ایک انسان کے دوسرے انسان پر انسانی برادری کی حیثیت سے بھی کچھ فرائض ہیں، جن سے عہدہ برآ ہونا ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے۔ تبلیغ یعنی غیر مسلم انسانوں کو اسلام کی دعوت کا جو حکم ہے، اس کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ جس چیز کو ایک مسلمان سچائی سمجھتا ہے، اُس کا انسانی فرض ہے کہ وہ اس سے دوسرے انسانوں کو آگاہ اور باخبر کرے، اور یہ انسانی خیر خواہی کا لازمی نتیجہ ہے۔ قرآنِ پاک نے تورات کے بعض احکام کو دہرایا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے:
وقولوا للناس حسنا۔ (البقرۃ:۱۰)
’’اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘
لوگوں سے اچھی بات کہنااور اچھائی سے پیش آنا، انسانیت کا فرض ہے، جس میں کسی دین و مذہب کی تخصیص نہیں، دین و مذہب اور نسل و قومیت کا اختلاف اس منصفانہ برتاؤ سے باز نہ رکھے۔ اسی لیے ارشاد ہوا:
’’اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل اور انصاف نہ کرو، عدل اور انصاف (ہرحال میں) کرو کہ یہ بات تقویٰ کے قریب ہے۔‘‘ (مائدہ: ۲)
ہر قسم کا برا سلوک اور بے رحمانہ برتاؤ جو ایک انسان دوسرے انسان، اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے، اس کا اصل سبب یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے حق میں عدل سے کام نہیںلیتا، بلکہ اس پر ظلم اور بے انصافی کے لیے آمادہ رہتا ہے۔ یہ آیتِ پاک انسان کے اسی مادئہ فاسد کے سرچشمہ کو بند کرتی ہے۔ ابوہریرہؓ اور انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’آپس میں ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے منھ پھیرو، اور سب مل کرایک خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ (بخاری:۲)
بعض روایتوں میں الفاظ یہ ہیں:
’’ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، اور نہ ایک دوسرے سے منھ پھیرو، اور اے خدا کے بند! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث پاک میں انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا گیا ہے جس پر سچائی کے ساتھ عمل کیا جائے تو یہ شر اور فساد سے بھری ہوئی دنیا دفعتاً جنت بن جائے۔ فرمایا: من لا یرحم لا یرحم (بخاری) ’’جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اس پر خدا رحم نہیں کرتا، یا یہ کہ جو دوسرے پر رحم نہیں کرتا، دوسرا بھی اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘ مستدرک حاکم میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘ یہ حدیث رحمۃ للعالمین ﷺ کی تعلیم کی شانِ رحمت کو کتنی عمومیت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ ایک اور موقع پر ارشاد ہوا کہ ’’جو مسلمان کوئی درخت لگائے گا، اس سے جو انسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا۔ اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔‘‘ (بخاری)
اس فیض کے عموم میں انسانیت کی قید بھی نہیں ہے۔ ایک دفعہ آپ نے ایک شخص کا قصہ بیان کیا جس نے ایک جانور کے ساتھ نیک سلوک کیا تھا کہ اس کو اس کے اس کام پر ثواب ملا۔ صحابہؓ نے پوچھا اے خدا کے رسول! کیا جانوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں بھی ثواب ہے۔ فرمایا: ہر تر جگر کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے۔یعنی ہر اُس ہستی کے ساتھ جس میں زندگی کی تری ہے نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے۔ (بخاری) اس ثواب کے دائرہ میں ہر وہ ہستی شریک ہے جو زندگی سے بہرہ ور ہے۔
جامع ترمذی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے ارشاد فرمایا: ’’جہاں بھی ہو خدا کا خیال رکھو۔ برائی کے پیچھے بھلائی کرو گے تو اس کو مٹادو گے، اور لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘ (باب ماجاء فی معاشرۃ الناس صفحہ ۳۳۱) ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورﷺ نے پانچ باتیں گنائیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ واحب للناس ماتحب لنفسک یعنی ’’تم لوگوں (ناس) کے لیے وہی چاہو جو تم اپنے لیے چاہتے ہو تو مسلمان بن جاؤ گے۔‘‘(ترمذی ابواب الزہد، غریب) الناس کا لفظ عام ہے جس میں تمام انسان داخل ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جب تک سارے انسانوں کی بھلائی کا جذبہ دل میں نہ ہو انسان پورا مسلمان نہیں بنتا۔
