ڈیوڈ کوریش کا اصل نام ورنن ہاول تھا، وہ ۱۹۵۹ء میں ہیوسٹن کے مقام پر پیدا ہوا جو خلائی تحقیق کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس کے والدین کا تعلق سیونتھ ڈے ایڈویٹسٹ نامی فرقے سے تھا۔ موصوف نے نویں جماعت سے تعلیم کو خیر باد کہا اور گٹار بغل میں دباکر ٹن ٹن شروع کردی اور راک میوزک کے رسیا بن گئے۔ اور عیسائیت کی نئی شاخ کی تعلیمات میں غلطاں ہوگئے جو خود کو ڈیویڈ ینز یا داؤدی کہلاتے تھے۔ اس نوخیز فرقے کا داعی یا بانی بلغاریہ کا ایک شخص وکٹر ہوتیف تھا، جسے لاس اینجلز کے ایڈویٹسٹ چرچ نے ۱۹۲۹ء میں اپنی تنظیم سے خارج کردیا تھا۔ وکٹر کے ذہن میں بائبل، کتاب حزقیل کی کچھ آیات بیٹھ گئیں جن میں ایک فرشتہ یہ بشارت دیتا ہے کہ وہ قیامت کے قریب سچے پیروانِ دین مسیح کو گنہ گاروں سے الگ کردے گا۔ وکٹر کا خیال تھا کہ یہ خدا کی طرف سے ایڈویٹسٹ فرقے کو ایک تنبیہ ہے، چنانچہ اس خیال کو مستحکم کرنے کے لیے اس نے ٹیکساس میں ویکو کے مقام پر ۱۹۳۵ء میں اپنا ایک علیحدہ چرچ تعمیر کرلیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ فلارنس نے اس نئے فرقے کی قیادت سنبھال لی۔ پھر کچھ عرصے بعد اس خاتون نے اس فرقے کو تحلیل کردیا۔ دراصل اس نے پیشین گوئی کی تھی کہ قیامت کے ایام ۲۲؍اپریل ۱۹۵۹ء سے شروع ہوجائیں گے اور یہ بات درست ثابت نہ ہوئی۔
اس کے بعد بنجامن جارج راڈن نے دعویٰ کیاکہ وہ اسرائیل کے بادشاہ داؤد کا صحیح جانشین ہے۔ ہاول یعنی کوریش صاحب جب سیونتھ ڈے ایڈویٹسٹوں کے ایک سالانہ اجتماع سے نکال باہر کیے گئے تو ۱۹۸۴ء میں انھوں نے ویکو کے اس چرچ کے قریب سکونت اختیار کرلی۔ لیکن پھر موصوف نے جارج راڈن سے دوستی کرلی۔ جارج راڈن اپنی ماں لوئی کے ساتھ اس فرقے کی سربراہی کر رہے تھے۔ کوریش صاحب کا راڈن سے جھگڑا اس وقت بہت زیادہ بڑھ گیا جب راڈن نے چرچ کی پیرو ایک خاتون کی لاش قبر سے زندہ کرنے کے لیے باہر نکال لی۔ کوریش کا کہنا تھا کہ اس نے لاش کی بے حرمتی کی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ موصوف اور راڈن اقدام قتل میں دھر لیے گئے۔ لیکن بعدمیں کوریش کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے۔ پھر لوئی اور راڈن کا چرچ پر سے کنٹرول ڈھیلا پڑنے لگا۔
لوئی اپنے بیٹے جارج راڈن کو پسند نہیں کرتی تھی۔ کوریش نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور اس کی انہتر سالہ ماں کے ساتھ شیریں فرہاد والے تعلقات قائم کرلیے۔
راڈن کو حکومت نے دماغی عوارض کے اسپتال بھیج دیا تو کوریش کی بن آئی۔ اس نے اپنے گرد مرید جمع کرنے شروع کیے اور برطانیہ اور آسٹریلیا کے دورے پر نکل گیا۔ وہاں سے لوٹ کر اس نے اپنے مریدوں کو یہ تلقین شروع کردی کہ انہیں منکرینِ حق سے ایک آخری معرکے کے لیے خود کو تیار کرلینا چاہیے۔ اس نظریے کے تحت اس نے ویکو، ٹیکساس کی منتشر بستی کو قلعے کی شکل دینا شروع کردی اور اس میں زیرِ زمین تہہ خانے بھی بنا ڈالے اور گرجے سے ملحق ایک اسلحہ خانہ بھی تعمیر کرلیا۔
امریکہ کے وفاقی خفیہ ادارے نے گولے، گولیاں اور بارود جب بڑی مقدار میں وہاں جاتے دیکھا تو وہ خفیہ طور پر چھان بین میں مصروف ہوگئے۔
