سیرتِ نبویؐ کے مطالعے کا مقصد محض یہ نہیں ہے کہ تاریخی واقعات سے آگاہی اور عہدِ نبویؐ میں پیش آنے والے حوادث کا مختصر یا تفصیلی علم ہوجائے، سیرتِ نبویؐ کے مطالعے کو دیگر تاریخی مطالعات کی حیثیت دینا اور آں حضرت ﷺ کی سیرت سے اس طرح واقفیت حاصل کرنا جیسے کسی راجہ یا بادشاہ کی زندگی اور فتح و شکست کی تاریخ یا کسی گزشتہ تاریخی عہدکے بارے میں حاصل کی جاتی ہے نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی کافی۔ مطالعۂ سیرت کا اصل مقصد یہ ہے کہ مسلمان اسلامی حقائق کو اصول وضوابط اور احکام کی حیثیت سے نظریاتی طور پر سمجھ لینے کے بعد انھیں آں حضرت ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں عملی شکل میں دیکھیں۔ سیرتِ نبوی کا مطالعہ ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے اسلامی تعلیمات اور حقائق کو مکمل طور پر اسوئہ حسنہ حضرت محمد ﷺ کی شخصیت میں دیکھا جائے اور اس اسوہ کواپنی زندگی میں اتارنے کی جدوجہد ہو۔ اس بات کو ہم درج ذیل پوائنٹ کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں:
(۱) تاکہ رسول اللہ ﷺ کی حیات اور احوال کا مطالعہ کرکے آپؐ کی نبوی حیثیت کو سمجھا جاسکے اور اس چیز کی بہ خوبی وضاحت ہوجائے کہ آپﷺ محض ایک عبقری شخصیت کے مالک نہ تھے، آپ کی اولین حیثیت رسول کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی اور خصوصی تائید سے نوازا تھا۔
(۲) تاکہ انسان کے سامنے اعلیٰ و اشرف زندگی کے ہر معاملے میں عظیم نمونہ موجود رہے، اور وہ اسے اپنا دستور اور نشان منزل بنالے۔ فرمایا:
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ۔ (الاحزاب:۲۱)
’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
(۳) تاکہ انسان سیرتِ رسول ﷺ کا مطالعہ کرکے کتابِ الٰہی کو سمجھنے اور اس کی روح اور مقاصد سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد لے سکے۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم کی بہ کثرت آیات کی تفسیر و توضیح رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور ان کے سلسلے میں آپ کے رویوں سے ہوتی ہے۔
(۴) تاکہ مطالعۂ سیرت کے ذریعے ایک مسلمان کے پاس عقیدہ، احکام اور اخلاق سے متعلق صحیح اسلامی تعلیمات کا ایک وافر ذخیرہ ہوجائے۔ اس لیے کہ آں حضرت ﷺ کی زندگی اسلام کے تمام اصول و احکام کا عملی نمونہ تھی۔
(۵) تاکہ داعی اور معلم کے سامنے تربیت و تعلیم کا ایک زندہ نمونہ رہے۔ اس لیے کہ حضرت محمد ﷺ ایک خیر خواہ معلّم اور عظیم مربی تھے۔
سیرت رسول اللہ ﷺ کا مطالعہ کرنے سے مذکورہ بالا تمام مقاصد پورے ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ آپ کی حیات انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تمام پہلوؤں پر حاوی تھی۔ اس سے ایک ایسے انسان کا نمونہ سامنے آتا ہے جو کردار کا صاف ستھرا اور اپنی قوم کے لوگوں اور معاشرے کے افراد کے ساتھ امانت دار ہے۔ ایک ایسے داعی کا نمونہ سامنے آتا ہے جو لوگوں کو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہے اور اپنے پیغام کی تبلیغ کے راستے میں پوری طاقت صرف کردیتا ہے۔ ایک ایسے سربراہ حکومت کا نمونہ سامنے آتا ہے، جو پوری مہارت اور انتہائی حکمت کے ساتھ معاملات نپٹاتا ہے۔ ایک ایسے مثالی شوہر کانمونہ سامنے آتا ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے۔ ایک ایسے باپ کا نمونہ سامنے آتا ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آتا ہے۔ ایک ماہر فوجی سپہ سالار اور زیرک سیاست داں کا نمونہ سامنے آتا ہے۔ ایک ایسے مسلمان کا نمونہ سامنے آتا ہے جو اپنے رب کا عبادت گزار اور اس کی طرف یکسو ہوتا ہے اور اپنے اہل و عیال اور اصحاب کے ساتھ بھی پرلطف زندگی گزارتاہے اور دقت و باریکی کے ساتھ دونوں پہلوؤں میں توازن قائم رکھتا ہے۔
——