بہت سی خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ چاہے گھر ہو یا باہر، وہ وہی کرتی ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے، کوئی کیا کہہ رہا ہے؟ اس بات سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اگر ان کے کسی کام سے کسی کا دل بھی دکھ رہا ہو / تکلیف پہنچ رہی ہو تو بھی انہیں اس کاخیال نہیں رہتا۔ وہ صرف اپنے میں ہی مست رہتی ہیں۔ کہیں آپ بھی اسی عادت کی شکار تو نہیں؟ اس کے جائزے کے لیے ہم سوال و جواب کی صورت میں ایک خاکہ آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
یہ اپنی ذات کے احتساب اور اپنے رویوں کے جائزہ کاایک خاکہ ہے۔ اس میں الف، ب اور ج تین شقیں ہیں جو ہماری ذات کی موجودہ حالت کی طرف نشان دہی کرتی ہیں۔ دورانِ مطالعہ آپ دیکھیں کہ آپ کس پوائنٹ الف، ب یاج پر کھڑی ہیں۔ اس کے بعد کوشش کریں کہ جو اعلیٰ ترین اخلاقی رویہ ہوسکتا ہے اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس شق میں ایک اعلیٰ، ایک درمیانی اور ایک ادنیٰ یا منفی رویہ ہے۔ ایسے میں کوشش یہ کرنی ہے کہ ہم منفی رویہ چھوڑ کر بتدریج درمیانی اور اعلیٰ کی طرف آئیں۔
(۱) آپ شہر سے باہر جارہی ہیں، بچوں سے ان کی پسند کے متعلق دریافت کررہی ہیں گھر میں خاندان کے دیگر لوگ بھی رہتے ہیں۔ ایسے میںآپ کیا ان لوگوں سے بھی ان کی پسند کی چیزوں کے متعلق دریافت کریں گی؟
(الف) ہاں، کیوں کہ آپ گھر کے سبھی لوگوں کو اہمیت دیتی ہیں۔
(ب) یہ سوچیں گی کہ دیگر لوگوں کے لیے میں کیوں پیسے خرچ کروں…
(ج) جو دل چاہے گا، لے آئیں گی۔
(۲) گھر کے بڑے بزرگ رسم و رواج یااخلاق و کردار سے متعلق جب کوئی اہم بات بتاتے ہیں تو ان کی باتوں پر آپ غور فرماتی ہیں اور
(الف) بات پسند نہ آنے پر انہیں فوراً جواب دے دیتی ہیں۔
(ب) ہاں! ان کی باتوں کو غور سے سماعت فرماتی ہیں پھر ان پر عمل بھی کرتی ہیں۔
(ج) آپ پریشان ہوجاتی ہیں، لیکن کچھ کہتی نہیں۔
(۳) جب بھی آپ کے شوہر باہر سے کھانے پینے کا کچھ سامان لاتے ہیں تو ایسی چیزیں بچوں کو دینے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے ساس سسر کو بھی پیش کرتی ہیں۔
(الف) سب کو ساتھ ساتھ دیتی ہیں۔
(ب) پہلے ساس سسر کو ہی دیتی ہیں۔
(ج) صرف بچوں کو دیتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ باہر کی چیزیں ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گی۔
(۴)آپ کے پڑوس کے گھر کوئی تقریب ہے یا اس کے گھر کوئی بیمار ہے اور ان میں سے کسی صورت میں وہ آپ سے اپنے کسی کام میں تعاون چاہتی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ براہِ کرم میرا فلاں کام کردیجیے تو آپ:
(الف) کام میں تعاون کے لیے فوراً رضا مندی ظاہر کردیں گی۔
(ب) کہیں گی کہ اگر موقع ملا تو میں آپ کا کام کرسکتی ہوں۔
