ابوالمجاہد زاہدؔ میری نظر میں

ڈاکٹر کوثر یزدانی ندوی

میں اس وقت انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا جب ابوالمجاہد زاہدؔ کی ایک نظم مزدور میری نظر سے گزری۔ نظم کیا تھی اشتراکی نظریے پر بھر پور تنقید تھی۔ مساوات کے نام پر اشتراکیوں نے مزدوروں کی کس قسم کی تربیت کی اور ان کی زندگیاں کس نہج پر گزر رہی ہیں۔ نظم اس کاایک منظر پیش کرتی تھی۔ پہلابندتھا:
اٹھاؤ ’’جوڑی‘‘ بجے ’’منجیرا‘‘، ستار کے تار کپکپائیں
چلو ری ’’نیلم‘‘ اٹھو ’’چنبیلی‘‘ حسین ملبوس سرسرائیں
وہ ناچ ناچو کہ زندگی کے سسکتے ارماں بھی جھوم جائیں
کوئی پھڑکتا سا گیت گاؤ کوئی رسیلی غزل سناؤ
خوشی منائیں مزے اڑائیں کہ آج تنخواہ مل گئی ہے
اگرچہ اشتراکی نظریے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ میرے ساتھیوں میں ہی کوئی ایسا تھا جو اس کا راگ الاپتا ہو پھر بھی اشتراکی نعروں کی گونج کانوں میں پڑتی رہتی تھی۔ اس لیے دل میں یہ خواہش ضرور تھی کہ اشتراکی نظام زندگی اور نظریۂ حیات کے مثبت اور منفی پہلو نگاہ میںرہیں تو اچھا ہے۔ زاہدؔ صاحب کی اس نظم بالخصوص اس کے اِس آخری بند نے بے حد متاثر کیا:
ابے ادھر آنا چاٹ والے بناکے دے چٹ پٹے مسالے
پڑے گا گدّی پہ ایک گھونسا یہ آٹھ آنے میں دو نوالے
ہمیں لفنگا سمجھ رہا ہے، ہمارا دور آرہا ہے سالے
ملوں کی دنیا بدل رہی ہے سنہری زنجیر گل رہی ہے
ہنسیں ہنسائیں مزے اڑائیں کہ آج تنخواہ مل گئی ہے
اس میں انھوں نے اشتراکیت زدہ مزدوروں کی بے کردار معاشرت کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس نے اشتراکیت سے ایک قسم کا تنفر پیدا کردیا اور بے ساختہ لاحول ولاقوۃ کہہ کر میں نے دل کی کدورت کو ختم کردیا۔
ایک دور کی بات ہے صبح صادق کے عنوان سے زاہدؔ صاحب کی ایک نظم اور چھپی۔ یوں تو جب میں کورس کی کتاب پڑھتے تھک جاتا تو دل بہلانے کے لیے اس طرح کی چیزیں پڑھ لیا کرتا تھا لیکن صبح صادق نے تو کمال کردیا۔ اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ صرف ایک نظم نہ تھی بلکہ میرے دل کی آواز بھی تھی۔ نظم کاآغاز آنحضورﷺ کی بعثت سے پہلے کی دنیا کے حالات سے ہوا تھا، ظلم و جور، جہالت و ظلمت اور کفرو الحاد کا نقشہ کھینچ کر آں حضورؐ کی آمد یعنی بارانِ رحمت اور علم و آگہی کے نور کا بڑے ہی مؤثر انداز میں ذکر ہوا تھا۔ پھر آج کے دور کا نقشہ کھینچا گیا اور واضح کردیا کہ آج کے حالات بعثت کے دور سے قبل کے حالات سے کم بھیانک نہیں ہیں۔ اب نئے نبی کی آمد ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے خاتم النبیین ﷺ پر ایمان لانے والوں کو للکارا گیا تھا کہ اٹھو اور جرأت مومنانہ سے کام لے کر عصر حاضر کے دھارے کا رخ موڑ دو۔
اس نظم کے چند بند آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ یقینا آپ کے جذبات میںہلچل پیدا ہوگی۔
رات تاریک تھی، رات پرہول تھی، زندگی کے کہیں بھی نظارے نہ تھے
ماہتاب آدمیت کا روپوش تھا، عدل و انصاف کے بھی ستارے نہ تھے
کیا عرب، کیا عجم، ہر طرف کالے کالے تھے ذہن و ضمیرِ بشر
جاہلیت کے تاریک جنگل میں تھا، آدمی آدمی کا شکاری مگر
کوہ فاراں پر اک روشنی جاگ اٹھی اور پھر بڑھ کر مہر مبیں ہوگئی
رات نے بڑھ کے پہلے تو دھاوا کیا اور پھر صبح کے نور میں کھو گئی
ساری دنیا میں سچی سحر ہوگئی، زندگی کوں حسیں آسرا مل گیا
جو خود اپنی طلب میں بھی ناکام تھے، ان جہالت زدوں کو خدا مل گیا
٭٭٭
رات تاریک ہے، رات پر ہول ہے، زندگی کے کہیں بھی نظارے نہیں
ماہتاب آدمیت کا روپوش ہے عدل و انصاف کے بھی ستارے نہیں
وحدت زندگی کے ترانے بھی ہیں عالمی امن کی لب پہ باتیں بھی ہیں
اور اپنی خدائی کا نشہ بھی ہے، ایٹمی جنگ کی دل میں گھاتیں بھی ہیں
جرأت مومانہ سے کچھ کام لو رات کا یہ فسوں توڑنا ہے تمہیں
ساتھیو! عصرِ حاضر کے دھارے کا رخ موڑنا ہے تمہیں موڑنا ہے تمہیں
ساتھیو! روشنی جس میں مستور ہے اٹھ کے وہ چادر تیرگی پھاڑ دو
رات کے سینۂ شیطنت خیز میں صبح صادق کا بڑھ کر علم گاڑ دو