اپنی بستی میں کوریش نے سخت کوشی پیدا کرنے کے لیے دال سبزیوں والی غذا کی بھی راشن بندی کردی۔ ٹیلی ویژن دیکھنا ممنوع اور بچوں کی سالگرہیں منانا موقوف کرادیا۔ ان کے مرید جماعت کے مرکز کی تعمیر میں جتے رہتے۔ فارغ وقت میں قواعد پریڈ اور بائبل کی کلاسوں میں شرکت کرتے۔ عورتیں گھروں کے کاموں میں مصروف رہتیں۔ لیکن اپنی ذات کے لیے موصوف ہر آسائش کو جائز اور نوخیز لڑکیوں پر اپنا حق فائق سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ان کا من گھڑت جواز یہ تھا کہ خدا چاہتا تھا کہ ایک گناہ گار یسوع بھی دنیا میں اتارا جائے جوہر قسم کے گناہ کا تجربہ رکھتا ہو اور روزِ قیامت گناہ گاروں کی صف میں کھڑا ہوکر ان کی وکالت کرے۔
۱۹۹۱ء میں کوریش صاحب کیلی فورنیا تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ ان کا حرم بھی تھا، جس میں اٹھارہ خواتین تھیں۔ ان کے لیے ایک مکان کرائے پر لیا گیا۔ پڑوسیوں نے پولیس کو اطلاع کردی تو اس ٹولے میں ایک بارہ سالہ لڑکی بھی پائی گئی۔ ان کے خلاف اس معاملے میں عدالت کارروائی شروع ہوگئی۔
کیتھی، ارجٹینا سے آکر سان فرانسسکو کے نزدیک آبسنے والے ایڈویٹسٹ خاندان کی ایک چوبیس سالہ دوشیزہ تھی۔ اسے دیگر فرقوں اور مذاہب کے مطالعے کا شغف تھا۔ مطالعہ بائبل کی ایک کلاس میں اسے ایک نوجوان ملا۔ اسی نے اسے کوریش سے متعارف کرایا۔ کوریش نے کیتھی کو ویکو آنے کی دعوتی۔ کیتھی اور نوجوان وہاں گئے۔ وہ باہم شادی کرنا چاہتے تھے مگر ’’مسیح‘‘ نے ازدواجی تعلق پر پابندی عائد کررکھی تھی۔ کیتھی نے زیوارت پہننے بھی ترک کردیے۔ اس کی چھوٹی بہن جینفر اس کے پیچھے وہاں گئی تو معلوم ہوا کہ کیتھی، کوریش کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ پھر جنیفر بھی کوریش کے دام میں پھنس گئی۔ ان کے ماں ازابیل نے ویکو جاکر اپنی بیٹیوں کو اس شیطانی جال سے نکالنا چاہا مگر وہ ہر بار ناکام لوٹی۔
مارچ۱۹۹۳ء کی بات ہے جب سو کے لگ بھگ امریکی پولیس کی جمعیت نے اس قلعے پر حملہ کیا تو چاروں طرف سے کوریش کے مریدوں نے ان پر گولیاں برسانی شروع کردیں۔ بہرحال شدید مقابلے کے بعد، جس میں دونوں اطراف سے لوگ زخمی ہوئے اور اے ٹی ایف ( بیورو آف الکحل، ٹوبیکو اینڈ فائر آرمز) کے چار ارکان مارے گئے۔ کوریش نے یہ وعدہ کیا کہ اگر اسے ریڈیو پر ایک بیان نشر کرنے کی اجازت دے دی جائے تو وہ پر امن طریقے سے خود کو حکام کے حوالے کردے گا۔ پیغام نشر کرنے کی اجازت مل گئی تو کوریش نے پینتالیس منٹ تک لمبی چوڑی تقریر کی اور آخر میں کہا کہ وہ اب بھی خدا کے احکامات کا منتظر ہے۔
اور پھر صورت حال یہ بنی کہ کوریش صاحب اپنے قلعے میں محصور ہوگئے اور پولیس نے چاروں طرف سے گھیرا تنگ کردیا۔ ان سے بار بار پوچھا جاتا رہا کہ بھئی اپنے پنجرے سے کب نکلو گے، بڑی دیر ہوگئی ہے مگر انھوں نے کوئی واضح جواب نہ دیا۔
