ماسٹر صاحب اپنے ذہین شاگرد کے سوال و جواب سے بہت پریشان تھے، ایک دن انھوں نے اپنی دانست میں شاگر دسے لاجواب کردینے والا سوال کردیا، پوچھا: بیٹے! اگر تم بتادو کہ اللہ کہاں ہے تو میں تمہیں سو روپئے انعام دوں گا۔ ذہین شاگرد نے جواب دیا: اگر آپ مجھے یہ بتادیں کہ اللہ میاں کہاں نہیں ہیں تو میں آپ کو دو سو روپئے انعام دوں گا۔
٭٭٭
دو آدمی ریڈیو پر گانا سن رہے تھے۔ ایک بولا: ’’واہ کیا درد بھری آواز ہے؟‘‘
دوسرے آدمی نے کہا: ’’ہاں واقعی! یہ سن کر میرے سر میں درد ہونے لگا ہے۔‘‘
٭٭٭
ایک آدمی غصے کے عالم میں پولیس اسٹیشن پہنچا اور کہنے لگا:’’صاحب مجھے آج کل دھمکی بھرے خط مل رہے ہیں۔‘‘
پولیس انسپکٹر نے پوچھا: ’’کون لکھتا ہے ایسے دھمکی بھرے خط؟ دھمکی بھرے خط لکھنا تو جرم ہے۔‘‘
اس شخص نے کہا : ’’کم بخت انکم ٹیکس والے۔‘‘
٭٭٭
ایک بھکاری سڑک پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک آدمی نے کہا: ’’اس طرح سڑک پر کھڑے ہوکر بھیک مانگتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی؟‘‘
بھکاری کہنے لگا: ’’توکیا بھیگ مانگنے کے لیے کوئی آفس کھول لوں؟‘‘
٭٭٭
ماں: یہ دروازے پر گندے ہاتھوں کے نشانات تمہارے ہیں؟
بیٹا: امی جان! میں تو لات مار کر دروازہ کھولتا ہوں۔
٭٭٭
ماسٹر صاحب نے کاہلی پر مضمون لکھ کر لانے کے لیے کہا۔ ایک شاگرد کی کاپی چیک کی تو تمام صفحات خالی تھے۔ آخری صفحے کے نیچے لکھا تھا:
’’اسے کہتے ہیں کاہلی۔‘‘
٭٭٭
ماہرِ نفسیات: مبارک ہو، آپ کا علاج ہوگیا۔ اب آپ بالکل ٹھیک ہیں۔
مریض: مبارک باد کس بات کی۔ آپ کے علاج سے پہلے میں فرانس کا بادشاہ تھا۔ اب ایک عام آدمی ہوں۔
٭٭٭
شاگرد: کیا یہ بات درست ہے کہ بچے قوم کا سرمایہ ہیں؟
استاد: بالکل!
شاگرد: تو پھر … سر حکومت اس سرمائے میں اضافے سے کیوں پریشان ہے؟
مسافر: (ڈرائیور سے) جگہ ہے؟
ڈرائیور: جگہ بیچ کر تو یہ گاڑی لی ہے۔
٭٭٭
امی : ارے آسیہ ! یہ کیا؟ تم نے چینی کے ڈبے پر نمک لکھ دیا؟
آسیہ: امی! یہ تو میں نے چیونٹیوں کو دھوکہ دینے کے لیے لکھا ہے۔
٭٭٭
ایک سائنس داں جو کہ گنجا تھا جوش و خروش میں کہہ رہا تھا کہ میںکیا نہیں کرسکتا… میں کیا نہیں کرسکتا۔
محفل میں ایک آدمی سے رہا نہیں گیا۔ وہ کھڑا ہوکر بولا: ’’تم کنگھی نہیں کرسکتے۔‘‘
٭٭٭
ایک لڑکی کو سالگرہ پر بہت قیمتی ہیرے کی انگوٹھی تحفے میں ملی۔ وہ انگوٹھی پہن کر اپنی سہیلیوں میں گئی اور بات کرتے ہوئے جان بوجھ کر بار بار ہاتھ کبھی دائیں کبھی بائیں گھماتی، تاکہ اس کی سہیلیاں انگوٹھی دیکھ لیں۔ لیکن جب کوئی متوجہ نہیں ہوا تو اس نے سب کو متوجہ کرکے کہا: آج کتنی گرمی ہے، سوچتی ہوں اپنی ہیرے کی انگوٹھی اتار کر پھینک دوں۔
٭٭٭
ایک لڑکی اپنی ماں سے: امی جب بھی میں آئینہ دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے زیادہ حسین کوئی نہیں ہے۔ کہیں یہ غرور تو نہیں؟
ماں نے فوراً کہا: نہیں بیٹی! یہ غرور نہیں، اسے خوش فہمی کہتے ہیں۔
٭٭٭
ایک شخص کی بھینس بیمار ہوگئی اسے معلوم ہوا کہ پاس کے گاؤں میں نمبردار بہت سمجھ دار ہے اور کچھ عرصے پہلے اس کی بھینس بھی اسی طرح بیمار ہوئی تھی، چنانچہ وہ نمبردار کے پاس گیا اور پوچھا: جب آپ کی بھینس بیمار ہوئی تو آپ نے کیا کیاتھا؟ نمبردار نے جواب دیا: میں نے اسے مٹی کا تیل پلایا تھا۔ اس آدمی نے گھر آکر اپنی بھینس کو مٹی کا تیل پلانا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد بھینس مرگئی۔
اب وہ آدمی روتا ہوا نمبردار کے پاس پہنچا اورکہا: مٹی کا تیل پلانے سے میری بھینس مرگئی ہے۔
نمبردار نے جواب دیا: کوئی بات نہیں، میری بھینس بھی مرگئی تھی۔
٭٭٭
ڈکیتی میں ملوث ایک ملزم نے حسرت بھرے لہجے میں کہا: جج صاحب میری کہانی بھی ایک عام انسان کی کہانی ہے۔ انسان کو جتنا مل جائے وہ ہمیشہ مزید کی خواہش کرتا ہے۔
جج صاحب نے کہا: ٹھیک ہے، میں تمہیں ایک سال قید کی سزا دے رہا ہوں، لیکن اگر مزید کی خواہش ہو تو بتاؤ۔
٭٭٭
استاد: عینک کی تعریف بتاؤ۔
شاگرد: عینک اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کی ناک پر بیٹھ کر کان پکڑے۔
راہ گیر بھکاری سے: تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟
بھکاری نے غصہ میں کہا: یہ دیکھنے کے لیے کہ اس دنیامیں کتنے کنجوس ہیں۔
——