتے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ تم راستوں میں بیٹھنے سے بچا کرو اگر ضرورت کی وجہ سے راستے میں بیٹھنا پڑجائے تو راستے کا حق ادا کیا کرو۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نظریں نیچی رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
حضرت جریرؓ نے ایک بار پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! اچانک نظر پڑجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’اپنی نگاہ پھیرلو۔‘‘ (مسلم)
سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’بے شک! ہر شخص سے کان، آنکھ اور دل کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
انسان سوچتا ہے کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے لیکن ہمت کرکے انسان نگاہ کی حفاظت کرنا شروع کردے تو بہرحال اس پر قابو پاسکتا ہے۔ انسان اگر یہ چاہے کہ اس کی زندگی پرسکون ہو، اس کے خیالات پاکیزہ ہوں، اس کی جسمانی اور روحانی صحت اچھی رہے تو اسے اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ نگاہوں کی حفاظت کے فائدے اورنہ کرنے کے نقصانات ذہن میں رکھے۔ قرآن حکیم اور سیرتِ طیبہؐ کا مطالعہ کرتا رہے، اپنے گھر ماحول اور درو دیوار کو پاکیزہ رکھے، اپنی نشست و برخاست کو پاکیزہ بنائے تو یقینی طور پر نگاہوں کی حفاظت ایک آسان عمل ثابت ہوگا۔ اور پھر اس سے سماج اور معاشرے میں پھیلی بے حیائی، فحاشی اور جنسی جرائم کا بھی خاتمہ ہوجائے گا