پھر کبھی

شاہینہ بیگم صالحاتی، بنگلور

ساڑھے دس بج گئے تھے، ابھی تک زبیدہ کا پتہ نہیں تھا۔ ویسے بھی جمعہ کے دن ساڑھے بارہ بجے تک گھر کا کام کاج ختم کرلینا ہوتا ہے۔ بار بار میری نگاہ گھڑی کی طرف جاتی اور واپس لوٹ آتی۔ ساڑھے دس سے گیارہ بج گئے وہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔ حالانکہ وہ ساڑھے نو بجے تک آجاتی تھی اور گھر کا کام کاج سنبھال لیتی تھی۔ مجھے پریشانی ہونے لگی کہ اگر وہ نہیں آئی تو سارا کام میںکیسے کروں گی؟ اور آج جمعہ بھی تھا۔ میں کیاکروں؟
میں اسی فکر میں تھی کہ زبیدہ پریشان صورت لیے آگئی اور سیدھے کچن میں گھس گئی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو آتو گئی۔ میں اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ زبیدہ نے مجھے چائے نہیں دی۔ مجھے تشویش ہوئی کہ وہ کچن میں کیا کررہی ہے؟
اس کا روز کا معمول تھا کہ آتے ہی اپنی باسکٹ ایک طرف رکھتی اور اپنے اورمیرے لیے چائے بناتی۔ چائے پیتے ہوئے اپنے گھر کی داستان سناتی اور میں سن کر سرہلاتی رہتی۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ مگر آج ایسا نہیں ہوا تو مجھے تعجب ہوا۔ میں نے کچن میں جاکر دیکھا تو وہ خاموش بیٹھی چھت کو تکتی ہوئی کچھ سوچے جارہی تھی۔
میں نے کہا … ’’زبیدہ کیا بات ہے؟ خاموش بیٹھی کیا سوچ رہی ہو؟ آج جمعہ ہے، جلدی جلدی اپنا کام ختم کرلو، نماز کا وقت ہوجائے گا۔‘‘
وہ خاموشی سے اٹھی اور آہستہ آہستہ اپنا کام کرنے لگی۔ ضروری کام ختم کرکے میرے پاس آئی اور کہنے لگی۔
’’آپا … مجھے کچھ رقم کی ضرورت ہے، تنخواہ میں سے کاٹ لینا۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم نے چند دن پہلے یہی کہہ کر روپئے لیے تھے۔ اب کیا ضرورت آپڑی؟‘‘
اس نے کہا: ’’کیا بتاؤں آپا… آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ میری ساس پھر آگئیں اور کہنے لگیں کہ گھر کی مرمت کرانی ہے دس ہزار کی ضرورت ہے۔ آپ تو جانتی ہیں کہ میرا میاں کتنا کماتا ہے اور میری تنخواہ کیاہے۔ گھر کا خرچ چلانا ہی مشکل ہے۔ اس پر ساس کے مطالبے۔ دوچار سو کی بات نہیں کرتی ہیں۔ بلکہ ہزاروں کی بات کرتی ہیں جیسے ہم نے یہاں پیسوں کا پیڑ لگا رکھا ہے توڑ توڑ کر دے دیں گے۔
میں نے کچھ کہا تو مجھ پر برس پڑیں۔ آپا … آپ جانتی ہیں کہ تھوڑا تھوڑا بچا کر رکھتی ہوں تو وہ آکر لے جاتی ہیں۔ کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آج اسی بک بک جھک جھک میں دیر ہوگئی اور یہاں کام میں دل نہیں لگ رہا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ماں کا بیٹے پر حق ہے اسی لیے وہ پیسے مانگنے آتی ہیں۔ غیر کے ہاں تو نہیں جاتیں؟‘‘
زبیدہ نے کہا: ’’اچھا حق ہے آپا … کبھی نہیں پوچھا کہ میرے بچے کیا پڑھ رہے ہیں؟ بس پیسوں سے ان کو مطلب ہے۔ میرے بچے چھوٹے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ انہیں پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بناؤں تاکہ وہ اچھا کمائیں اور ہماری یہ غریبی دور ہوجائے۔ آپ جانتی ہیں کہ جو شخص ہمارے گھر مچھلی بیچنے کے لیے آتا ہے اس کی بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے۔ ہماری پڑوس کی خالہ کے بچے پڑھ لکھ کر آج امریکہ میں ہیں اور ہزاروں روپے کما رہے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ ہمارے جیسے ہی غریب تھے۔ مگر انھوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی اور آج مزے میں ہیں۔ میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھی پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں۔ مگر میرے میاں کہتے ہیں کہ ہم جیسے لوگوں کے بچے پڑھ بھی لیں تو انہیں نوکری کون دیتا ہے؟ اس لیے بچے ذرا بڑے ہوجائیں تو میں انہیں کسی گیرج میں رکھا دوں گا تاکہ چار پیسے کماکر لائیں اور ہمارا گھر ذرا سکون سے چلے۔ میاں کا تو یہ حال ہے اور ان کی اماں جب بھی میرے گھر آتی ہیں تو میرے بچا بچا کر رکھے ہوئے پیسوں کی بو سونگھ لیتی ہیں اور رو دھوکر میرے میاں کا دل نرم کرلیتی ہیں اور میرے میاں زبردستی پیسے چھین کر اپنی اماں کے ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’تمہاری ساس کا بڑا بیٹا بھی تو ہے۔ تم کہو اس سے مانگ لیں۔‘‘