(جا) صاف انکار کردیتی ہیں کہ میرے پاس وقت نہیں۔
(۵) ہر ہفتہ آپ خواتین کے کسی اجتماع میں شرکت کے لیے جاتی ہیں، وہاں آپ کی ملاقات مختلف سطح کی خواتین سے ہوتی ہے اور پھر اجتماع ختم ہونے کے بعد باہمی ملاقاتوں اور گفتگوؤں کا سلسلہ چل نکلتا ہے ایسے میں آپ:
(الف) صرف اپنی قریبی سہیلیوں یا اپنے جیسے لباس و انداز والی خواتین ہی سے ملتی ہیں۔
(ب) تمام خواتین سے متعارف ہوتی اور گھلتی ملتی ہیں۔
(ج) صرف تقریر سن کر سیدھے نکل آتی ہیں۔
(۶)آپ کسی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے اپنے کسی رشتے دار/ سہیلی کے گھر تشریف لے گئی ہیں، کمرے کی لائٹ جل رہی ہے۔ آپ جلدی سے سونا چاہتی ہیں جبکہ باقی لوگ تھوڑی دیر بعد۔ ایسے میں آپ:
(۱لف) لائٹ بند کرنے کے لیے ضد کریں گی۔
(ب) کسی کو پریشان کیے بغیر خاموشی کے ساتھ سوجائیں گی۔
(ج)زیادہ پریشانی ہوئی تولائٹ بند کرنے کی گزارش کریں گی۔
(۷) آپ سفرمیں ہیں، سفر کے دوران آپ کی ملاقات ایک بزرگ خاتون سے ہوتی ہے۔ آپ کا اسٹیشن آنے سے پہلے آپ کی ہم سفر کااسٹیشن آگیاہے۔ ایسے میں:
(الف) ان کی مدد کریں گی تاکہ وہ اپنا سامان آرام سے اتارسکیں۔
(ب) اگر وہ کہیں گی تو مدد کردیں گی نہیں تو چپ چاپ اپنی سیٹ پر بیٹھی رہیں گی۔
(ج) دورانِ سفر ملنے والوں کے بارے میں آپ دھیان نہیں دیتی ہیں۔
(۸)آپ اسکول میں ٹیچر ہیں یا کسی ادارے میں کام کرتی ہیں، آپ کی کسی دوسری ساتھی نے آپ کے کسی رویے کی شکایت کسی تیسری ساتھی سے تذکرہ کے طور پر کردی۔ کسی موقع پر تیسری ساتھی نے آپ سے اس کی شکایت کا تذکرہ کردیا تو ایسے میں آپ کا ردعمل یہ ہوگا کہ:
(الف) آپ سن کر آگ بگولہ ہوجائیں گی اور اسے سبق سکھانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیں گی۔
(ب) اپنے رویے کا جائزہ لے کر پتہ لگائیں گی کہ کیا واقعی اس میں حقیقت ہے۔
(ج) سنی اَن سنی کردیں گی۔
(۹) آپ پیدل کہیں چلی جارہی ہیں اور اچانک راستے میں ایک کم عمر بچہ اپنی سائیکل کیساتھ آپ سے ٹکرا جاتا ہے ایسے میں آپ کا رویہ ہوگا:
(الف) اسے زور سے ڈانٹ دیں گی، ساتھ ہی اس کے گھر والوں کو بھی کوسنے لگیں گی کہ کیسے گھر والے ہیں جو اسے سائیکل دے دی ہے۔
(ب) فورآ کہیں گی کہ جب اچھی طرح سائیکل چلانا سیکھ لینا تب سڑک پر سائیکل چلانا۔
(ج) اس سے کہیں گی کہ بیٹا! سنبھال کر سائیکل چلایا کرو۔
(۱۰) گھر میں جب آپ کے ساس سسر یا خاندان کا کوئی شخص آپ سے کوئی اہم بات دریافت کرتے ہیں تو آپ:
(الف) پرسکون انداز میں ان کی بات کا جواب دیتی ہیں۔
(ب) دھیان نہیں دیتیں، دل میں آیا تو جواب دے دیا ورنہ پلٹ کر چل دیتی ہیں۔
(ج) جھلا اٹھتی ہیں کیونکہ آپ سوچتی ہیں کہ ان باتوں سے کسی کا کوئی سروکار نہیں۔
(بنیادی خیال محترمہ کیرتی سنگھ کی تحریر سے ماخوذ)
——