کیونکہ دوسروں کے لیے وہی چاہنا جو اپنے لیے چاہو اخلاق کی وہ تعلیم ہے جو انسانی برادری کے ہر قسم کے حقوق کی بنیاد ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ تعلیم ان الفاظ میں ہے کہ تم اپنے بھائی کے لیے وہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔ بھائی کے لفظ سے مسلمان بھی مراد ہوسکتا ہے، اور ایک عام انسان بھی۔ تورات اور انجیل کے اندر یہی تعلیم ان لفظوں میں ہے کہ ’’تم اپنے پڑوسی کو ایسا چاہو جیساکہ تم اپنے آپ کو چاہتے ہو۔‘‘ صحابۂ کرام نے اس تعلیم کی پیروی میں یہودی اور عیسائی پڑوسیوں کا حق بھی مسلمان پڑوسیوں ہی کی طرح مانا ہے۔
صدقہ و خیرات کے باب میں گو فقرا اور مساکین میں مسلمانوں کی ترجیح ایک قدرتی باب ہے، تاہم حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی خلافت کے زمانے میںغیر مسلم ذمی مسکینوں کے حق کو بھی تسلیم کیا۔ قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ایک بڈھا جو اندھا بھی تھا، ایک دروازے پر کھڑا بھیک مانگ رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پیچھے سے اس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا کہ تم کو بھیک مانگنے کی ضرورت کیا پڑی؟ اس نے کہا جزیہ ادا کرنے اور اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی اس عمر کے سبب سے بھیک مانگتا ہوں۔ حضرت عمرؓ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لائے اور اپنے گھر سے اس کو کچھ دیا۔ پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجا، اور کہلوایا کہ اس کو اور اس جیسے لوگوں کو دیکھو، خدا کی قسم ہم انصاف نہیں کریں گے، اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی تو کھائیں اور اس کے بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں۔ قرآن میں صدقہ کی اجازت فقرا اور مساکین کے لیے ہے۔ فقرا تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ لوگ مساکین اہلِ کتاب میں ہیں،اُن سے جزیہ نہ لیا جائے۔
اسلام کا یہ عام فیصلہ ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے عام صدقے غیر مسلموں کو دیے جاسکتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا۔ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے اپنے دو یہودی رشتہ داروں کو ۳۰ ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا۔ امام مجاہد نے مشرک رشتہ دار کا قرض معاف کرنے کو ثواب کا کام بتایا۔ ابنِ جریج محدث کہتے ہیں کہ قرآن نے ’’اسیر‘‘ کے کھلانے کو ثواب بتایا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کے قبضے میں مشرک ہی قید ہوکر آتے تھے۔ ابو میسرہؓ اور عمرو بن میمونؓ اور عمرو بن ؓ شرحبیل صدقۂ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں حضرت عمرؓ نے اپنے مشرک بھائی کو تحفہ بھیجا۔ اور خود حضور ﷺ نے بعضوں کو ان کے مشرک والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی اجازت دی۔
تفسیر کی روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ جب مذہبی اختلاف کی بنا پر غریب مشرکوں کی مدد سے کنارہ کرنے لگے تو یہ آیت اتری:
’’ان کو راہ پر لے آنا تمہارے اختیار کی بات نہیں، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے، راہ پر لے آتا ہے۔ اور جو بھلائی، خرچ کرو وہ تمہارے ہی لیے ہے۔‘‘ (البقرۃ:۳۷)
یعنی تم کو تمہاری نیکی کا ثواب بہر حال ملے گا۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی اس وقت تک پورا مومن نہیں ہوگا جب تک وہ اور لوگوں کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اور جب تک وہ آدمی کو صرف خدا کے لیے پیار نہ کرے۔‘‘
اس حدیث میں محبتِ انسانی کی وسعت ساری انسانی برادری تک وسیع کردی گئی ہے۔
——