کہنے لگی: ’’توبہ آپا … میں نے ایک دفعہ کہا تو مجھ سے لڑ پڑیں اور کہنے لگیں کہ اسی کے پاس تو ہوں وہ میرا کھانے پینے کا خرچ برداشت کرتا ہے۔ تیرے گھر میں تو آکر پڑی نہیں ہوں۔ تیرا میاں میرا بیٹا ہے اور میں اپنے بیٹے سے مانگ رہی ہوںتو کون ہوتی ہے مجھے نصیحت کرنے والی؟‘‘
میں نے تنگ آکر پوچھا: ’’کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟ مجھے تم پر بھروسہ ہے کہ تم جھوٹ نہیں بول رہی ہو۔‘‘
زبیدہ نے اپنا سیدھا ہاتھ سر پر رکھ کر کہا: ’’قسم خدا کی آپا …! میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، چاہو تو میرے گھر میں آکر دیکھ لو کہ ساس موجود ہیں یا نہیں۔‘‘
میں نے دو ہزار روپئے دیتے ہوئے کہا : ’’ساس کے بارے میں برے خیالات دل میں مت لاؤ۔ ساس جیسی بھی ہو ماں برابر ہوتی ہے۔ جو تمہارے ہاتھ سے ہوسکتا ہے، ماں سمجھ کر ان کی مدد کرو۔ وہ اپنے بیٹے سے نہیں مانگیں گی تو کس سے مانگیں گی؟ بچوں کے نہ پڑھانے کے بارے میں ان کی بات مت سنو۔ تعلیم سے ہی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ تم کسی نہ کسی طرح بچوں کو پڑھاتی رہو۔ اللہ کرے کل تمہارے بچے پڑھ لکھ کر قابل ہوگئے اور اچھی کمائی کرنے لگے تو تم دیکھوگی کہ تمہارے شوہر کے خیالات بھی بدل جائیں گے۔ اور تمہاری ساس کے بھی۔ یاد رکھو تمہارے بھی بچے ہیں، کل اگر تم اپنے بچوں سے کچھ مانگو گی تو تمہاری بہویں ناک بھوں چڑھائیں تو کیا تمہیں اچھا لگے گا؟ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ ایک مثل مشہور ہے۔
اتنے میں اذان ہوگئی میں نے نماز کے لیے اٹھتے ہوئے کہا تو کہنے لگی: ’’مجھے جلدی گھر جانا ہے آپا۔ میں گھر جاکر پڑھ لوں گی۔‘‘
مجھے معلوم تھا کہ جب بھی میں اس سے نماز پڑھنے کے لیے کہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر نماز چٹ کرجاتی۔ آج بھی یہی کہا تو میں نے کہا: ’’تم ہمیشہ نماز نہ پڑھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ بنادیتی ہو۔ لیکن آج میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں تم میرے سامنے نماز پڑھ کر جاؤ گی۔ نماز پڑھنے سے اللہ خوش ہوتا ہے اور حاجتیں بھی پوری کرتا ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں آپا…! آج نہیں پھر کبھی آپ کے ساتھ پڑھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رکی نہیں اور چلی گئی۔
میں نے سوچا آج تو چلی گئی ہے۔ کل اسے چھوڑوں گی نہیں۔ لیکن کل اس کے لیے آیا ہی نہیں۔
دوسرے دن وہ کام پر نہیں آئی۔ میں انتظار کرتی رہی۔ دو تین دن گزرنے کے بعد اس کے شوہر کافون آیا: ’’آپا… زبیدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ نہیںآسکتی۔‘‘
میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے جب طبیعت اچھی ہوجائے تو آجائے۔ ہوسکا تو میں آکر اسے دیکھ جاؤں گی۔‘‘
زبیدہ کے نہ آنے کی وجہ سے مجھے گھر کے کام کاج میں تکلیف ہونے لگی۔ دوسری ملازمہ رکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ ہوسکتا ہے۔ دوچار دن بعد وہ آجائے تو پھر پریشانی ہوگی۔ ویسے بھی دو چار دن کے لیے کوئی عورت ملتی بھی نہیں تھی۔ اسی انتظار میں پندرہ دن گزرگئے لیکن وہ نہیں آئی۔ ایک دن ہمارے گھر مہمان آنے والے تھے میں حد درجہ پریشان ہوگئی۔ سوچ رہی تھی کہ زبیدہ کے گھر جاکر اسے پکڑ لاؤں۔ اسی خیال میں تھی کہ فون کی گھنٹی بجی، میں نے فوراً رسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف زبیدہ کا شوہر تھا۔ اس نے روتے ہوئے کہا: ’’آپا … تھوڑی دیر پہلے زبیدہ کا انتقال ہوگیا۔ تمباکو کی لت نے اس کی جان لے لی۔ زبیدہ تمباکو بہت کھاتی تھی۔ میرے منع کرنے کے باوجود وہ چھپ چھپ کر کھاتی تھی۔ اسی بات پر میری ماں سے اس کا جھگڑا ہوتا تھا۔‘‘
میرے ہاتھ سے ریسیور چھوٹ کر نیچے گرگیا اور میں دھم سے نیچے بیٹھ گئی۔ مجھے اپنی ہی آواز سنائی دے رہی تھی۔
’’زبیدہ! آج جمعہ ہے نماز پڑھ کر جانا۔‘‘ اس کی آواز گونج رہی تھی ’’آج نہیں پھر کبھی، آج نہیں پھر کبھی۔‘‘
اس نے تونماز نہیں پڑھی لیکن اب اس کی نماز پڑھنے کی تیاری ہورہی تھی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146