اس وقت آزاد ہندوستان میں ہم جس مخلوط معاشرہ میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں زبردست انتشار و بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ ساری تہذیبی قدریں پت جھڑ میں درختوں سے ٹوٹ کر گرنے والے پتوں کی طرح بکھررہی ہیں۔ بدقسمتی سے آزادی کے وقت تک ہمارا تہذیبی شعور جو بے حد پختہ تھا اور مغربی اندازِ حیات و اطوار معاشرت کی نقالی کوہم اپنے لیے لغو تصور کرتے تھے وہ ساری روایات ملک آزاد ہونے کے بعد رخصت ہوگئیں، نئے تعلیمی نظام میں مشرق کے عقائد و یقینیات سے غیر معمولی بے اعتنائی برتی گئی اور یورپ کی درآمد کی ہوئی چیزوں کو ہم اپنی نئی نسلوں کے ذہن میں اتارنا اپنے لیے باعثِ فخر تصور کرنے لگے۔ اس ملک سے انگریز حکمراں تو چلے گئے مگر غلامی کا جو مزاج تھا اس سے ہمیں چھٹکارا نہ مل سکا اور ہم آنکھ بند کرکے ہر اس بات پر جان نچھاور کرنے لگے جس کا سلسلہ مغرب سے ملتا ہو۔
چنانچہ رفتہ رفتہ ایک طوفان بیسویں صدی کے آخر تک ہندوستان میں آگیا، جس کی زد میں ہمارا معاشرہ ہماری تعلیم گاہیں اور ہماری نئی نسلیں تھیں۔ اس طوفان کا رخ ہر اس چیز کی طرف تھا جس کا تعلق مشرق کی اقدارِ حیات، عقائد اور ایمانیات سے تھا، ہمیں ورثہ میں جو تہذیبی روایات ملی تھیں وہ اب ناقابلِ اعتبار بلکہ قابلِ نفرت بننے لگیں۔ پرانی و نئی نسل میں غیر معمولی خلیج پیدا ہوگئی۔ مغرب نے ہمیں یہ سکھایا کہ ہر وہ شئے جس کا رشتہ قدیم نسلوں، قدیم مذاہب اور قدیم اخلاقی پیمانوں سے ہے، اس عہد ارتقا میں ناقابلِ اعتبار ہے۔ اس جھاڑ جھنکار میں الجھنے کے بعد انسان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا اور عہدِ جدید کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا۔ آج یہ افسوسناک صورتِ حال ہمیں اس منزل تک لے آئی ہے جہاں بیٹا باپ کے لیے اجنبی اور بیٹی ماں کے لیے ایک متوحش وجود بن کر رہ گئی ہے۔
ملک کی دیگر قومیں اپنے اس تہذیبی و اخلاقی نقصان پر زیادہ فکر مند نہیں اور حالات جس رخ پر بھی انھیں لے جائیں جانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن جدید نسلوں کو مادہ پرستی اور اخلاقی پستی کے جس دلدل میں ماحول ڈھکیل رہا ہے، اس سے بچانا اس ملّت کے لیے ایک بنیادی فریضہ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ آج ہم اسی موضوع پر غور کرنے جارہے ہیں کہ آخر کس طرح ہم اپنی نسلوں کو، اپنے گھر اور خاندان کے بچوں کو ان تمام بری عادتوں سے محفوظ رکھیں جو ہمارے ماحول میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہیں اور ہمارے نو عمر بچے ان کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
اپنے متعلقین اور گردوپیش کے بچوں کو ان تمام طور طریقوں سے بچانا جو ہمارے دین و عقیدے سے ٹکرا رہی ہیں ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور دنیوی فریضہ بھی ہے۔ دنیوی فریضہ اس لیے ہے کہ خراب عادات و اطوار کی زد میں آکر بچے تعلیم کی راہ پر آگے نہیں بڑھ پاتے۔ دوسرے وہ اپنے گھر اور خاندان اور معاشرے کے لیے ایک عذاب بن جاتے ہیں۔ دینی فریضہ یہ ہے کہ ہم نے بچوں کو خراب راستے پر چلنے سے اگر روکنے کی کوشش نہ کی تو خدا کے حضور ہم مواخذہ سے بچ نہیں سکتے۔ اس لیے کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد خداوندی ہے: ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اہل و عیال کو آتشِ دوزخ سے بچاؤ، وہ آتش دوزخ جس کاایندھن انسان بھی ہوں گے اور اصنام بھی۔‘‘ بقول سید معین الدین قادری جہنم سے بچانا کوئی عارضی و لمحاتی کام نہیں بلکہ یہ ایک لمبا سفر ہے جو اخلاق و عادات، رہائش اور لباس اور طرزِ عمل کی شاہراہ پر ہوش سنبھالنے سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔‘‘ بچے کے اندر یہ شعور پیدا کرنا کہ اسے کچھ باتوں کو ترک کرنا ہے اور کچھ باتوں کو اختیار کرنا ہے۔ اکثر ابتدائی عمر میں بچے کے اندر اچھائی و برائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا اگر ہوتی ہے تو ماحول کی ترغیبات اسے برائی کی طرف ڈھکیلتی رہتی ہیں۔ بچے کی اخلاقی سطح بلند کرنے کے لیے والدین بے حد فکر مند ہوں تبھی وہ ماحول کی غلاظتوں سے بچا سکتے ہیں۔
