آج کل کی مصروف ترین زندگی میں سکون کا ایک پل بھی میسر ہوجائے تو زندگی بڑی حسین معلوم ہوتی ہے۔ دن بھر کی محنت مزدوری کے بعد جب کوئی اپنے گھر لوٹتا ہے تب بس دل یہی چاہتا ہے کہ ہلکا پھلکا ناشتہ فرماکر دو پل سکون سے گزارے۔ یا پھر نیوز پیپر یا کسی کتاب کی ورق گردانی کرے یا تفریح کے لیے ٹی وی سیٹ کھول کر سامنے بیٹھ جائے اور بازو میں شریکِ حیات ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔
ایک شام جب میں دفتر سے گھر پہنچا، پہلا ہی قدم گھر میں رکھا تھا کہ میرے چھ سالہ فرزند نے حسبِ معمول کئی سوالات کی بوچھار کردی۔
’’پپا آپ کا دفتر کہاں ہے؟ پپا آپ دفتر میں کیا کرتے ہو؟ آپ دفتر سے اتنی دیر سے کیوں آتے ہو؟ پپا مجھے سائیکل کب لادو گے؟ پپا، ہم سرکس دیکھنے کب جائیں گے؟ پپا……؟‘‘
ہر سوال کا جواب دینے کے بعد بھی بیٹے کے سوالو ںکا سلسلہ نہیں تھما تب مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ سامنے ہی میز پر نیوز پیپر پڑا تھا۔ اس پر دنیا کانقشہ بنا ہوا تھا۔ میں نے دنیا کے نقشے کو نیوز پیپر سے کاٹ کر علاحدہ کردیا پھر اس نقشے کے تقریباً پندرہ سولہ ٹکڑے کیے۔ بیٹے نے پھر سوال کیا:
’’پیا آپ ایسا کیوں کررہے ہو؟ آپ نے نقشے کے اتنے سارے ٹکڑے کیوں کیے؟‘‘
میں نے نقشے کے ٹکڑوں کو بیٹے کے ہاتھ پر رکھ کر پچکارتے ہوئے کہا:
’’بیٹا! دیکھو میں نے دنیا کے نقشے کے کئی ٹکڑے کردیے ہیں۔ تم ایک جگہ بیٹھ کر ان تمام ٹکڑوں کو جوڑ کر دنیا کے نقشے کو مکمل کرکے مجھے دکھاؤ۔ میں تمہیں انعام میں چاکلیٹ دوں گا۔‘‘
میں نے سوچا اب کم از کم دو تین گھنٹے بغیر مداخلت سے سکون سے گزر جائیں گے۔ بیٹا تمام ٹکڑوں کو لے کر کمرے کے ایک گوشے میں بیٹھ گیا۔ مجھے حیرت ہوئی جب چند ہی منٹوں بعد وہ میرے پاس آیا اور چہک کر کہنے لگا:
’’پپا پپا یہ لیجیے دنیا کا نقشہ تیارہے ۔‘‘
میں نے پوچھا : ’’بیٹے! تم نے گھنٹوں کا کام منٹوں میں کیسے کردیا؟‘‘
بیٹے نے کہا:’’پپا، دنیا کے نقشے کی پشت پر ایک آدمی کی تصویر ہے۔ میں نے اسے آسانی سے جوڑ دیا۔ پپا آدمی کو جوڑیں تو دنیا جڑجاتی ہے۔ سچ ہے نہ پپا۔اب میں آپ کے پاس بیٹھوں؟‘‘
میں نے فرطِ مسرت سے اپنے بیٹے کو اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔
——