ابوالمجاہد زاہدؔ کی ایسی ہی انقلاب آفریں نظمیں ہیں، جو مجھ جیسے شخص کے دل میں جو نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا، انقلاب کی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ تحریکِ اسلامی کے قافلے میں شامل ہونے میں یقینا بہت سے عوامل کام کرتے رہے ہیں، لیکن ابوالمجاہد زاہدؔ کی نظموں نے بھی اس جذبے کو مہمیز دی۔
۱۹۵۶ء کے اواخر یا ۱۹۵۷ء کے اوائل کا دور بھی قابلِ ذکر ہے۔ جب ابوالمجاہد زاہدؔ کی سرپرستی میں لکھنؤ میں ادارہ ادب اسلامی کی ایک آل انڈیاکانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس وقت میں شبلی کالج سے بی اے کرچکا تھا اور تعلیم کے اگلے مرحلے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ آل انڈیا کانفرنس میں شرکت کا خیال بجلی کی طرح کوندا اور میں لکھنؤ پہنچ گیا۔ وہیں علامہ شفیق جونپوری اور مولانا عامر عثمانی سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور پروفیسر احتشام حسین کے بھی دیدار ہوئے۔ یہ دور نئی نسلیں، کا دور تھا جو بڑے آب و تاب کے ساتھ لکھنؤ سے شائع ہورہا تھا اور اسے زاہدؔ صاحب کی خدمات حاصل تھیں۔
ابوالمجاہد زاہد صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ زاہدؔ صاحب کی نظموں کی بنیاد پر جو نقشہ میرے ذہن میں تھا وہ یہ کہ موصوف ایک تندرست و توانا جسم کے مالک اور ایک بارعب شخصیت ہوں گے۔ دیکھا تو جسمانی طور پر بڑے سوکھے ساکھے نظر آئے۔ لیکن جب ملاقات سے بات آگے بڑھی تو زاہدؔ صاحب خشک کے بجائے شگفتہ مز اج نظر آئے۔ پھر کیاتھا؟ بات آگے بڑھتی چلی گئی اور انہی کے الفاظ میں:
مثل گل تم رہو شگفتہ جبیں
مسکراتے رہو کلی کی طرح
اور
کلی کلی کو دیا ہے شگفتگی کا پیام
چمن میں جب بھی چلے ہم چلے صبا کی طرح
مجھے ابوالمجاہد زاہدؔ کے فن اور شخصیت پر کچھ عرض نہیں کرنا ہے کیونکہ یہ اصحابِ نقد و نظر کا کام ہے۔ اس وقت جو بات کہنی ہے وہ صرف یہ کہ زاہد صاحب کی خدمات ’نئی نسلیں‘ کو ملیں۔ درس گاہ اسلامی رام پور کو ملیں اور مرکز جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تعلیمات کو ان کی خدمات حاصل رہیں۔ مرکز میں آنے کے بعد جب ان کے ساتھ ہر وقت کا اٹھنا بیٹھنا ہوگیا اور انھیں قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا تو میں نے محسوس کیاکہ موصوف کے منحنی جسم میں ایک تحریکی اورانقلابی روح رواں دواں ہے۔ ادارۂ ادبِ اسلامی ہند سے ایک دیرینہ تعلق کی بنیاد پر ان کے احساسات فطری ہیں۔ ادبِ اسلامی کے جاہ و جلال کی موجودہ صورت حال پر ان کا متفکر ہونا بھی فطری بات ہے۔ موجودہ اسلام پسند ادباء و شعراء کی بے حسی پر ان کا رونا بھی فطری امر ہے۔ لیکن تحریکِ اسلامی کو گہن نہ لگے، اس کے لیے ان کی بے قراری اور بے چینی دیکھنے لائق ہوتی تھی۔ موصوف رجائیت پسند شاعر تھے اور کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ موصوف میںبلا کی خوداعتمادی تھی۔ وہ ہمیشہ حرکت میں رہتے تھے۔ اس لیے تحریک اسلامی کو بھی ہمہ وقت رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے ان کے پاس تجویزیں بھی تھیں اور تدبیریں بھی۔ ان کے اشعار بھی اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا فن اپنی جگہ، ان کا پیغام بھی کم معنی خیز نہیں۔ ان کے یہاں اقدار اور یقینیات کی ترجمانی بھی قدم قدم پر ملتی ہے۔ مثلاً:
لوگ چن لیں جن کی تحریریں حوالوں کے لیے
زندگی کی وہ کتابِ معتبر ہوجائیے
لاکھ دیوار چمن راستہ روکے لیکن
بوئے گل کی بھی کہیں خوئے سفر جاتی ہے
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
دعا کی بے اثری کا گلہ تو ہے لیکن
دعا بھی آپ نے مانگی کبھی دعا کی طرح
وہ ہم نہیں ہیں کہ صرف اپنے ہی گھر میں شمعیں جلا کے بیٹھیں
وہاں وہاں روشنی کریں گے جہاں جہاں تیرگی ملے گی
اس متحرک اور تحریک اسلامی کے لیے ہر وقت مستعد شخصیت کے لیے دل سے دعا نکلنی یقینی ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، انہیں رحمت کے سائے میں جگہ دے، ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور یہ کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں۔ آمین!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146