ہندوستانی خواتین کے اہم مسائل

شمشاد حسین فلاحی

عورت نصف انسانیت ہے۔ کسی بھی سماج میں عورت کی حیثیت اور حالت اس سماج کے مہذب و غیر مہذب، ترقی یافتہ اور پسماندہ اور تعلیم یافتہ و غیرتعلیم یافتہ ہونے کی علامت ہے۔ سماج و معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اس کی حصہ داری تعمیر و ترقی کا پیمانہ ہے۔ اس کا سکون و اطمینان سماج و معاشرے کے امن و سکون کا معیار ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، مسلم سماج و معاشرہ ہو یا کوئی دوسرا ہر جگہ اس کی حالت تقریباً یکساں ہے۔ مشرق میں وہ باندی اور غلام ہے تو مغرب میں شتر بے مہار۔ مغرب آزادی کے نام پر اس کا استحصال کررہا ہے تو مشرق میں تحفظ کی سوچ اور سماجی وقار کے نام پر وہ مظلوم و مقہور ہے۔ بنیادی انسانی آزادی اور انسانی وقار کا اعلیٰ درجہ اسے کہیں بھی میسر نہیں۔ مغرب اندھا ہے کہ اسے اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں کیوں کہ وہ خدائی روشنی میں دیکھنے کا اہل نہیں۔ مشرق لنگڑا لولا ہے کہ دیکھنے کی پوری قوت کے باوجود ایک قدم بھی صحیح سمت میں بڑھانے کے قابل نہیں۔ مغرب نے اسے ترقی کے نام پر استحصال کا نشانہ بنایا کہ اس کے پاس دوسرے آلات کار بے کار ہوچکے تھے۔ مشرق نے سماجی اور پھر مذہبی روایات کی حفاظت کے نام پر اس پر ظلم جاری رکھا ہے کہ وہ نئے دور کے آلاتِ استحصال سے ہنوز ناواقف ہے۔ اور اب جیسے جیسے نئے آلات استحصال سے وہ واقف ہوتا جارہا ہے اسے اس کے استحصال کے لیے استعمال کرنا سیکھتا جارہا ہے۔ جی ہاں اب ہمارے ملک میں بھی خواتین کو نائٹ شفٹ میں کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے، جو پہلے نہ تھی۔ ہمارے میٹرو پالیٹن شہروں میں اب وہ نیویارک اور لندن کی طرح تیزی سے آزادی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ تباہی اور استحصال کی نئی شکلوں سے بھی اسے واسطہ ہے۔ عورت کے خلاف بڑھتے جرائم کی شکل میں، جنسی استحصال کی صورت میں اور بہت سی شکلوں میں – یہ عورت کے مسائل ہیں- وہ مسائل کہ اگر وہ زندہ رہے تو ان سے لازماً جنگ کرنے کے لیے مجبور ہوگی۔ لیکن ان تمام مسائل سے بڑھ کر اب ہمارے سماج میں عورت کا سب سے بڑا مسئلہ خود اس کا وجود ہے۔ جی ہاں، کیا اس ۲۱ویں صدی کے اختتام تک ہمارے سماج میں عورتیں اسی طرح مفقود ہوجائیں گی جس طرح آج جنگلوں میں باگھ، ہاتھی اور ببر شیر کم ہوتے جارہے ہیں کہ ماہرین کو خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ جلد ہی ختم ہوجائیں گے۔
عورت کے وجود کو خطرہ
گذشتہ مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار نے خواتین کے تناسب کو لے کر پورے ملک کو حیرت میں ڈال دیا کیوں کہ ملک کی کئی ریاستوں میں عورتوں کا تناسب کم پایا گیا۔ بعض ریاستوں میں یہ تناسب تشویشناک حد تک کم پایا گیا تھا۔ آخر ایسا کیوں ہوا۔ وجہ صاف ہے۔ ہمارے سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ عورت کو وہ اپنے لیے مسئلہ اور مشکلات و پریشانیوں کا ذریعہ تصور کرتا ہے۔ اس لیے … اس لیے نہیں چاہتا کہ عورت جو ایک بچی کی شکل میں اسے ملتی ہے، زندہ رہے۔ یہی ہمارے سماج میں عورت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اب یہ بات ہر ہندوستانی کو معلوم ہے کہ بیٹا پیدا ہو تو خوشی منائی جاتی ہے اور اگر بیٹی پیدا ہوجائے تو سارے گھر والوں کے منھ لٹک جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سی لڑکیاں پیدائش کے چند دنوں میں ہی مرجاتی ہیں یا مار دی جاتی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ غیر مطلوب (ان وانٹڈ) ہیں۔ مگر یہ تو ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو غریب ہیں، کم تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم یافتہ اور مالدار لوگ کیوں اس کی پیدائش کا بوجھ برداشت کریں؟ سائنسی ترقی کا شکریہ جس نے ہمیں آگاہ کردیا کہ ہونے والا بچہ بیٹی ہے نہ کہ بیٹا۔ بس پھر کیا پریشانی ہے۔ ہم بیٹا چاہتے ہیں تو بیٹی کیوں ہو۔ اور پھر آنکھیں کھلنے سے پہلے ہی اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ سیکس سلیکشن نہ کرو۔ اس نے قانون بھی اس سلسلے میںبنایا ہے۔ مگر قانون کا کسے پتہ ہے اور ہے بھی تو ڈر کس بات کا؟ یہا ںتو بہت سے راستے نکل ہی جاتے ہیں۔ کون ڈرتا ہے ۳ سال کی جیل اور پچاس ہزار کے جرمانے سے۔ اور وہ بھی تب ہوگا جب جرم ثابت ہوجائے گا۔ اور جرم بھلا کیسے ثابت ہوگا؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ آپ کو چونکائے گی نہیں! اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں دس ملین یعنی پوری ایک کروڑ لڑکیوں کو ہمارا سماج سیکس سلیکشن کے ذریعے قتل کرچکا ہے۔ جی ہاں پوری ایک کروڑ لڑکیاں دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کردی گئیں۔ مگر کیا یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ نہیں جاری ہے۔ اور اب برطانیہ کے ایک مؤقر جرنل لانسٹ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ہر سال پانچ لاکھ لڑکیوں کی کمی واقع ہورہی ہے۔ کیا ہم ایک ایسے سماج کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں عورت کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔ جی ہاں مگر نئے انداز سے۔ جب عورت ہی نہ ہوگی تو مسئلہ کہاں سے ہوگا۔ یہ عورت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مگر سوچتا کون ہے؟
دوسرا مسئلہ
یقینا لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور سماج میں ان کی پرورش بھی کی جاتی ہے۔ لیکن اس کا وجود بے شمار مسائل کو جھیلتا ہے۔ اس کی پرورش کے ساتھ دیگر مسائل اسے گھیر لیتے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ اس کے تحفظ کا ہے۔ معلوم وجوہات کی بنیاد پر اب ہمارے سماج کی عورت دن بہ دن غیر محفوظ ہوتی جاتی ہے۔ غیر محفوظ، مجرمین کے ہاتھوں، وہ آئے دن شکار ہوتی ہے، سڑکوں پر چلتے ہوئے، کام کاج کی جگہوں پر، گھروں میں اور تعلیم گاہوں میں بھی۔ نہ وہ گھرپر محفوظ ہے اور نہ گھر کے باہر۔ نہ شہروں میں اور نہ دیہی علاقوں میں۔ چھیڑ چھاڑ اور زنا بالجبر یعنی ’ریپ‘ کے واقعات کا برھتا تناسب حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اکتوبر ۲۰۰۳ء تک ملک کی مختلف عدالتوں میں ریپ کے ۵۶۰۰۰ معاملے پنڈنگ ہیں۔ جبکہ ۲۰۰۴ء میں صرف ملک کی راجدھانی دہلی ہی میں ۵۵۰ اس طرح کے معاملے درج کیے گئے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان معاملوں میں ۷۵ فیصد معاملات کم سن بچیوں کے اور ۲۵ فیصد معاملات ایسی بچیوں کے تھے جن کی عمریں ۱۲ سال سے بھی کم تھیں۔ یہ کیفیت ہے دہلی کے تعلیم یافتہ اور مہذب سماج کی۔