لیکن یہ بے حد دشوار کام ہے۔ اکثر ناپسندیدہ عادتوں سے دوررکھنے کے لیے والدین یا سرپرست بہترین اخلاقی رویہ اختیار کرنے کے بجائے بدمزاجی اور بدزبانی کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں جو اس مسئلہ کا قطعاً حل نہیں۔ بدمزاج والدین اولاد کے خلاف بسا اوقات نفرت کا اظہار تک کرنے لگتے ہیں۔ اس سے بچے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ وہ اور زیادہ بغاوت پسند اور خود سرہونے لگتا ہے۔ ماحول اسے بار بار تلقین کرتا ہے کہ بوڑھوں اور بزرگوں کا تم پر کوئی حق نہیں۔ یہ محض تمہاری راہ میں روڑا اٹکاتے رہتے ہیں۔ ان سے مکمل آزادی حاصل کرنے میں خوش حالی مضمر ہے۔ یہ احساس بچوں کو تباہ کردیتا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے بچے ہوں یا بڑے سب کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اپنی اولاد کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کرو اور اچھے ڈھنگ سے ان کی تربیت کرو۔‘‘ خود حضوراکرم ﷺ نے بچوں کی تربیت، شفقت اور نرمی کے ساتھ کی۔ حضرت انسؓ کے بچپن کے دس سال حضورﷺ کے زیرِ سایہ گزرے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس مدت میں آپؐ نے کبھی ڈانٹ پھٹکار کی روش اختیار نہ کی اور نہ کبھی آپ نے مجھ سے یہ فرمایا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہ کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار آپ نے ایک کام سے مجھے ایک جگہ بھیجا۔ میں گھر سے نکل کر چند لڑکوں کے پاس پہنچا جو کھیل رہے تھے، تھوڑی دیر میں آنحضورﷺ وہاں تشریف لائے اور پیچھے سے میری گردن پکڑی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو آپ مسکرارہے تھے اور فرمایا: بیٹے جہاں میں نے تمہیں بھیجا تھا وہاںنہیں گئے۔ میں نے عرض کیا: حضور، ابھی جارہا ہوں۔‘‘
والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی چلت پھرت، عادات اطوار اور طرزِ گفتگو پر گہری نظر رکھیں۔ بچوں کی خامیوں پر نہ ٹوکنا اور ان کی بڑی بڑی غلطیوں کو بچپن کی نادانی قرار دے کر نظر انداز کرنا بھی مناسب نہیں۔ اس طرح بری عادتیں بچوں میں جڑ پکڑنے لگتی ہیں اورپھر ان پر بند باندھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
بچوں کی ناپسندیدہ عادتیں ختم کرنے کے لیے جسمانی سزا کبھی مفید نہیں ہوتی بلکہ الٹا اس کا بے حد خراب ردّ عمل ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت لطف و محبت کے ساتھ اور ہمدردانہ انداز سے ہوتو زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ کوئی بھی اصلاح نفرت و بیزاری اور غیظ و غضب کے ساتھ کارگر نہیں ہوتی۔ البتہ مسلسل بری راہ پر چلنے کے نتیجے میں سزا کے اندیشے کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ خاص طور پر اخلاقی عیوب کے معاملے میں سختی کی منزل اس وقت آجاتی ہے جب بچہ نڈر، گستاخ اور بدمزاج ہوگیا ہو۔ بچے کو اس منزل تک ہماری غفلت اور اس کے مسائل سے عدم دلچسپی لے جاتی ہے۔
ایک باخبر اور ہوش مند خاندان میں ماں اور باپ دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں تب اس سانچہ میں ایک بچہ صحیح طور پر ڈھلتا ہے،جو اسلامی تہذیب کا سانچہ ہے۔ سونے جاگنے، کھانے پینے، لباس کے انتخاب بزرگوں کے ساتھ پیش آنے، اپنے کو پاک صاف رکھنے، اپنی زبان کو ہرگندے لفظ سے پاک رکھنے جیسے سیکڑوں معاملات ہیں جن میں بچے کو شروع شروع میں سکھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس مرحلہ میں جو لوگ غفلت برتتے ہیں ان کے بچے خود رو جھاڑ جھنکار کی طرح بڑھتے ہیں اور ماحول کے لیے اذیت ناک بن جاتے ہیں۔ بچوں میں زبان اور جسم کی طہارت کا شعور پیدا کرنا لازم ہے۔ تاکہ وہ نجاست سے بچ سکیں اور خراب الفاظ منھ سے نہ نکالیں۔ اب اگر یہ خرابی ان کے اندر جڑ پکڑ رہی ہے تو اس کی اصلاح کے لیے والدین کو زیادہ وقت اور توجہ صرف کرنی پڑتی ہے۔ وہ قصے کہانیاں، حکایات اور تاریخی واقعات سنا کر بچوں کے ذہن کو موڑ سکتے ہیں۔ ڈانٹ ڈپٹ کبھی مفید ثابت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اس کا کبھی کبھی شدید ردِ عمل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شفقت، نرمی، محبت اور میٹھے لب و لہجے میں گفتگو بے حد کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اس صورت میں نوعمر بچے والدین کو اپنا دوست سمجھنے لگتے ہیں اور تکلف، خوف، دہشت کی دیواریں بچوں اور بڑوں کے بیچ میں کھڑی نہیں ہونے پاتیں۔