اس کیفیت میں اکیاون دن بیت گئے۔ امریکی محکمہ تحقیقات (ایف بی آئی) کے عملے اور فوجیوں نے گھیرا تنگ کررکھا تھا۔ وہ بار بار لاؤڈ اسپیکر پر درخواست کررہے تھے کہ جناب مسیحا صاحب، پرامن طریقے سے خود کو حکام کے سپرد کردیجیے، آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے آنسو گیس کے گولے عمارت کے ایک موکھے سے اندر پھینکنا شروع کردیے۔ جب اس کارروائی کا بھی کوئی اثر نہ ہوا تو خفیہ ایجنسی کے عملے نے ٹیلی فون پر بدنصیب مسیحا کو مطلع کیا کہ گیس کس کونے سے عمارت میں پہنچ رہی ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کوریش اپنے مرکز میں موجود بچوں کو اس جگہ سے ہٹا کر کسی محفوظ مقام پر پہنچا دے۔ مگر توبہ کیجیے، اس فون پر بھی سر پھرے مسیحا نہ پسیجے اور جواب بائبل کی زبان میں دیا:
’’ہاں، وہ میمنے سے جنگ کریں گے اور میمنہ ان پر فتح یاب ہوگا۔‘‘
پھر ۲۸؍اپریل چھ بجے صبح ایک بکتر بند گاڑی نے عمارت پر اپنی فولادی ٹکریں مارنا شروع کردیں۔ پھر کھڑکیاں بکتر بند گاڑیوں سے توڑی جانے لگیں اور یوں لگا جیسے ہتھوڑے برسا کر سب کچھ توڑنے کی ٹھان لی گئی ہو۔ خفیہ ایجنسی کا ایک کارکن لاؤڈ اسپیکر پر دہاڑا: ’’یہ کوئی حملہ نہیں۔ گولیاں مت چلاؤ۔ ہم تمہارے احاطے میں داخل نہیں ہورہے۔‘‘
کوئی ڈیڑھ کلو میٹر دور ایمبولینس گاڑیاں کھڑی کردی گئیں اور مقامی اسپتال کو ہر طرح سے تیار رہنے کی ہدایت کردی گئی۔
کوریش صاحب اپنی بالائی منزل کی اقامت گاہ سے برآمد ہوئے اور کمروں کا جائزہ لے کر انھوں نے مریدوں کو ہدایت کی کہ وہ گیس ماسک پہن لیں۔ یہ ماسک انہیں گھنٹوں نہیں کئی بلکہ کئی دنوں تک محفوظ رکھتے بشرطیکہ ان کے فلٹر تبدیل کرنے کا اہتمام ہوتا۔ عقیدت زدہ لوگوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور ماسک چڑھا کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ عورتوں نے کپڑوں پر استری کرنی شروع کردی۔ کچھ خواتین بائبل کی تلاوت میں مشغول ہوگئیں۔ پھر ایک فوجی ٹینک نے صدر دروازے کو ٹکر ماری مگر آلوؤں کے بوروں اور پروپین ٹینک نے اس کا راستہ روکا۔
ایک مرتبہ پھر گولیاں چلنا شروع ہوگئیں۔ بکتر بند گاڑیوں نے ٹکریں مار مار کر عمارت میں سوراخ کرنے شروع کردیے۔ پوری عمارت دھوئیں اور گرد و غبار کی چادر میں لپیٹ آگئی۔ آنسو گیس سے بچنے کے لیے عورتیں اور بچے دوسری منزل کے وسط میں جمع ہوگئے، جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ پھر یکلخت فائرنگ بند ہوگئی اور ایک سفید جھنڈا صدر دروازے سے برآمد ہوا۔ کوریش کا ناٹب سٹیو شنائیڈر پھرفون پر آیا تو چند لمحوں کے لیے امید بندھی کہ اب یہ معاملہ نبٹ جائے گا مگر فائرنگ دوبارہ شروع ہوگئی۔
امریکی ایف بی آئی کے بندوق بازوں نے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے ایک شخص نے ہاتھوں کاپیالہ بنایا یوں جیسے وہ کچھ جلارہا ہو۔ ایجنٹ بائرن سیج نے مائیکرو فون پکڑا اور التماس کے لہجے میں کہا: ’’لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو۔ معاملہ ختم کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ پھر اس کوریش کے مریدوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’اگر تم دیکھ نہیں سکتے تو لاؤڈ اسیپکر کی طرف بڑھو۔ آواز کی طرف آؤ۔‘‘
اتنے میں ایک زبردست دھماکہ ہوا جس سے پورا احاطہ لرز اٹھا۔ پھر اس کے بعد دوسرا اور تیسرا دھماکہ ہوا۔ اسلحے کے گودام آگ پکڑنے کے بعد پھٹ رہے تھے۔ پوری عمارت میں زلزلہ سا آگیا تھا۔ جس کی پیش گوئی کوریش صاحب پہلے ہی کرچکے تھے۔
