مقصد زندگی اور اس کا شعور

حنا صدف خاں درانی، بیدر

زندگی بامقصد ہے اور بامقصد زندگی ہی با معنی اور مطلوب ہے۔ بے مقصد زندگی ایک بے معنی خواب ہے۔ جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے یا پھر کسی مسافر کا ایسا سفرہے جس کا نہ کوئی مقصد ہو اور نہ کوئی منزل۔ آپ ممبئی سے دہلی کے لیے ریل گاڑی میں سوار ہوتے ہیں۔ ایک خوبصورت اور صحت مند نوجوان جو چہرے سے تعلیم یافتہ بھی لگتا ہے ، آپ کی نظر میں آجاتا ہے۔ گفتگو شروع ہوتی ہے۔ آپ کہاں جارہے ہیں؟ دہلی۔ کیا مقصد ہے سفرکا ؟ نوکری کے لیے امتحان دینا ہے۔ اور آپ کہاں جارہے ہیں؟ کہیں نہیں بس یوں ہی بیٹھ گیا۔ ایسا کیوں کیا؟ یہ بھی معلوم نہیں ہے۔
آپ ایسے انسان کو بے وقوف یا پاگل ہی تصور کریںگے۔ آپ کا یہ تصور زندگی کے ایک معمولی سے حصے کے محض بے مقصد سفر کے سلسلے میں قائم ہوا۔لیکن اس انسان کے بارے میں آپ کیا سوچیں گے جو پوری زندگی ہی بے مقصد اور بے کاری میں گزار دے۔
زندگی بیش قیمت ہے اور انسان کو صرف ایک بار میسر آتی ہے، اس لیے جہاں اسے بامقصد گزارنا کامیابی ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ انسان زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد اختیار کرے۔
اعلیٰ تعلیم اور فنّی مہارت زندگی کا حسن اور زیور ہے اور یہ زیور زندگی کو حسین بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اور یہ مقصد کی راہ میں معاون و مددگار کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر انسان اسی کو اپنا مقصد بنالے تو زندگی کی عظمتوں اور بلندیوں سے دور ہی رہ جائے گا۔ اپنے سماج اور معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی مرد و خواتین ہیں جنھوں نے اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں اور پھر ان ڈگریوں سے انہیں دولت و شہرت اور زندگی کی قیمتی آسائشیں اور سہولتیں میسر آئیں۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچ گئے لیکن زندگی کا خاتمہ ہوتے ہی سب کچھ تمام ہوگیا۔ گویا زندگی ختم تو وہ بھی ختم۔ اس کے برخلاف کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنھوں نے عظیم کام انجام دیے۔ وہ دنیا اور یہاں کے انسانوں کے لیے رحمت بن کر جیے ۔ تاریخ کے صفحات میں ان کا نام ثبت ہوگیا اور سیکڑوں سال گزرجانے کے بعد بھی لوگ ان کی ذات اور ان کے علم و فضل اور تجربات سے فیض اٹھا رہے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ ان لوگوں نے عسرت اور تنگ حالی کی زندگی گزاری ہو اور آج کے بہت سے لوگوں کی طرح انہیں عیش و آرام میسر نہ آسکا ہو۔ مگر انسانوں کے دلوں میںان کے لیے عزت و احترام پیدا ہوا اور وہ عظمت کا مینار بن گئے۔
یہ دنیا صرف حکمرانوں، سپہ سالاروں اور لیڈروں کو ہی یاد نہیں کرتی، بلکہ کروڑوں ایسے انسانوں کو بھی احترام دیتی ہے جو ان میں سے کچھ نہ تھے۔ ہاں ان کا اخلاق و کردار، ان کا علم و فن زندگی گزارنے کے ان کے اصول واقدار انہیں زندہ و جاوید بنا گئے۔ ان کی زندگی، شہرت اور عزت و احترام کا راز انسانوں کے لیے ان کے نفع بخش ہونے میں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عزت و احترام دے کر تاریخ کے صفحات میں انہی کا نام لکھتی ہے جو اس کے لیے نفع بخش رہے ہوں اور جنھوں نے انسانیت کی بہترین خدمت کی ہو خواہ وہ علم و تحقیق کے ذریعے ہو، ایجادات کے ذریعہ، اخلاق و کردار کے ذریعہ ہو یا جود و سخا کے ذریعے۔ چنانچہ ہمارے رسولؐ نے فرمایا:
خیر الناس من ینفع الناس۔
’’بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔‘‘
روزی روٹی حاصل کرنا اور عیش و آرام کی زندگی کا حصول بہت چھوٹا اور معمولی مقصد زندگی ہے۔ جانور بھی جب تک زندہ رہتے ہیں یہی چاہتے ہیں کہ انہیں کھانا مل جائے اور موسم کی شدتوں سے وہ بچے رہیں۔ لیکن کیا انسان بھی مقصد زندگی کے اعتبار سے ان سے قریب تر ہوجائے۔ نہیں، ہرگزنہیں۔
اگر ایک باشعور مسلمان سے اس کے مقصد ِ زندگی کے بارے میںپوچھا جائے تو اس کا جواب عام

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146