بچوں کی ناپسندیدہ عادتیں چھڑانے کے معاملے میں ہمیں بدحواسی وحشت، غیظ و غضب سے کنارہ کش ہوکر اور بچوں کا ہمدرد و غم خوار بن کر سامنے آنا ہوگا۔ آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوگی تو آپ کابچہ آپ سے خوفزدہ نہیں ہوگا۔ وہ آپ کے ہمدردانہ طرزِ عمل سے اپنی غلطی پر نادم ہوگا اور اپنے خراب اطوار کو خود چھوڑدینے پر تیار ہوجائے گا۔
بچوں کی ناپسندیدہ عادتوں کا سرچشمہ ماحول اور پاس پڑوس کے بگڑے ہوئے بچے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے طرح طرح کی خراب عادتیں اختیار کرلیتے ہیں۔ آپ اپنے بچے کو اس ماحول سے یکسر قطع تعلق پر مجبور کریں تو اسے گھر کی زندگی ایک جیل خانہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے ایسے گھر اور خاندان ہوتے ہیں جہاں بچوں کو پیر ہلانے اور کھیلنے کودنے اور بات چیت، ہنسی اور مذاق کے لیے جگہ اور ہم عمر بچے نہیں مل پاتے۔ وہ مجبور ہوکر کھیل کود، تفریح اور بات چیت کے لیے باہر نکل جاتے ہیں اور خراب صحبت میں پڑجاتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین وہ اسباب فراہم کریں جو ایک بچے کی فطری ضرورت ہیں۔ والدین کچھ وقت فارغ کرکے پارک یا کسی بھی میدان یا تفریح کی جگہ بچوں کو لے جائیں، اس دوران ان سے بات کریں۔ کچھ ایسے گھرانوں سے ربط ضبط رکھیں جہاں بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہے۔ خود گھر میں ان کے لیے اسباب مہیا کریں جن میں بچوں کی دل بستگی کا سامان ہو۔ اس طرح خراب ماحول سے بچے کا رشتہ کاٹ کر اس کو ایک اچھا ماحول مہیا کرنے کے نتیجے میں خود بخود ناپسندیدہ اطوار سے بچہ نجات حاصل کرلے گا۔
لیکن اس طرزِ عمل میں یہ خیال رکھاجائے کہ بچے کے اندر ماحول سے نفرت اور انسانوں سے وحشت نہ ابھرنے لگے۔ اسے عام انسانوں، ہمسایوں اور دوستوں کے ساتھ ادب سے پیش آنے کی ترغیب دینی چاہیے۔رسول اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ قطع تعلق کرنے والا جنت میںداخل نہ ہوگااور اللہ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لیے بہترین ہو۔ اسی طرح اپنے بزرگوں، بھائی بہن اور عزیز و اقارب کے احترام اور ان سے محبت کی حرارت بچوں کے دل میں پیدا کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اپنی ترش روئی سے بچے کو چڑچڑا بنادیں گے تو وہ نہایت خود غرض اور اپنے علاوہ سب پر حقارت کی نگاہ ڈالنے والا بن جائے گا۔
خود پسندی، بدگمانی، بدخواہی، کبرو نخوت، غصہ ، برہمی، عناد اور قطع تعلق جیسے امراض سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے والدین کو خاصی چوکسی برتنی ہوتی ہے۔ زندگی کے ابتدائی دس پندرہ سال بے حد فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اسی دوران انسان کی شخصیت کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اس مرحلے میں نو عمر بچے کو اگر اپنا ہمدرد، مشفق، مونس اور غم خوار نہ ملے تو وہ جھنجھلا جاتا ہے اور جدھر بھی سینگ سماتے ہیں بھاگنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر والدین خبردار(alert) ہوتے ہیں تو پھر وہ آسانی سے اچھی عادات و اطورا سیکھ لیتا ہے اور بری عادتوں سے بچتا اور ان سے چھٹکارا پالیتا ہے۔ گویا بچوں کی خراب عادتیں ختم کرنے اور اچھی عادتیں اختیار کرنے پر ان کو آمادہ کرنا ایک باپ اور ماں کے لیے زندگی کا سب سے فیصلہ کن چیلنج ہے۔ جو لوگ اس کا پامردی سے سامنا نہیں کرتے ہیں ان کی نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔
——