حضرت امِ سلیمؓ کا شمار نہایت عظیم المرتبت صحابیات میں ہوتا ہے۔ان کا اصل نام غمیصاء لقب رمیصاء اور امِّ سلیم کنیت تھی۔ حضرت امِ سلیمؓ قبیلہ خزرج کی نہایت معززشاخ عدی بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ سلسلۂ نسب یہ ہے۔ امِّ سلیم بنت ملجان ماں کا نام ملیکہ (بنت مالک بن عدی )تھا۔ وہ بھی بنو نجار سے تھیں۔ امِ سلیم (بی بی رمیصاء) مدینے کے ان لوگوں کے ساتھ ایمان لائی تھیں، جنھوں نے ہدایت کی پہلی آواز پر لیبک کہا۔ آپ کے ایمان لانے سے آپ کے شوہر مالک بن نضر کو دکھ ہوا، وہ آپ کو بہت چاہتے تھے۔ اس لیے آپ کو اپنے سے جدا تو نہ کیا مگر ناراض ہوکر شام چلے گئے اور وہاں کسی نے ان کو مارڈالا۔ حضرت امِ سلیم (رمیصاء) بیوہ تھیں اور ان کا بچہ یتیم، کچھ مدت کے بعد ہر طرف سے نکاح کے پیغام آنے لگے۔ آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب تک میرا بچہ مجلسوں میں اٹھنے بیٹھنے اور گفتگو کرنے کے قابل نہ ہوجائے میں کسی سے نکاح نہیں کرسکتی۔ چند دن بعد حضور اکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینے تشریف لے آئے تو حضرت امِ سلیم ؓ نے اپنے بیٹے انس کو حضور کی خدمت میں پیش کردیا۔ چند روز بعد ابوطلحہ زیدؓ بن سہل نے حضرت امِ سلیمؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ ابوطلحہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے۔ آپ نے ابوطلحہ سے کہا، میں تمہیں پسند کرتی ہوں اور تم جیسے شخص کا پیغام رد کرنا نہیں چاہتی، لیکن سوچو تو کیسی غیرت والی بات ہے کہ تم ایک ایسی شے کو پوجتے ہو جو زمین سے اگتی ہے۔ پھر بڑھئی اسے الٹی سیدھی شکل دیتا ہے۔ کیا تم نے نہیں سوچا کہ تم لکڑی کے ایک بت کو پوجتے ہو۔
حضرت امِ سلیمؓ نے پہلے شوہر سے اس کے شرک کی وجہ سے علیحدگی گوارا کی تھی۔ اب انھیں یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ ایک دوسرے مشرک سے نکاح کرلیں چنانچہ انھوں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں تو خدائے واحد اور اس کے سچے رسولؐ پر ایمان لائی ہوں افسوس ہے تم پر کہ جس خدا کو پوجتے ہو وہ ایک درخت ہے۔ میں اب خدائے واحد کی پرستار اور تم خود ساختہ بتوں کے پجاری۔ بھلا میرا تمہارا میل کیسے ہوسکتا ہے۔ ’’ہاں میں جانتا ہوں۔‘‘ ابوطلحہ نے جواب دیا۔ تو بتاؤ میں تم سے کیسے نکاح کرلوں، تم اللہ کے منکر ہو میں اللہ کی ڈور میں بندھی ہوئی۔ ہاں اگر تم اسلام قبول کرلو تو میں راضی ہوں۔ پھر میں تم سے مہر بھی نہ مانگوں گی۔ تمہارا اسلام لے آنا ہی میرا مہر ہوگا۔ مجھے روپے پیسے کی ضرورت نہیں میں تو بس تمہیں مسلمان دیکھنا چاہتی ہوں۔
ابوطلحہ دیر تک سوچتے رہے۔ یہ باتیں کچھ ایسے دلنشین انداز میں کہی گئیں کہ ابوطلحہ کے دل میں اتر گئیں، وہ کچھ دن غور کرتے رہے۔ انھوں نے سوچا ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی کو وہ سچائی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں گے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے۔ وہاں پہنچتے ہی انھوں نے محفل میں بیٹھے ہوئے صحابہؓ کو سلام کیا تمام صحابہؓ کی نگاہیں تعجب سے اٹھیں۔ ابوطلحہ ؓ نے کہا:
اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
سارے صحابہؓ نے تحسین اور محبت بھری آواز اور خلوص کے ملے جلے جذبات سے کہا: سبحان اللہ۔ امِ سلیمؓ نے فوراً پیغام قبول کرلیا۔
ابوطلحہؓ نے بتایا کہ اب میں مسلمان ہوگیا۔ ابوطلحہؓ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے، دل کی کائنات بدل گئی اور ابوطلحہ سے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بن گئے۔ ابوطلحہؓ کو یہ سعادت کس کی بدولت ملی۔ ابوطلحہؓ کی زندگی میں یہ خوشگوار انقلاب کس کا لایا ہوا ہے۔ یہ کارنامہ کسی مرد نے نہیں بلکہ ایک صنفِ نازک نے انجام دیا جسے سماج میں نزاکتوں کا مجسمہ کہا جاتا ہے۔ سچ ہے انسان کی بات میں مٹھاس ہو تو بڑی سے بڑی جنگ آسانی سے فتح کرسکتے ہیں یہ خاتون حضرت امِ سلیم کے نام سے جانی جاتی ہیں اور حضرت انسؓ کی والدہ ہیں۔
——