واشنگٹن میں ایف بی آئی کے کمانڈ سنٹر میں ڈینی کولسن ٹی وی مانیٹر پر سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ امریکی اٹارنی جنرل بھی صبح سے وہیں بیٹھا تھا۔ جب اسکرین پر پہلے شعلے نمودار ہوئے تو کولسن نے دل میں کہا: ’’وہ اپنے ہتھیار جلا رہا ہے۔ اس کے بعد وہ کہے گا اب ثابت کرو میرے پاس آٹومیٹک ہتھیار تھے۔ اور اس کے بعد اس کے مرید ہلاَّکرکے باہرنکلیں گے۔‘‘ کمانڈ سینٹر میں تب فون کی گھنٹی بجی اور پتہ چلا کہ کوئی بھی تو باہر نہیں نکلا۔ کولسن اور اس کے ساتھیوں کے دل بچوں کے لیے بے قرار ہوگئے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح بچے بچ جائیں۔ پھر اطلاع آئی کہ ایک دو آدمی عمارت کے باہر دیکھے گئے ہیں اور آگ روک لباس پہنے ہوئے ایجنٹ اپنی گاڑیوں سے نکل کر خطرات سے بے پروا ان کے پیچھے گئے ہیں۔
ایک عقبی کمرے میں گیس ماسک پہنے، بائبل سینے سے لگائے روتھ ریڈل نے اپنے ارد گرد آگ کی شدت محسوس کی تو پلاسٹک سینڈل اتار کر اس نے جوگر پہنے اور جان بچانے کے لیے عمارت کے ایک سوراخ سے باہر کودی۔ اس کے کپڑوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ ایک کارکن کی اس پر نظر پڑی تو وہ اپنی گاڑی سے کود کر اس کی طرف دوڑا۔ جو ںہی وہ اس کے قریب پہنچا، وہ دوبارہ اندر اپنے دوستوں کے پاس جانے کے لیے کشمکش کرنے لگی۔ کارکن چیخا: ’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ بدقسمت عورت نے اپنا سر ہلایا اورتیزی سے اندر گھس گئی۔ گویا اس نے دوزخ کے راستے بہشت کی راہ چلنے کاتہیہ کرلیا تھا۔ انہیں کوریش صاحب یہ نوید سناتے رہے تھے کہ ’’ان دنوں میں لوگ موت طلب کریں گے مگر موت ان سے بھاگے گی۔‘‘
ایک آدمی چھت پر نمودار ہوا۔ اس کے کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی اور وہ درد سے دوہرا ہورہا تھا۔ ایجنٹ اس کی طرف بھاگے مگر اس نے اشارے سے پرے رہنے کو کہا۔ پھر وہ چھت سے نیچے گر پڑا اور ایجنٹوں نے دوڑ کر اس کے آتش گیر کپڑے اتارے اور اسے بحفاظت بکتر بند گاڑی میں لے آئے۔
اس عرصے میں تیز ہوائیں چلنے لگیں اور سارا احاطہ آگ کے شعلوں میں لپٹ گیا۔ گرجا تڑخ کر بکھر گیا اور ہزاروں ڈالر کا فرنیچر اور موسیقی کے آلات خاکستر ہوگئے۔ اور جب آگ بجھانے والے گاڑیاں اور عملہ پہنچاتو وہاں راکھ اور جلی جھلسی ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ گناہ گار مسیح اپنے پچاسی حواریوں کے ساتھ فنا کے گہرے غار میں جادھنسا تھا۔
ڈیوڈ کوریش نے اپنی ’’ریاست‘‘ میں سخت ضابطے نافذ کررکھے تھے۔ ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والے کی ایک چپو سے پٹائی کی جاتی جس پر کندہ تھا‘ It is Written(یہ خدائی حکم ہے) لنگر کی راشن بندی تھی۔ نوواردوں کو ان کے بینک اکاؤنٹ اور ذاتی املاک سے محروم کردیا جاتا تھا۔ مردوں کو تجرد اختیار کرنا پڑتا جبکہ ان کی بیویاں اور بیٹیاں کوریش کی داشتائیں بن جاتیں۔ اپنی ’’بھیڑوں‘‘ کے سامنے کوریش اس حرام کاری کا جواز یوں پیش کرتا کہ وہ سراپا معصیت شکل میں عیسیٰ مسیح ہے کیونکہ خود گناہوں میں ملوث ہونے کے باعث وہ بنی نوع انسان کو ان روحانی بلندیوں سے بھی آشنا کرسکتا ہے جن کی پہلے مسیح میں کمی تھی۔ (نعوذ باللہ!)