اسی طرح کا معاملہ لڑکیوں کی تسکری کا ہے جسے غیر قانونی ہیومن ٹریفکنگ بھی کہا جاتا ہے۔ بنگلور، چنئی، کوئمبتور، حیدرآباد اور ممبئی میں درج کیے گئے جرائم کے کل واقعات (1,907) میں سے ۴۲۲ اسی قسم کے تھے جن میںکم سن بچیوں کو خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ ہمارا سماج عورت کو کس درجہ میں رکھتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہریانہ میں ایک بھینس کی قیمت اٹھارہ سے چوبیس ہزار ہے۔ مگر ٹریفکنگ کے مجرم ایک لڑکی کو چار ہزار روپئے میں بیچ دیتے ہیں۔
تیسرا مسئلہ
ہمارے سماج میں خواتین کا تیسرا اور اہم مسئلہ ان کی شادی کو لے کر بنتا ہے۔ جہیز خواتین کے لیے ام المسائل ہے۔ دنیا میں آنے سے پہلے ہی ان کے قتل کے پیچھے یہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ جہیز جو سماجی خود غرضی اور ہوس پرستی کی بدترین شکل میں ہمارے درمیان ہے ہر سال ہزاروں خواتین کی جان لیتا ہے ہے اور لاکھوں خواتین کی زندگی کو جہنم زار بنائے ہوئے ہے۔ اس بیماری نے ایک طرف تو ہمارے سماج کی عورت کے لیے چیلنج پیدا کردیا ہے ، دوسری طرف ان غریب خاندانوں کے لیے ناقابلِ عبور سدِ راہ کھڑے کردیے ہیں جو ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی مالی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ہوس پرستی ہے اور ہوس پرستی کی نظر میں کیا غریب اور کیا مالدار – اب تو ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔
آپ تصور کیجیے، یہاں کتنی شادی شدہ خواتین جہیز کی آگ میں جلا دی جاتی ہیں۔ اچھی اچھی اور تعلیم یافتہ اورمالدار گھروں کی سلیقہ مند اور پڑھی لکھی لڑکیاں ہر روز اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ جی ہاں یہاں دو گھنٹہ بھی مکمل نہیں ہوپاتے کہ اس دوران ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں کوئی لڑکی اسی جہیز کے سبب زندگی کو تیاگ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں اوسطاً پانچ ہزار دلہنیں ہر سال جہیز کے لیے ماردی جاتی ہیں۔
ہوسکتا ہے روزانہ ماردی جانے والی ان دلہنوں میں آپ کی بیٹی، آپ کی بہن یا آپ کی کوئی عزیز رشتہ دار نہ ہو لیکن وہ کسی ماں باپ کی بیٹی، کسی بہن بھائی کی بہن اور کسی نہ کسی کی رشتہ دار تو ہے۔ مگر ہم کہاں سوچتے ہیں کہ وہ کون ہے اور کیوں مررہی ہے۔ شاید سوچیں اس وقت سوچیں جب خدانخواستہ ہماری اپنی کوئی اس کی بھینٹ چڑھ جائے۔
جی ہاں مسائل اور بھی ہیں اور بہت سے ہیں مگر ان بڑے مسائل کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا کہ یہ ہمارے سماج میں اب چلتے پھرتے مسائل نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی ان کا رونا روتا ہے مگر مگرمچھ کا رونا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک کروڑ لڑکیاں جو پچھلے بیس سالوںمیں ختم ہوگئیں وہ آج زندہ ہوتیں۔ اگر سماج کے لوگ واقعی سنجیدہ ہوتے تو ہر سال پانچ ہزار لڑکیاں قتل نہ ہوتیں اور یہ سلسلہ جاری نہ رہتا۔ اگر سماج عورتوں کے لیے ذمہ دار، حساس اور باشعور ہوتا توجرائم کا یہ گراف آسمان نہ چھو رہا ہوتا۔ یہ سب سماجی بے حسی اور فکر واحساس کی مردنی ہے جس نے عورت کی زندگی کو اجیرن بنارکھا ہے۔ تو آخر کہاں ہیں وہ لوگ جو لڑکی کی پرورش کو جنت کی ضمانت تصور کرتے ہیں؟ شاید وہ بھی اسی سماج کا حصہ بن گئے جس کی یہ کیفیت بتائی جاتی ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146