کوریش نے اپنی کرشماتی شخصیت کے ذریعے مریدوں کی ضعیف الاعتقادی سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جم جونز کی طرح جس نے ۱۹۷۸ء میں گائیانا (جنوبی امریکہ) میں اپنے ۹۰۰ پیروکاروں کے ساتھ خود کشی کرلی تھی، کوریش نے ایک گتھاہوا مذہبی جتھا اکٹھا کرلیا تھا جسے بیرونی دنیا سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ جسے چاہتا اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے بلاتا اور اس کے لٹھ برداروں اور پستول بازوں کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔
کوریشی فرقے میں شامل ہوتے ہی اور لوگ اپنے تمام مال و املاک سے محروم ہوجاتے مگر ’’مسیحا‘‘ کی تحویل میں لا محدود فنڈ رہتے جو بظاہر پیروکاروں کے نذرانوں پر مشتمل تھے۔ گرجے کے احاطے کے گرد میدان پرانی گاڑیوں سے اٹے پڑے تھے، جس کے پرزے جیب خرچ کی خاطر مریدوں نے بیچ ڈالے تھے، جبکہ ڈیوڈ کوریش ایک سیاہ کامارو میں سواری کے مزے لیتا تھا۔ ہر مرید کو دن میں دوبار بائبل کی طویل کلاس میں حاضری دینا پڑتی، جن میں کوریش اس امر پر زور دیتا کہ الہامی کتابوں کا مفہوم بس وہی سمجھتا ہے۔ وہ اپنے منشا کے مطابق بائبل کی تشریحات بیان کرتا۔ وہ اپنی اطاعت کروانے کے لیے غذا کو بطور ہتھیار استعمال کرتا۔ اس کی خواہش کے مطابق کھانا اکثر ناکافی رہتا۔ بعض اوقات تو خوراک گوشت کے چند قتلوں اور چوزوں پر مشتمل ہوتی جبکہ دوسرے کھانے میں صرف مکئی کے پھلے کھانے کو ملتے۔ جن مریدوں کو ویکو شہر میں جانے کا موقع ملتا وہ پنیر وغیرہ سے لطف اندوز ہولیتے۔
کوریش نے مریدوں کو یقین دلارکھا تھا کہ اس کا بیج کیونکہ الوہی نوعیت کا ہے، اس لیے فقط اسی کونسل بڑھانے کا حق ہے۔ جب وہ دوسری منزل پر ’’بیویوں‘‘ اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ داد عیش دے رہا ہوتا، جن میں گیارہ سال کی کم سن بھی تھیں، تو مرد پہلی منزل تک محدود رہتے۔ مسیحا کے خود ساختہ ضابطوں کی خلاف ورزی پر سزا دینے کے لیے ’’پھینٹی والا کمرہ‘‘ مخصوص تھا حتی ٰ کہ بعض مجرموں کو غلاظت کے گڑھے میں ڈبکی دی جاتی اور پھر نہانے کی اجازت بھی نہ ملتی۔
کوریش اپنے مریدوں کو المناک انجام کے لیے پہلے سے تیار کرتا رہا تھا۔ ایک منحرف مرید کے بقول : ’’۱۹۸۹ء میں اس مسیحا نے ایک بھاشن میں کہا تھا: ہمیں مصائب برداشت کرنے ہوں گے، ہمیں اذیتیں دی جائیں گی اور بعض کو تو قتل کیا جائے گا!‘‘
مرسلہ: اقبال احمد ریاض
(اردو ڈائجسٹ، لاہور سے ماخوذ)
——